لفظوں کی لفاظی ۔از عارف وقار(بی بی سی)

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ بات بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کہ کوئی بھی زندہ زبان جامد اور متعیّن شکل میں قائم نہیں رہ سکتی۔ عالمی سیاست کی ہلچل، مقامی سیاست کی اکھاڑ بچھاڑ، عالمی سطح پر آنے والے تہذیبی انقلاب اور مقامی سطح پر ہونے والی چھوٹی موٹی ثقافتی سرگرمیاں یہ سب عوامل ہماری زبان پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی ہمارا واسطہ نئے نئے الفاظ سے پڑتا ہے یا پُرانے لفظوں کا ایک نیا مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے۔
ہر زندہ زبان اِن تبدیلیوں کو قبول کرتی ہے اور اپنا دامن نئے الفاظ و محاورات سے بھرتی رہتی ہے۔انہی تبدیلیوں کے دوران بعض زیرِ استعمال الفاظ و محاورات متروک بھی ہو جاتے ہیں۔ گویا جس طرح ایک زندہ جسم پُرانے خلیات کو ختم کر کے نئے بننے والے خلیات کو قبول کرتا ہے اسی طرح ایک زندہ زبان میں بھی ردّوقبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اُردو کی بُنیاد اگرچہ ہندوستان کی مقامی بھاشاؤں پر استوار ہوئی تھی لیکن اس کے ذخیرۂ الفاظ نے عربی اور فارسی کے لسانی خزانوں سے بھی بہت استفادہ کیا ہے چنانچہ آج بھی اُردو جُملے کی ساخت تو مقامی ہے اور جُملے کا فعل بھی بالعموم مقامی ہوتا ہے لیکن جُملے کے دیگر عناصر میں عربی اور فارسی کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
اُردو میں مستعمل بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی اصل صورت اور تلفظ عربی فارسی یا سنسکرت میں بالکل مختلف تھا لیکن عوامی استعمال میں آنے کے بعد اُن لفظوں کا حُلیہ تبدیل ہو گیا۔ بعض مصلحینِ زبان اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ لفظ جِس زبان سے آیا ہو اُردو میں بھی اس کا تلفظ اور استعمال اسی زبان کے مطابق ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ ایک سراسر ناجائز مطالبہ ہے۔
ذیل میں چند ایسے الفاظ دیے جا رہے ہیں جن کا تلفظ اُردو میں آ کر تبدیل ہو گیا ہے اور اب یہ تبدیل شدہ تلفظ ہی درست سمجھاجائے گا۔
سنسکرت کا لفظ ویاکُل جب اُردو میں آیا تو بیکل ہو گیا یعنی بے چین، بے قرار۔ سنسکرت کا پشچِم اُردو میں پچھَم ہو گیا اسی طرح سنسکرت پُوْر و اُردو تک آتے آتے پُوَرب ہو گیا۔
فارسی میں لفظ پِیراہن ہے یعنی پ کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں یہ پَیراہن بن چُکا ہے یعنی پ کے اُوپر زبر کے ساتھ۔ اسی طرح فارسی کا پِیرایہ اُردو میں آ کر پَیرایہ بن جاتا ہے۔
عربی لفظ حِجامۃ میں ج کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں حَجامت بنا تو ح کے اوپر زبر لگ گئی۔ اسی طرح عربی کے حَجَلہ میں ح اور ج دونوں کے اوپر زبر ہوتی ہے لیکن اُردو میں آ کر یہ حُجْلہ بن گیا یعنی ح کے اوپر پیش لگ گئی (مثلاً حُجلۂ عروسی)۔ عربی کے لفظ حِشمۃ کا مطلب حیاداری ہے۔ اُردو میں آ کر اسکا مطلب شان و شوکت اور رعب داب بن گیا۔ ساتھ ہی اسکا تلفظ بھی بدل گیا اور ح پر زبر لگ گئی یعنی یہ حَشمت بن گیا۔
ظاہری شکل و صورت کے مفہوم میں ہم حُلیہ کا لفظ عام استعمال کرتے ہیں لیکن اسکا اصل عربی تلفظ حِلیہ ہے یعنی ح کے نیچے زیر ہے۔ پرندے کے پوٹے اور پِتّے کو عربی میں حوَصَََلہ کہتے ہیں یعنی ص پر زبر کے ساتھ، لیکن اُردو میں ص پر جزم ہے اور اسکا تلفظ حوص+ لہ ہو گیا ہے۔ اُردو میں اسکا لُغوی مفہوم مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ہمت اور جرات کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
عربی میں خََصْم(ص پر جزم) کا مطلب ہے دُشمن، جس سے نکلا ہوا لفظ خُصُومت (دشمنی) اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ خود لفظ خصم ہمارے یہاں شوہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ ص پر جزم کی بجائے زبر لگا دی جاتی ہے (خَصَم)۔
عربی میں لفظ دَرَجہ ہے یعنی دال پر زبر اور ر پر بھی زبر، لیکن اُردو میں ہم دْرجہ کہتے ہیں (در + جہ)۔ عربی میں ُدکّان کی ک پر تشدید ہے لیکن اُردو میں نہیں ہے۔ عربی میں لفظ رحِم ہے یعنی ح کے نیچے زیر لیکن اُردو میں یہ رحْم بن گیا (ح پر جزم)۔ عربی میں صِحّت کی ح کے اوپر تشدید ہوتی ہے لیکن اُردو میں نہیں ۔
عربی میں ُقطْب کی ط پر جزم ہے لیکن اُردو میں ق اور ط دونوں پر پیش ہے۔ ( ُُقُطب)۔ عربی میں لفظ مَحَبہّ تھا یعنی م اور ح دونوں پر زبر، لیکن اُردو میں مُحبّت بن گیا اور م کے اوپر پیش لگ گئی۔
فارسی میں لفظ مُزد+ور تھا جو کہ بعد میں مُزدُرو بن گیا لیکن اُردو میں پہنچا تو م کے اوپر پیش کی جگہ زبر لگ گئی اور مَزدور ہوگیا۔ عربی میں لفظ مُشَاعَرہ ہے یعنی ع کے اوپر زبر ہے لیکن اُردو میں اسکی شکل مشاعِرہ ہو چکی ہے اور یہی درست ہے، جسطرح عربی کا موسِم اُردو میں پہنچ کر موسَم ہو چکا ہے (س پر زبر) اور اب اسی کو درست تسلیم کرنا چاہیئے۔
عربی کے نَشاط میں ن پر زبر ہے لیکن اُردو میں ہم ن کے نیچے زیر لگا کر نِشاط لکھتے ہیں اور اُردو میں یہی درست ہے۔
عربی میں لفظ نُوّاب تھا، نون پر پیش اور واؤ پر تشدید۔ یہ اصل میں لفظ نائب کی جمع تھی، اُردو میں آ کر اسکا مطلب بھی بدلا اور تلفظ بھی نواب ہو گیا۔
جدائی کے معنیٰ میں استعمال ہونے والا عربی لفظ وَداع ہے (واؤ پر زبر) لیکن اُردو میں اسکی شکل تبدیل ہو کر وِداع ہو چکی ہے (واؤ کے نیچے زیر)۔
جِن لوگوں کا بچپن پنجاب میں گزرا ہے انھوں نے لفظ ’بکرا عید‘ ہزاروں مرتبہ سُنا اور بولا ہو گا۔ بچپن میں اسکی یہی توضیح ذہن میں آتی تھی کہ اس روز بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس لئے یہ بکرا عید ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو اسطرح کے جُملے پڑھنے سننے کو ملے۔ ’میاں کبھی عید بکرید پر ہی مِل لیا کرو‘ اِس ’بکرید‘ کی کھوج میں نکلے تو پتہ چلا کہ یہ تو دراصل بقرعید ہے اور اسکا بکرے سے نہیں بقر (گائے) سے تعلق ہے۔
عربی فارسی اور سنسکرت کے علاوہ بھی اُردو نے کئی زبانوں سے خوشہ چینی کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُردو میں آ کر لفظوں کی شکل خاصی بدل گئی ہے۔ جیسے انگریزی کا سٹیمپ پیپر اُردو میں اشٹام پیپر اور بعد میں صرف ’اشٹام‘ رہ گیا۔ تُرکی کا چاغ اُردو میں آ کر چاق ہو گیا اور پُرتگالی زبان کا بالڈی اُردو میں آ کر بالٹی بن گیا۔
باہر کے لفظوں نے اُردو میں داخل ہونے کے بعد جو شکل اختیار کر لی ہے اب اسی کو معیاری تسلیم کر لینا چاہیئے۔ منبع و ماخذ تک پہنچ کر اُن کے قدیم تلفظ کا کھوج لگانا ایک عِلمی مشغلہ تو ہو سکتا ہے لیکن روزمرّہ استعمال میں اصل اور پرانے تلفظ کو مُسلط کرنے کی کوشش اُردو کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اس کی راہِ ترقی میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی۔

٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭ ٭ ٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭​
 
آخری تدوین:
Top