فارسی شاعری لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کی منتخب غزلوں کا منظوم اردو ترجمہ - ڈاکٹر خالد حمید

حسان خان

لائبریرین
الا یا أیها السّاقی! أدر کأساً وناوِلها

پلا کے مَے کر اے ساقی دوائے دردِ بسمل ہا
کہ عشق آساں لگا پہلے، پڑیں پھر بیش مشکل ہا
تری خوشبوئے نافہ، جب صبا طُرّے سے کھولے گی
کرے گی زلفِ مشکیں کی شکن صد پارۂ دل ہا
مصلّیٰ رنگ لو مَے سے کہ ڈر پیرِ مغاں کو ہے
بھلا دیوے کہیں سالک نہ راہ و رسمِ منزل ہا
ہمیں کیا منزلِ جاناں میں امن و عیش، جب ہر دم
جرس فریاد کرتا ہے کہ باندھو چل کے محمل ہا
شبِ تاریک ہے، طوفاں ہے اور گرداب میں کشتی
ہمارا حال کیا جانیں سبکسارانِ ساحل ہا
بدی کے کام سے آخر میں بدنامی تو ہوتی ہے
چھپے رہتے نہیں وہ راز جو ہیں سازِ محفل ہا
حضوری چاہتا ہے تُو، تو غائب ہو نہ یوں حافظ
وہ مل جائے تو کر دے ترک، دنیائے مراحل ہا *

* کتاب میں یہاں 'مراسم ہا' درج ہے، لیکن اس طرح قافیے کی پابندی برقرار نہیں رہتی۔ لہٰذا اسے کاتب کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے اپنے گمان کے مطابق 'مراسم' کو 'مراحل' سے تبدیل کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر آن تُرکِ شیرازی به دست آرد دل ما را

اگر منظور دل میرا ہو اُس تُرکِ دل آرا کو
فدائے خال و خد کر دوں سمرقند و بخارا کو
پلا شیراز میں ساقی کہ جنت میں نہ پائیں گے
کنارِ جوئے رکناباد و گلگشتِ مصلّیٰ کو
دُہائی ہے کہ معشوقانِ شیریں کارِ شہر آشوب
دلوں کو لُوٹتے ہیں جیسے تُرکاں خوانِ یغما کو
ہمارے عشق کی پروا کرے کیوں حُسنِ بے پروا
ضرورت آب و خال و خط کی ہے کب روئے زیبا کو
ملامت مت کرو اس کی، خطا ہے حُسنِ یوسف کی
کیا دیوانگیِ شوق نے رسوا زلیخا کو
کرو مستانہ پن میں جستجو اسرارِ دنیا کی
خرد سے حل نہیں کرتے ہیں عاقل اس معمّا کو
نصیحت سُن، کہ اے پیارے! عزیز از جان رکھتے ہیں
جوانانِ سعادت مند، پندِ پیرِ دانا کو
برا مجھ کو کہا، خوش ہوں، بہت اچھا کیا تو نے
نوائے تلخ زیبا ہے لبِ لعلِ شکر خا کو
غزل تو نے کہی، موتی پروئے، شعر پڑھ حافظ
لُٹائے گا فلک فن پر ترے عقدِ ثریّا کو
 

حسان خان

لائبریرین
دوش از مسجد سوی میخانه آمد پیر ما

آج مسجد سے سوئے میخانہ آتا پیر ہے
اُس کی یارانِ طریقت اِس میں کیا تدبیر ہے
ہم خراباتِ مغاں میں پیر کے ہمدم بنے
اپنی تو عہدِ ازل سے بس یہی تقدیر ہے
رُو بسوئے کعبہ کیسے ہم مرید اُس کے کریں
خانۂ خمّار جب قبلہ بناتا پیر ہے
عقل ہووے آشنائے عیشِ بندِ زلف جب
کیسے ہر عاقل کے پاؤں میں پڑے زنجیر ہے
جب سے روئے یار نے دی آیتِ لطف و کرم
مہربانی کے سوا کچھ بھی نہ اور تفسیر ہے
آہِ آتش بار و سوزِ نالۂ شبگیر کی
سنگ دل پر ایک ذرّہ بھی نہ کچھ تاثیر ہے
مطمئن تھا مرغِ دل پھندے میں اُس کی زلف کے
کھول کر گیسو پریشاں کر دیا نخچیر ہے
جب ہوا گیسوئے جاناں کو بناتی ہے گھٹا
کرتی اور سودائے زلفِ یار کی توقیر ہے
پاس تیرے ہیں کمانِ ابرو و تیرِ نظر
کم نہیں کچھ آہ میری، اک بلا کا تیر ہے
میں بھی حافظ کی طرح بیٹھوں نہ میخانے میں کیوں
جب خراباتی بنا، اے یار، اپنا پیر ہے
 

حسان خان

لائبریرین
ساقی به نور باده برافروز جام ما

ساقی! بہ نورِ بادہ برافروز جام ہے
مطرب! بہ نغمہ قلب میں عیشِ دوام ہے
ہم دیکھتے ہیں عکسِ رخِ یار جام میں
کیسی حسین لذتِ شُربِ مُدام ہے
ناز و ادا کو بھول گئے ہیں سہی قداں
دیکھا جو میرا سروِ صنوبر خرام ہے
مرتا نہیں ہے، جس کا ہو دل زندہ عشق سے
دیوے ثبات دہر کو اُنسِ دوام ہے
دیکھا جو مست شاہدِ دلبر کی آنکھ کو
مستوں نے اپنے دل کی اُسے دی لگام ہے
نانِ حلالِ شیخ سے بڑھ کے بہت ہوا
مقبول میرا حشر میں آبِ حرام ہے
گذرے گلی سے اُس کی جو بادِ صبا، تجھے
دینا ضرور یار کو میرا پیام ہے
یوں جان بوجھ کر نہ بھلا میرے نام کو
مٹ جائے خود بخود ہی زمانے میں نام ہے
مانندِ لالہ دل بھی مرا ہے اسیرِ سرو
آئے نہ مرغِ بخت کسی رُو بہ دام ہے
ہو کشتیِ ہلال کہ دریائے آسماں
ہر چیز غرقِ نعمتِ حاجی قوام ہے
حافظ نے دانے اشک کے ڈالے تو ہیں بہت
کرتا نہ مرغِ وصل مگر قصدِ دام ہے
 

حسان خان

لائبریرین
ساقیا برخیز و درده جام را

آؤ ساقی اور بھر دو جام کو
بھاڑ میں ڈالو غمِ ایام کو
ساغرِ مے ہاتھ میں آئے تو میں
پھینک دوں اس دلقِ ازرق فام کو
بے وقوفی ہی سہی پر عاقلو!
چاہتے ہم ہیں نہ ننگ و نام کو
ہے تکبر کے مرض میں مبتلا
دفن کر دو نفسِ نافرجام کو
آگ سینے کی، مرے دل کی جلن
دے جلا افسردگانِ خام کو
بات یہ سچّی ہے میرے رازداں
میں نہ جانوں خاص کو، نے عام کو
دل لگا ہے ایسے دل آرام سے
لُوٹ کر جو لے گیا آرام کو
پھر نظر ڈالی نہ سروِ باغ پر
دیکھ کر اُس سروِ سیم اندام کو
اے زمانے کے مسافر غم نہ کر
جھیل ہنس کے گردشِ ایّام کو
صبر کر حافظ، بہ سختی، روز و شب
سہل کرتا صبر ہے ہر کام کو
 

حسان خان

لائبریرین
صوفی بیا که آینه صافیست جام را

صوفی! لے آ کے ہاتھ میں اک صاف جام کو
دیکھ اس میں پھر صفائے مئے لعل فام کو
رازِ درونِ پردہ تو رندوں کے پاس ہے
کیا علم اس کا صوفیِ عالی مقام کو
عنقا شکار ہو نہیں سکتا ہے، جال اٹھا!
مِلتا نہیں ہَوا کے سوا کچھ بھی دام کو
بیٹھے ہیں تھامے اپنے دلِ کج روش کو ہم
پکڑا ہے جب سے عشق نے اس کی زمام کو
در پر ترے ہزار ہیں خدمت کے حق مرے
اے خواجہ! ہاتھ کھول کے دے اِس غلام کو
کھا پی کے عیش کر، کہ نہ ہو آب و دانہ جب
آدم بھی چھوڑ بیٹھے ہے جنت مقام کو
دو ایک گھونٹ پی کے نکل بزمِ یار سے
پایا کسی نے یاں پہ نہ وصلِ دوام کو
عہدِ شباب میں نہ ملا کچھ مجھے اگر
پیری میں کیوں رکھوں ہوسِ ننگ و نام کو
حافظ مریدِ ساغرِ جمشید ہے، صبا
جا کر مرا سلام دے اُس شیخِ جام کو
 

حسان خان

لائبریرین
صلاح کار کجا و من خراب کجا

صلاحِ کار کہاں، عاشقِ خراب کہاں
مقامِ ضعف کہاں، منزلِ شباب کہاں
صلاح و تقویٰ سے رندی کو کون سی نسبت
سماعِ وعظ کہاں، نغمۂ رباب کہاں
نہ چاہے خانقہ دل اور نہ دلقِ مکّاری
کدھر ہے دیرِ مغاں، ہے شرابِ ناب کہاں
نہ روزِ وصل میسر، نہ چھیڑ چھاڑ کی شب
کدھر ہے تیری عنایت، ترا عتاب کہاں
نہ روئے یار سے روشن ہوا دلِ دشمن
چراغِ مردہ کہاں، شمعِ آفتاب کہاں
سنبھل کہ چاہِ زنخداں ہے راہ میں تیری
ٹھہر دلِ حزیں، جاتا ہے پُرشتاب کہاں
بنی ہے خاکِ درِ یار آنکھ کا سرمہ
میں جاؤں چھوڑ کے یہ درگہ و جناب کہاں
نہ پوچھ تو دلِ حافظ کا حال اے ہمدم
قرار کیسا، صبوری کدھر ہے، خواب کہاں
 

حسان خان

لائبریرین
صبا به لطف بگو آن غزال رعنا را

صبا تُو جا کے بتا اُس غزالِ رعنا کو
کہ پھرتا چھانتا عاشق ہے خاکِ صحرا کو
اے شاہِ کشورِ خوبی، اے ملکۂ خوباں
نہ بھول اپنے غریبانِ دشت و صحرا کو
شکر فروش تجھے پُرشکر لبوں کی قسم
چکھا ذرا سی شکر طوطیِ شکر خا کو
غرورِ حسن روا ہے تجھے مگر اے گل
کبھی تو پوچھ لے اس عندلیبِ شیدا کو
نگاہِ ناز سے ہوتا ہے صیدِ اہلِ نظر
بہ دام و دانہ پکڑیئے نہ مرغِ دانا کو
تو بزمِ غیر میں کرتا ہے بادہ پیمائی
نہ بھول اپنے حریفانِ باد پیما کو
خدایا کیوں نہ دیا رنگِ آشنائی بھی
سہی قدانِ سیہ چشم و ماہ سیما کو
نہ رہتا عیب ذرا سا بھی حسن میں، ملتا
جو خالِ مہر و وفا تیرے روئے زیبا کو
کلامِ حافظِ شیراز عرش میں سن کر
سماعِ زہرہ کرے وجد میں مسیحا کو
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچه باده فرح‌بخش و باد گل‌بیز است

اگرچہ بادہ فرح بخش ہے، ہوا گل بیز
بہ بانگِ چنگ نہ پینا کہ محتسب ہے تیز
اگر صراحی و شاہد تمہیں بہم ہو جائیں
نہ بھولنا کہ زمانہ بہت ہے فتنہ خیز
چھپاؤ ساغرِ مے آستینِ خرقہ میں
کہ مثلِ چشمِ صراحی زمانہ ہے خوں ریز
ہے رنگِ بادہ جو خرقے پہ، اشک سے دھو لو
کہ دَورِ زہد ہے، آیا ہے موسمِ پرہیز
نہ دے گا عیش و طرب دَورِ واژگونِ فلک
کہ صاف مئے سرِ خُم بھی ہے جملہ دُرد آمیز
ہے آسمان کی غربال خوں فشاں ایسی
ہے قطرہ قطرہ سرِ کسریٰ، افسرِ پرویز
بہ نورِ فضلِ الٰہی، بہ فیضِ سبحانی
ہے روشنیِ دلِ بندگاں سحر آمیز
ہے دھوم آپ کی حافظ عراق و پارس میں
سو اب ہے نوبتِ بغداد و موقعِ تبریز
 

حسان خان

لائبریرین
ای نسیم سحر آرامگه یار کجاست

اے نسیمِ سحر آرامگہِ یار کہاں
منزلِ مہ وشِ عاشق کُشِ عیّار کہاں
رات تاریک ہے اور وادیِ ایمن در پیش
آتشِ طور کہاں، وعدۂ دیدار کہاں
اس خرابات میں جو آئے خرابی لائے
میکدے میں یہ نہ پوچھو کہ ہے ہشیار کہاں
ہے وہی اہلِ بشارت جو اشارہ سمجھے
یوں تو نکتے ہیں بہت، محرمِ اسرار کہاں
رونگٹا رونگٹا باندھے ہے مری بندشِ عشق
جانے یہ بات نصیحت گرِ بیکار کہاں
سوختہ عاشقِ خستہ ہوا فرقت میں تری
تو نے پوچھا بھی نہیں، ہے میرا غمخوار کہاں
بادہ و مطرب و گل سب ہیں مہیا لیکن
چین دل کو نہیں حاصل ہے، کہ ہے یار کہاں؟
عقل دیوانی ہوئی، باندھو اسے گیسو سے
دل گیا ہاتھ سے، ہے ابروئے دلدار کہاں
واعظ و شیخ کی صحبت میں لگے دل نہ مرا
کیا ہوا مُغ بچہ، ہے خانۂ خمّار کہاں
حلقہ در حلقہ ترے گیسو سے پوچھے کوئی
ہے دلِ غمزدہ، زلفوں کا گرفتار کہاں
چمنِ دہر میں حافظ نہ خزاں کا غم کر
فکرِ معقول ہے لازم، گلِ بے خار کہاں
 

حسان خان

لائبریرین
بیا که قصر امل سخت سست بنیادست

ضعیف قصرِ تمنا کی ہے بہت بنیاد
پلاؤ بادہ کہ بنیادِ عمر ہے برباد
غلامِ رحمتِ سبحاں بنو کہ گر بندہ
اسیرِ بندِ تعلق بنے، تو ہے آزاد
ہے تم کو گوشِ نصیحت تو بات میری سنو
کہ پندِ پیرِ طریقت مجھے ہے اب تک یاد
نہ ڈھونڈو نیک نہادی جہانِ باطل میں
کہ اس عجوزہ کے شوہر ہزار ہیں برباد
خراب و مست مجھے میکدے میں دیکھ کے کل
سروشِ غیب نے یہ کہہ کے کر دیا دل شاد
کہ اے بلند نظر شاہبازِ سدرہ نشیں
نہیں ہے گوشۂ راحت تیرا محن آباد
تجھے تو کنگرۂ عرش دیتے ہیں آواز
بھلا عزیز تجھے کیوں ہے دامِ پُرافتاد
غمِ جہاں نہ کرو، بات کچھ سنو میری
کہ ایک صوفی کی باتیں ہیں خوب مجھ کو یاد
رضائے رب پہ ہو راضی، شکن جبیں پہ نہ ڈال
نہ ہو گا ہم پہ کبھی بابِ اختیار کشاد
نہیں تبسمِ گل میں کوئی نشانِ وفا
بجا ہے بلبلِ مسکیں اگر کرے فریاد
یہ سست نظم، حسد کیوں کرے ہیں حافظ سے
کہ شہرت اور یہ لطفِ سخن، خدا کی ہے داد
 

حسان خان

لائبریرین
بنال بلبل اگر با منت سر یاریست

کر ایک شور تُو بلبل جو ہم سے ہے یاری
کہ ہم ہیں عاشقِ زار، اپنا کام ہے زاری
نسیمِ زلف اگر گلستاں کو مہکا دے
تو کیا مجال رکھیں، نافہ ہائے تاتاری
شراب لا کہ کریں سرخ اپنا جامۂ دلق
کہ نشّہ اپنا تکبر ہے نام ہشیاری
نہیں ہے توبہ کا در بند، عاشقِ خورسند
بھری بہار میں توبہ نہیں ہے ہشیاری
کرشمہ وصل کا گر خواب میں نظر آئے
کھلے نہ آنکھ کبھی، ہو کبھی نہ بیداری
نہ خام کاروں کے بس کی ہے بندشِ کاکل
ہے دامِ زلف میں آنا طریقِ عیاری
لطیفہ اور ہے ہوتا ہے جس سے پیدا عشق
نہ نام، لعلِ لب اس کا، نہ خطِّ زنگاری
یہ صرف زلف کی، عارض کی، لب کی بات نہیں
چلے ہزار طرح کاروبارِ دلداری
لگانا سر ترے در پر ہر اک کا کام نہیں
کہ ملتی سروری سر کو ہے یہ بہ دشواری
قبائے اطلسِ زرین بے ہنر کی کوئی
کرے نہ مردِ طریقت کبھی خریداری
فغاں سے کر نہ تُو آزردہ دل کو اے حافظ
ہے رستگاریِ دائم دروں کم آزاری
 

حسان خان

لائبریرین
برو به کار خود ای واعظ این چه فریادست

لگ اپنی راہ تو واعظ کرے ہے کیوں فریاد
ہے دل فتادہ مرا، تجھ پہ کیا پڑی اُفتاد
ملیں نہ، نے کی طرح، جب تلک لبوں سے وہ لب
جہان بھر کی نصیحت ہے بادِ بے بنیاد
وہ تیری پتلی کمر جو کہ ہے، نہیں بھی ہے
دقیقہ ہے کہ جو ہوتا نہیں کسی سے کشاد
فقیرِ کوچہ ترا بے نیازِ خلدِ بریں
اسیرِ بند ترا دو جہاں میں ہے آزاد
اگرچہ مستیِ الفت خراب کرتی ہے
اِسی خرابی سے ہوتے ہیں جان و دل آباد
نہیں شکایتِ جور و عتاب کر اے دل
نصیب میں ترے لکھّی ہے یار کی بیداد
فریبِ عشوۂ حسنِ جہانِ پیر نہ کھا
کہ اس سے جس نے کیا اختلاط، ہے ناشاد
نہ کر ملامتِ دُردی کشاں تُو اے ناصح!
یہی ہے رزق ہمارا، یہی خدا کی داد
نہ کر فسون و فسانہ کی بات اے حافظ
کہ ہیں فسانہ و افسوں ہزار مجھ کو یاد
 

حسان خان

لائبریرین
جز آستان توام در جهان پناهی نیست

تمہارے در کے سوا اور کوئی پناہ نہیں
سوائے اس کے کوئی بھی حوالہ گاہ نہیں
عدو جو عاشقِ خستہ پہ کھینچے تیغ، کہو
کہ تیر اس کے تئیں جز فغان و آہ نہیں
منہ اپنا کوئے خرابات سے میں کیوں پھیروں
کہ یاں سے بیش کہیں میری رسم و راہ نہیں
زمانہ گر تو جلاتا ہے میرے خرمن کو
جلا کہ اس میں تو کچھ بھی سوائے کاہ نہیں
غلامِ شوخیِ چشمِ سہی قداں ہوں میں
ملاتے اپنی کسی سے جو وہ نگاہ نہیں
جو چاہے کیجیے، دل کو دُکھائیے نہ مگر
کہ کوئی دنیا میں اس سے بڑا گناہ نہیں
دیارِ حسن کی ملکہ! نہ ایسے ناز سے چل
کہ راہ کوئی نہیں جس میں داد خواہ نہیں
عقابِ جور نے کھولے ہیں بال و پر لیکن
کمانِ گوشہ نشیناں میں تیرِ آہ نہیں
ہیں راہِ عشق میں سو دام ہر طرف، سو مجھے
سوائے حلقۂ گیسو کوئی پناہ نہیں
خزینۂ دلِ حافظ بہ زلف و خال نہ دے
کہ اتنے کام کی تو ہر شئے سیاہ نہیں
 

حسان خان

لائبریرین
حاصل کارگه کون و مکان این همه نیست

حاصلِ کارگہِ کون و مکاں کچھ بھی نہیں
پی کے ہو مست کہ اسبابِ جہاں کچھ بھی نہیں
ہے دل و جاں سے ہمیں صحبتِ جاناں کی طلب
کہ بدوں وصل، ہمارے دل و جاں کچھ بھی نہیں
سایۂ سدرہ و طوبیٰ نہ ملے تو کیا ہے
ترے آگے یہ شجر، سروِ رواں کچھ بھی نہیں
وہی دولت ہے جو بے خونِ جگر ہاتھ آئے
گر وہ محنت سے ملے، باغِ جناں کچھ بھی نہیں
یک زماں گر ملے مہلت تو غنیمت جانو
کہ کشاکش کے سوا کارِ زماں کچھ بھی نہیں
بر لبِ بحرِ فنا بیٹھے ہیں ہم اے ساقی
لے کے مے آ کہ رہا وقت یہاں کچھ بھی نہیں
زہد و تقویٰ پہ نہ ہو اتنا تو نازاں زاہد!
کہ رہِ صومعہ تا دیرِ مغاں کچھ بھی نہیں
ایسا بے بس ہے دلِ سوختۂ زار مرا
کہ اسے حاجتِ تقریر و بیاں کچھ بھی نہیں
فکرِ رسوائی نہ کر، عیش سے رہ، گل کی طرح
کہ یہ سب عزِّ جہانِ گذراں کچھ بھی نہیں
نامِ حافظ کو ملی ہے رقمِ نیک مگر
پیشِ رنداں، رقمِ سود و زیاں کچھ بھی نہیں
 

حسان خان

لائبریرین
خوشتر ز عیش و صحبت و باغ و بهار چیست

مے کے بغیر بزم ہے کیا، نوبہار کیا
ساقی کہاں ہے اور ہے یہ انتظار کیا
معنیِ آبِ زندگی و روضۂ ارم
جز طرفِ جوئبار و مئے خوشگوار کیا
تھوڑی بہت خوشی بھی زمانے میں ہے بہت
جز رنج ورنہ عمر کا انجامِ کار کیا
دامِ زماں سے بچ کے میں الجھا ہوں زلف میں
ہے تیرا غم تو مجھ کو غمِ روزگار کیا
رازِ درونِ پردہ تو مستوں سے پوچھیے
ہوش و خرد سے واسطۂ پردہ دار کیا
درویش و رند اصل میں دونوں ہی ایک ہیں
دل دے کے ان کے پاس رہا اختیار کیا
مکر و فریب دنیا میں ہیں کامیاب جب
معنیِ عفو و رحمتِ پروردگار کیا
کوثر کا خمر شیخ کو، حافظ کو جامِ مے
دونوں میں ہے پسند تجھے کردگار، کیا
 

حسان خان

لائبریرین
یوسف گمگشته بازآید به کنعان غم مخور

یوسفِ گُم گشتہ لوٹ آئے گا کنعاں، غم نہ کر
تیرا ویرانہ بنے گا پھر گلستاں، غم نہ کر
اس دلِ غمگیں کی حالت ہو گی بہتر جی نہ چھوڑ
یہ سرِ شوریدہ پھر ہو گا بہ ساماں، غم نہ کر
پھر بہار آئے گی اِس اُجڑے گلستاں میں ترے
سر پہ ہو گا چترِ گل اے مرغِ خوش خواں، غم نہ کر
دَورِ گردوں آج کل دیتا ہے غم تو کیا ہوا
دائماً یکساں نہیں ہے کارِ دوراں، غم نہ کر
دل نہ کر تھوڑا جو رازِ غیب سے واقف نہیں
ہیں درونِ پردہ بازی ہائے پنہاں، غم نہ کر
آج کل غم خوار دنیا میں نہیں ملتا اگر
ایک دن تیرے بھی ہوں گے غم گساراں، غم نہ کر
شوقِ کعبہ کو بیاباں میں لیے جاتا ہے تُو
سرزنش کرتے ہیں گر خارِ مغیلاں، غم نہ کر
حالِ دردِ فرقتِ جاناں و ابرامِ عدو
جانتا ہے سب خدائے حال گرداں، غم نہ کر
مانا یہ سیلِ فنا اے دل مٹاتا ہے تجھے
نوح جب ہے ناخدا، پھر کیا ہے طوفاں؟ غم نہ کر
گرچہ مقصد ہے نہاں، منزل ہے تیری پُرخطر
راہ ایسی ہے کوئی، جو ہو نہ پایاں؟ غم نہ کر
حافظا! کُنجِ فقیری اور شبِ تاریک میں
پڑھ وظیفہ، کر دعا، لے درسِ قرآں، غم نہ کر
 

تلمیذ

لائبریرین
ترجمے کی کیا ہی بات ہے۔ لیکن اگر پہلے کی طرح اس کو فارسی کے اصل متن کے ساتھ شعر با شعر لکھا جاتا تو لُطف دوبالا ہو جاتا۔ کیونکہ فارسی اشعار دیکھنے کے لئے دیوان حافط ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔
 
Top