پاکستانی
محفلین
گریبان…منوبھائی
صدر جنرل پرویز مشرف نے صحیح فرمایا ہے کہ قومی فوج کے سوا اور کوئی لشکر قابل قبول نہیں ہو سکتا مگر ہمارے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں موجود خرابیوں میں سے نمایاں خرابیاں یہ ہیں کہ ہم لشکریت، بادشاہت اور درندگی سے کچھ زیادہ فاصلہ رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اپنی سیاسی اور دینی یا مذہبی تنظیموں کے لئے سپاہ اور لشکر کے نام تجویز کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے لوگوں پر چھا جانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے قابو اور قبضے میں کرلینا چاہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو تباہ و برباد کر دینا اور ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں اور اپنے لئے فتح کے پھر یرے لہرانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اپنے ایک بے بدل سابق فوجی شاعر سید ضمیر جعفری مرحوم کے اس مقولہ نما شعر پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ
ضمانت امن عالم کی نہتے لوگ ہوتے ہیں
جہاں لشکر نہیں ہوتے وہاں جنگیں نہیں ہوتیں
لشکر کے علاوہ بادشاہت، شاہی شان و شوکت، شہزادگی، دربارداری اور شاہی کرّوفر بھی ہمارے نفسیاتی نہاں خانوں میں کلبلاتا رہتاہے چنانچہ ہم کچھ لوگوں کو بہت زیادہ عزت و احترام کا مقام فراہم کرنے کے لئے ”شہنشاہ غزل“ ملکہ موسیقی، ملکہ ترنم بنا دیتے ہیں۔ قومی اعزاز کی صورت میں انہیں نقلی تاج پہنا کر جھوٹ کی مسند پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ کوئی نفسیاتی بیماری ہے یا ہمارا کوئی ”مکنیکل ڈی فیکٹ“ نسلی کمزوری، فنی خرابی یا کوئی اور عارضہ ہے جس کی جانب توجہ دینے کی ہمیں فرصت نہیں ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم اچھے خاصے نارمل انسانوں کے زمرے سے نکال کر بادشاہی کے دھوکے یا الزام کے حوالے کرنے کو ان کی عزت افزائی سمجھتے ہیں وہ بھی ان نقلی اور جھوٹے غیر انسانی القابات کو قبول کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی شاید ہمارے اندر کی درندگی ہی ہوگی کہ جس سے مغلوب ہو کر ہم اپنے بعض لیڈروں اور سیاستدانوں کو ”شیر پنجاب“، ”شیر سرحد“، شیر بنگال اور” شیر پاکستان“ کا خطاب عنایت فرماتے ہیں۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز حرکت ہو سکتی ہے اور بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجاب کے لوگ اپنے بعض پہلوانوں کو ”پری پیکر“ قرار ددیا کرتے تھے اور ان پری پیکروں میں کبھی کبھی بہت سارے ڈائنا سور،ہاتھی اور سوسمار بھی شامل ہو جاتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے لیڈروں کو ”شیر پنجاب“ بنا کر انسان سے درندہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے مگر ہمیں کوئی جنگلی یا وحشی قرار دے دے تو ناراض ہو جاتے ہیں حالانکہ شیروں کی سرکردگی میں سیاست کرنے والے جنگلی اور وحشی ہی ہو سکتے ہیں۔ لشکریت، شہنشاہی اور درندگی کے اوصاف کو پسند کرنے والے مہذب اور متمدن ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ذہنی اور جذباتی طور پر ہزاروں سال پہلے کے زمانوں میں رہنے والے موجودہ دور اور زمانے کے ساتھ اپنا رشتہ کیسے بنا سکتے ہیں؟
غور کیا جائے تو موجودہ دور اور زمانے میں لشکریت، شہنشاہی اور درندگی کے انداز اور طریقے بدل گئے ہیں۔ ان بدلے ہوئے حالات اور طریقوں کے تحت ہم عراق پر امریکی لشکر کشی کے نتیجے میں پانچ لاکھ پچپن ہزار بے گناہ شہریوں کی لاشیں تو گنا لیتے ہیں مگر امریکی ”گلوبلائزیشن“ نیو ورلڈ آرڈر او رورلڈ بینک آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی اقتصادی اور معاشی دہشت گردی کے تحت کروڑوں محنت کشوں کو بے روزگاری کے جہنم میں پھینکنے کی صورت میں جو تباہی مچائی جا رہی ہے اس کے کشتوں کے پشتے گنے نہی جا سکتے۔ حالانکہ معاشی قتل جسمانی قتل سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ جسمانی قتل عام کے تحت پانچ لاکھ پچپن بے گناہ مارے جاتے ہیں مگر معاشی قتل عام نسل در نسل تباہی اور بربادی پھیلانے کاذمہ دار ہوتا ہے۔بلاشبہ پاکستان کی قومی فوج کے سوا اور کوئی لشکر قابل قبول نہیں ہونا چاہئے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نئے دور اور نئے حالات کے نئے تقاضوں کے تحت اب کسی بیرونی طاقت کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے لشکر کشی کا خرچہ اور خطرہ برداشت کرے۔ بیرونی طاقت کسی ملک کی لشکری قیادت کے دلوں، دماغوں اور خواہشوں کو جیت کر بغیر لشکر کشی کے اس ملک کو فتح کر سکتی ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو قرضے اور حکومت کو مشورے دے کر اپنے مفادات کا غلام بنا سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ 11 دسمبر 2006
صدر جنرل پرویز مشرف نے صحیح فرمایا ہے کہ قومی فوج کے سوا اور کوئی لشکر قابل قبول نہیں ہو سکتا مگر ہمارے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں موجود خرابیوں میں سے نمایاں خرابیاں یہ ہیں کہ ہم لشکریت، بادشاہت اور درندگی سے کچھ زیادہ فاصلہ رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اپنی سیاسی اور دینی یا مذہبی تنظیموں کے لئے سپاہ اور لشکر کے نام تجویز کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے لوگوں پر چھا جانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے قابو اور قبضے میں کرلینا چاہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو تباہ و برباد کر دینا اور ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں اور اپنے لئے فتح کے پھر یرے لہرانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اپنے ایک بے بدل سابق فوجی شاعر سید ضمیر جعفری مرحوم کے اس مقولہ نما شعر پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ
ضمانت امن عالم کی نہتے لوگ ہوتے ہیں
جہاں لشکر نہیں ہوتے وہاں جنگیں نہیں ہوتیں
لشکر کے علاوہ بادشاہت، شاہی شان و شوکت، شہزادگی، دربارداری اور شاہی کرّوفر بھی ہمارے نفسیاتی نہاں خانوں میں کلبلاتا رہتاہے چنانچہ ہم کچھ لوگوں کو بہت زیادہ عزت و احترام کا مقام فراہم کرنے کے لئے ”شہنشاہ غزل“ ملکہ موسیقی، ملکہ ترنم بنا دیتے ہیں۔ قومی اعزاز کی صورت میں انہیں نقلی تاج پہنا کر جھوٹ کی مسند پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ کوئی نفسیاتی بیماری ہے یا ہمارا کوئی ”مکنیکل ڈی فیکٹ“ نسلی کمزوری، فنی خرابی یا کوئی اور عارضہ ہے جس کی جانب توجہ دینے کی ہمیں فرصت نہیں ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم اچھے خاصے نارمل انسانوں کے زمرے سے نکال کر بادشاہی کے دھوکے یا الزام کے حوالے کرنے کو ان کی عزت افزائی سمجھتے ہیں وہ بھی ان نقلی اور جھوٹے غیر انسانی القابات کو قبول کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی شاید ہمارے اندر کی درندگی ہی ہوگی کہ جس سے مغلوب ہو کر ہم اپنے بعض لیڈروں اور سیاستدانوں کو ”شیر پنجاب“، ”شیر سرحد“، شیر بنگال اور” شیر پاکستان“ کا خطاب عنایت فرماتے ہیں۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز حرکت ہو سکتی ہے اور بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنجاب کے لوگ اپنے بعض پہلوانوں کو ”پری پیکر“ قرار ددیا کرتے تھے اور ان پری پیکروں میں کبھی کبھی بہت سارے ڈائنا سور،ہاتھی اور سوسمار بھی شامل ہو جاتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے لیڈروں کو ”شیر پنجاب“ بنا کر انسان سے درندہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے مگر ہمیں کوئی جنگلی یا وحشی قرار دے دے تو ناراض ہو جاتے ہیں حالانکہ شیروں کی سرکردگی میں سیاست کرنے والے جنگلی اور وحشی ہی ہو سکتے ہیں۔ لشکریت، شہنشاہی اور درندگی کے اوصاف کو پسند کرنے والے مہذب اور متمدن ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ذہنی اور جذباتی طور پر ہزاروں سال پہلے کے زمانوں میں رہنے والے موجودہ دور اور زمانے کے ساتھ اپنا رشتہ کیسے بنا سکتے ہیں؟
غور کیا جائے تو موجودہ دور اور زمانے میں لشکریت، شہنشاہی اور درندگی کے انداز اور طریقے بدل گئے ہیں۔ ان بدلے ہوئے حالات اور طریقوں کے تحت ہم عراق پر امریکی لشکر کشی کے نتیجے میں پانچ لاکھ پچپن ہزار بے گناہ شہریوں کی لاشیں تو گنا لیتے ہیں مگر امریکی ”گلوبلائزیشن“ نیو ورلڈ آرڈر او رورلڈ بینک آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی اقتصادی اور معاشی دہشت گردی کے تحت کروڑوں محنت کشوں کو بے روزگاری کے جہنم میں پھینکنے کی صورت میں جو تباہی مچائی جا رہی ہے اس کے کشتوں کے پشتے گنے نہی جا سکتے۔ حالانکہ معاشی قتل جسمانی قتل سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ جسمانی قتل عام کے تحت پانچ لاکھ پچپن بے گناہ مارے جاتے ہیں مگر معاشی قتل عام نسل در نسل تباہی اور بربادی پھیلانے کاذمہ دار ہوتا ہے۔بلاشبہ پاکستان کی قومی فوج کے سوا اور کوئی لشکر قابل قبول نہیں ہونا چاہئے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نئے دور اور نئے حالات کے نئے تقاضوں کے تحت اب کسی بیرونی طاقت کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے لشکر کشی کا خرچہ اور خطرہ برداشت کرے۔ بیرونی طاقت کسی ملک کی لشکری قیادت کے دلوں، دماغوں اور خواہشوں کو جیت کر بغیر لشکر کشی کے اس ملک کو فتح کر سکتی ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو قرضے اور حکومت کو مشورے دے کر اپنے مفادات کا غلام بنا سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ 11 دسمبر 2006