لفظ اللہ کا صحیح تلفظ کیا ہے؟

ہم محفلین سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ لفظ اللہ کا صحیح تلفظ کیا ہے۔ اس کے ہجے تو ہم یوں کرتے ہیں:-
الف لام لام کھڑی زبر ھا۔

کیا علامہ اقبال نے اس لفظ کو ایک ہی نظم میں دوطرح باندھا ہے؟

ہے یہی بہتر الٰہیّات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

اور
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کِس عقیدے میں نجات

یا پھر ہم ہی نے اسے غلط پڑھا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہم محفلین سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ لفظ اللہ کا صحیح تلفظ کیا ہے۔ اس کے ہجے تو ہم یوں کرتے ہیں:-
الف لام لام کھڑی زبر ھا۔

کیا علامہ اقبال نے اس لفظ کو ایک ہی نظم میں دوطرح باندھا ہے؟

ہے یہی بہتر الٰہیّات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

اور
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کِس عقیدے میں جنات - نجات

یا پھر ہم ہی نے اسے غلط پڑھا؟
کلام اللہ میں جو تلفظ ہے وہ درست ہے ۔
جبکہ کتاب اللہ میں تھوڑی سی تمدید (لمبائی) کی کمی شعری وزن کے حساب سے جائز حدود میں سمجھی گئی ہے۔
ایسی بے شمار مثالیں اساتذہ کے کلام میں موجود ہوں گی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مثنوی مولانا روم کے دو اشعار ہیں
گفتہء او۔ گفتہ ء- اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ترجمہ : اس کا (یعنی مومن کا ) کلام اللہ کا کلام ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ اللہ کے بندے کے حلق سے نکلتا ہے۔۔۔
اس میں ایک بہت مشہور حدیث قدسی کا مفہوم بیان ہوا ہے ۔۔۔
یہاں اللہ کا تلفظ اسی طرح ذرا مختصر ہے جو وزن کے تناسب کے لیے کیا گیا ہے۔
اور مولانا اپنی شہرةٴ آفاق مثنوی کا اختتام اس طرح کرتے ہیں۔
چون فتاد از روزن دل آفتاب
ختم شد ۔۔والله اعلم بالصواب
ترجمہ :اب چونکہ دل کی کھڑکی سے آفتاب غرو ہوتا ہے ۔لہذا (اسی پہ مثنوی کا) اختتام ہوتا ہے اور بہترین جاننے والا اللہ ہی ہے۔
یہاں اللہ کا تلفظ اور وزن دونوں متناسب ہیں۔
۔۔۔پہلا والا شعر یا تو مثنوی کا ہے یا اقبال (کی اسرار و رموز وغیرہ ) کا بھی ہو سکتا ہے ۔کیوں کہ محض یاد داشت کی بنیاد پہ لکھا ہے کوئی صاحب تصحیح فرمائیں تو عنایت ہو۔
 
اللہ کا مکمل اور درست تلفظ بر وزن "مفعول" ہے۔ یعنی: "ال لا ہ"۔
مگر شعرا نے اسے بر وزن فعلن بھی باندھا ہے۔ یعنی: "ال لا"۔
دونوں صورتیں درست ہیں۔ مگر اول الذکر کا استعمال بہتر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استاذ الاساتذہ صوفی تبسم کی مشہور غزل ہے

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ

اس میں لفظ پہلے اللہ کا وزن نوٹ کرنے کے قابل ہے۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک نعتیہ تضمین والد صاحب کی یاد آگئی۔ جس میں دونوں تلفظ تتابع کے ساتھ یکجا آر ہے ہیں۔
اللہ اللہ بایں اوج ۔۔مقامِ محمود
بمقامِ کہ رسیدی نہ رسد ہیچ نبی
 

فاتح

لائبریرین
استاذ الاساتذہ صوفی تبسم کی مشہور غزل ہے

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ

اس میں لفظ پہلے اللہ کا وزن نوٹ کرنے کے قابل ہے۔:)
یہ شعر دیکھیے گا کہ میر تقی میر نے بھی دونوں اللہ کو ایک فاعلاتن میں باندھ دیا ہے:
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
 
ایک نعتیہ تضمین والد صاحب کی یاد آگئی۔ جس میں دونوں تلفظ تتابع کے ساتھ یکجا آر ہے ہیں۔
اللہ اللہ بایں اوج ۔۔مقامِ محمود
بمقامِ کہ رسیدی نہ رسد ہیچ نبی
بہت خوبصورت ہے جناب۔ محفل پر پوری نعت بھی پیش فرمائیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ شعر دیکھیے گا کہ میر تقی میر نے بھی دونوں اللہ کو ایک فاعلاتن میں باندھ دیا ہے:
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
شاید میر کی اسی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے ایک شاعر اور نے بھی ایک نعتیہ شعر میں یہی کام کیا ہے
اللہ اللہ وہ کیا لوگ تھے، جن لوگوں نے​
چلتے پھرتے مرے آقا کی زیارت کی ہے​
 

فاتح

لائبریرین
شاید میر کی اسی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے ایک شاعر اور نے بھی ایک نعتیہ شعر میں یہی کام کیا ہے
اللہ اللہ وہ کیا لوگ تھے، جن لوگوں نے​
چلتے پھرتے مرے آقا کی زیارت کی ہے​
میر کے شعر اور اس شعر میں "اللہ اللہ" کو مختلف اوزان میں باندھا گیا ہے۔ میر نے فاعلاتن باندھا ہے جب کہ اس شعر میں فاعلاتان یا "فاعلاتن فَ" کے وزن پر لیکن پہلے اللہ کے ساتھ دونوں نے ایک سا سلوک کیا ہے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
تو ثابت ہوا قبلہ کہ شاعر کچھ بھی کر سکتے ہیں :)
ضرورتِ شعری کا نام دے کر جو چاہے کرتے پھریں۔۔۔ کون روک سکتا ہے۔ :)
نعت کے عمدہ شاعر ہیں (جن کا نام تخلیے میں آپ کو ضرور بتایا جا سکتا ہے لیکن سرِ عام کہنا مناسب نہیں) جو فرماتے ہیں کہ دو پیگ لگا کر ذہن خدا کی جانب زیادہ یکسوئی سے مائل ہوتا ہے اور جب بھی پی کر لکھی ہے ہمیشہ اچھی نعت ہی ہوئی ہے۔ اسے بھی شاید "ضرورتِ شعری" ہی کہا جائے گا۔ ;)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوبصورت ہے جناب۔ محفل پر پوری نعت بھی پیش فرمائیے۔
نوازش برارد محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔یہ ایک قدرے طویل معراج نامہ تھا جو محفوظ نہ رہ سکا ۔کچھ پرانے اوراق اور یاد داشت کی بنیاد پہ فقط یہ اشعار محفوظ رہ سکے ہیں ۔سو آپ کی فرمائش کی تعمیل میں پیشِ خدمتِ احبابِ محفل ہیں۔۔۔

اللہ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔بایں اوج مقامِ محمود
یعنی وہ راکبِ براق چلا۔۔۔ سوئے ودود
وہ ملائک جو ازل ہی سے رہے وقفِ سجود
پئے تعظیم کھڑے ہو گئے سب پڑھ کے درود
اسکی توصیف ستائش میں ۔۔۔قلم بہنے لگا
خالق کون و مکاں(ج) صلِّ علی کہنے لگا

حکم باری ہؤا ۔۔ہم۔۔ آج۔۔ بلاتے ہیں تجھے
قاب قوسین کے جھولوں پہ جھلاتے ہیں تجھے
مژدہء بخشش امت ۔۔۔۔بھی سناتے ہی تجھے
فائزِرتبہء معراج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بناتے ہیں تجھے
آسمانوں سے بلند۔۔آج ۔۔تری جلوہ گری
بمقامے کہ رسیدی۔۔۔۔۔ نہ رسد ہیچ نبی
(آخری مصرع غالبا" حافظ کا ہے۔)
 
Top