لفظوں کی بے کسی کو بھی دیکھا کرے کوئی

رنگ از گدازِ چشم جو پیدا کرے کوئی
تب جا کے تیرا اصل تماشا کرے کوئی

ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی

کیوں اس وجودِ زشت کو زیبا کرے کوئی
زیبا جسے کہیں اسے مجھ سا کرے کوئی

حاصل سوائے خونِ تمنا نہ چاہیے
جب تک امید ہو نہ تمنا کرے کوئی

از بسکہ عمر ہو گئی اس شغل میں تمام
اب ناتمامیوں کا گلہ کیا کرے کوئی

سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی

ہر راہ ایک معبدِ منزل ہے راہیو
اپنی جبیں کو نقشِ کفِ پا کرے کوئی
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے قریشی صاحب اور یہ اشعار تو خاص طور پر بہت پسند آئے:

سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی

ہر ایک راہ معبدِ منزل ہے راہیو
اپنی جبیں کو نقشِ کفِ پا کرے کوئی

لاجواب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسی ہو کیفیت کہ تمنا کوئی نہ ہو
اس کیفیت کی بھی نہ تمنا کرے کوئی
اس شعر میں ذرا "کیفیت" کو دیکھ لیں، میرے خیال میں اس کا صحیح وزن فاعلن کی بجائے مفعولن (کے فی یت) ہے۔ سودا:

کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

اور اقبال

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
 

الف عین

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے ماشاء اللہ ۔ کیفیت کا تلفظ مجھے بھی کھٹکتا تھا، اور اسی کے ساتھ 'کی بھی' کو 'کبھی' باندھا جانا بھی نا گوار ہوا تھا۔
 
اس شعر میں ذرا "کیفیت" کو دیکھ لیں، میرے خیال میں اس کا صحیح وزن فاعلن کی بجائے مفعولن (کے فی یت) ہے۔ سودا:

کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

اور اقبال

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
حوصلہ افزائی اور نشاندہی پر بے حد ممنون ہوں۔
بہت اچھی غزل ہے ماشاء اللہ ۔ کیفیت کا تلفظ مجھے بھی کھٹکتا تھا، اور اسی کے ساتھ 'کی بھی' کو 'کبھی' باندھا جانا بھی نا گوار ہوا تھا۔
شکرگزار ہوں استادِ محترم۔ متبادل سوچتا ہوں۔
 

La Alma

لائبریرین
خوب خیال آرائی ہے۔ زبردست!!
رنگ از گدازِ چشم جو پیدا کرے کوئی
تب جا کے تیرا اصل تماشا کرے کوئی
بہت عمدہ !
یہاں حضرتِ اقبال کی اس سوچ کا تسلسل معلوم ہو رہا ہے۔
"ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی "
ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی
کوئی اگر پیاس کے سراب کو صحرا کر بھی دے تو اس میں عجب کیا ہو گا؟ صحرا میں آب کا گمان ہونا تو ویسے بھی فریبِ نظر یا التباس ہی ہوتا ہے۔
مصرع ثانی میں البتہ یہ مقصد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔
 
خوب خیال آرائی ہے۔ زبردست!
ذرہ نوازی پر سپاس گزار ہوں.
کوئی اگر پیاس کے سراب کو صحرا کر بھی دے تو اس میں عجب کیا ہو گا؟ صحرا میں آب کا گمان ہونا تو ویسے بھی فریبِ نظر یا التباس ہی ہوتا ہے۔
مصرع ثانی میں البتہ یہ مقصد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔
یہاں زور پیاس کے سراب پر ہے: یعنی وہ تشنگی جو محسوس تو ہو لیکن دراصل وجود نہ رکھتی ہو؛ ایک ایسا فریب جو شاید آبِ رواں کی فراوانی میں دکھائی دیتا ہے.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سوز و گداز شعر میں یوں ہے تو کم مگر
لفظوں کی بے بسی کو بھی دیکھا کرے کوئی

بہت خوب!! کیا اچھا کہا ہے ! بہت داد!! کیا بات ہے!! واہ!

ہر پیاس کے سراب کو صحرا کرے کوئی
ہر لرزشِ حباب کو دریا کرے کوئی

یہ شعر دولخت لگ رہا ہے ۔ اگر کوئی ربط ہے بھی تو اس میں موجود تلازمات سے واضح نہیں ہو پارہا ۔ نیز پیاس کا سراب بذاتِ خود محتاجِ وضاحت ہے جو موجود نہیں ۔ اسے دیکھ لیجئے ۔
 
Top