محمد ریحان قریشی
محفلین
رنگ از گدازِ چشم جو پیدا کرے کوئی
تب جا کے تیرا اصل تماشا کرے کوئی
ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی
کیوں اس وجودِ زشت کو زیبا کرے کوئی
زیبا جسے کہیں اسے مجھ سا کرے کوئی
حاصل سوائے خونِ تمنا نہ چاہیے
جب تک امید ہو نہ تمنا کرے کوئی
از بسکہ عمر ہو گئی اس شغل میں تمام
اب ناتمامیوں کا گلہ کیا کرے کوئی
سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی
ہر راہ ایک معبدِ منزل ہے راہیو
اپنی جبیں کو نقشِ کفِ پا کرے کوئی
تب جا کے تیرا اصل تماشا کرے کوئی
ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی
کیوں اس وجودِ زشت کو زیبا کرے کوئی
زیبا جسے کہیں اسے مجھ سا کرے کوئی
حاصل سوائے خونِ تمنا نہ چاہیے
جب تک امید ہو نہ تمنا کرے کوئی
از بسکہ عمر ہو گئی اس شغل میں تمام
اب ناتمامیوں کا گلہ کیا کرے کوئی
سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی
ہر راہ ایک معبدِ منزل ہے راہیو
اپنی جبیں کو نقشِ کفِ پا کرے کوئی
آخری تدوین: