ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ میری والدہ صاحبہ کی سہیلی نے کہا:"عبداللہ بیٹا مجھے بازار سے فلاں سامان لا دو"۔ میں نے دوکاندار سے چیزیں مانگیں تو اس سےجو اشیاء مانگیں تھیں دے دیں اور شاپ کیپر نے اپنی پریشانیاں سناتے ہوئے کہا:"عبداللہ بھائی !آپ لکھاری (Writer)ہیں لہذا مہربانی فرما کر وراثت کے مسائل پر بھی کچھ لکھیں"۔ ان دنوں میرے بی ایس سی کے امتحانات ہورہے تھے لہذا میں نے پیپروں کے فوراَ بعد اس موضوع پر تحقیق شروع کی۔ جس کے لیے میں نے دوکتابیں پڑھیں اور دو بیان سنے۔ الحمد للہ ! تین دن کی مسلسل محنت کے بعد میں نے "مسائل وراثت"، کے عنوان پر کالم لکھا۔ چوتھے دن میں نے اپنے پیارے چاچو حکیم ابو عبداللہ غلام نبی خادم صاحب سے بائیک لی اور 150 کے قریب پیج پکڑ کر اپنے گاؤں سے تقریباَ پانچ کلو میڑ دور گاؤں میں موجود اپنے دوست حافظ عبدالحفیظ کی طرف روانہ ہوا۔ بارش کی وجہ سے بازاروں میں پانی کھڑا ہوا تھا جس سے موٹر سائیکل سلپ ہوئی اور پیپر پانی میں گرنے سے خراب ہو گئے۔ میں واپس اپنے گھر آیا اور دوبارہ پیج لیئے اور منزل کی طرف روانہ ہوا۔ حافظ صاحب نے مجھ سے پیپر لے کر اپنے پرنٹر سے پرنٹ نکال کر دیئے۔ اب میں خوشی خوشی اپنے گاؤں کو لوٹا اور گھر پہنچنے سے پہلے ان صاحب کی دوکان پر رکا جنہوں نے اس موضوع پر لکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ شاپ پر تو موجود نہیں تھے البتہ گھر سے پتا چلا کہ صاحب نہا رہے ہیں۔ جب وہ نہا کر گھر سے باہر نکلا تو میں نے اسے کالم دیاتو اس نے نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے پکڑا اور دیکھ کر کہنے لگا:"اتنا زیادہ لکھ دیا ہے یعنی پڑھے گا کون؟"میں نے کہا:"یار!لوگ دو دو سو صفحات پر مشتلہ کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور آپ دو صفحے پر مشتمل کالم نہیں پڑھ سکتے؟"
اسی لیئے میں کہتا ہوں :"ہر کاوش (Struggle) لله رب العالمين کرو کیونکہ اگر تم لوگوں کے لیے تگ و دو کرو گے تو اکثر لوگ اسی طرح بے قدری کریں گے اور اگر تمہاری جد و جہد لله رب العالمين ہو گی تو اللہ تعالیٰ بڑا قدردان ہے۔"اس لیے میں اپنے اس دوست کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے میری توجہ میراث کے مسائل کی طرف دلائی اور ناراض اس وجہ سے نہیں کیونکہ الحمدللہ میری ہر سعی لله رب العالمين ہوتی ہے۔

By Abdullah Amanat Muhammadi

"مسائل وراثت"،مضمون پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں:
 
جزاک اللہ ۔ عبداللہ بھائی۔
بہت اہم موضوع پر آرٹیکل لکھا ہے آپ نے۔ ابھی دفتر میں کچھ انٹرنیٹ پالیسیز کے باعث آپ کا دیا ہوا ربط نہیں کھل رہا۔ گھر جا کر دیکھتا ہوں۔
کافی پہلے والدِ محترم نے مجھ سے ان پیج میں وراثت کا چارٹ بنوایا تھا، اگر مل گیا تو وہ بھی شئر کروں گا۔

لیکن اصل مسئلہ لوگوں کو اس حوالے سے تعلیم دینے کی ہے کہ وراثت میں نا انصافی کر کے وہ کس طرح اپنی عاقبت برباد کرنے کا سامان لئے جا رہے ہیں۔
خواتین کے اپنا حصہ مانگنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ وراثت صرف نرینہ اولاد میں تقسیم ہو گی۔ اگر احساس کر بھی لیتے ہیں تو بہن سے کہلوا دیا جاتا ہے کہ میں نے اپنا حصہ تحفہ کر دیا۔
بظاہر اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دینی کہلائے جانے والے گھرانوں میں جب وراثت کے معاملے میں نا انصافی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔
 
جزاک اللہ ۔ عبداللہ بھائی۔
بہت اہم موضوع پر آرٹیکل لکھا ہے آپ نے۔ ابھی دفتر میں کچھ انٹرنیٹ پالیسیز کے باعث آپ کا دیا ہوا ربط نہیں کھل رہا۔ گھر جا کر دیکھتا ہوں۔
یہ ہے میرا لکھا ہوا مضمون:
مسائلِ وراثت
دین اسلام اس طریقے کا نام ہے جس نے نہ صرف زندگی کے ہر پہلو بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات پربھی نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وراثت کا مسئلہ جو انسان کی موت کے بعد پیش آتا ہے بہت ہی اہمیت کا حامل ہےاور عام طور پر معاشرے کے دو کمزور طبقے یعنی (یتیم)بچے اور عورتیں تقسیمِ وراثت کے وقت ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ جس سے قطع رحمی اور لڑائی جھگڑے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس طرح گن پوائنٹ پر قیمتی سازو سامان چھیننا جرم ہے اس سے بھی بڑا جرم ہے کہ وراثت میں حصہ داروں کو ان کا حصہ نہ دینا۔
علم میراث ہر گھر کی ضرورت ہے۔سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :"جن علوم کا سیکھنا ضروری ہے وہ تین طرح کے ہیں۔ جبکہ دوسرے علوم کا سیکھنا فضیلت کے باب میں آتا ہے۔ اور وہ یہ ہیں کہ قرآن کی آیات احکام کا سیکھنا، دوسرا سنت نبوی کا علم، تیسرا فرائض یعنی وراثت کا علم جو سارے کا سارا حق پر مبنی ہے،(ابوداؤد،جلددوم،حدیث:1118 )۔"اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، یقیناًیہ آدھا علم ہے اور یہ بھلا دیا جائے گا، اور یہ پہلا علم ہوگا جو میری امت سے اٹھا لیا جائے گا،(ابن ماجہ ، جلد دوم، حدیث:878 )۔"علم الفرائض سیکھنا اور سیکھانا بہت بڑی نیکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ النساء کی آیت نمبر7تا14 اور آیت نمبر176میں واضح کر دیا کہ کس کس وارث کو کتنا کتنا حصہ ملنا ہے۔میت کے کفن ، دفن کے بعد سب سے پہلے اس کے قرض کی ادائیگی کریں ۔اس کے بعد وصیت کو پورا کیا جائے اور خیال رکھیں کہ وصیت،دین (Loan)کی ادائیگی کے بعدتہائی (1/3)حصہ سے کم ہو اور وصیت کسی وارث اور حرام کام کے لیے جائز نہیں۔ان مراحل کےبعد مال کو اصحاب الفروض میں تقسیم کر دیا جائے ۔یاد رکھیں جس طرح وقت پر نمازپڑھنا، روزہ رکھنا اور حج ادا کرنا ضروری ہےاسی طرح میراث کو بانٹنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ دیر کرنے سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔قاتل مقتول کے ترکے سے حصہ نہیں پائے گا۔وراثت میں حصہ دینا زکوۃ دینے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اگر کوئی زندہ شخص وراثت تقسیم کرتا ہے تو جتنا بیٹے کو تو دیے گا اتنا ہی بیٹی کو دینا پڑے گا کیونکہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر مرنے کے بعد ہےزندگی میں یکساں ہی تقسیم کرنا پڑے گا۔کسی بیٹے یا بیٹی کو "عاق نامہ"، کی وجہ سے میراث سے محروم کرنا بلکل غلط ہے۔ مسلم ، غیر مسلم اور غیر مسلم ، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔بعض کہتے ہیں ہماری بہن نے ہمارے لیے اپنا حق چھوڑ دیا ہے بلکل غلط بات ہے یہ مال ہڑپ کرنے کا بہانا ہے کیونکہ چھوڑے گی تو تب، جب اس کا مال پر قبضہ ہو گا دولت پر تو تم سانپ بن کر بیٹھے ہوئےہو۔ وہ تو رشتہ داریاں ٹوٹنے کے ڈر سے کہہ دیتی ہے کہ بھائی میرا حق بھی آپ ہی رکھ لیں۔ تم اس کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اپنے مال میں سے اسے دو کہ بہن، مجھے تم سے ڈبل ملا ہے لہذا میرا کچھ مال آپ رکھ لیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی نمازیں پڑھے، روزے رکھے،زکوۃ اور حج ادا کرے لیکن میراث کا مال حصہ داروں کو نہ دے تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ پیغبروں کی وراثت نہیں چلتی ان کا ترکہ صدقہ کیا جاتا ہےالبتہ انبیاء کرام ایک اور ترکہ یعنی علم کا ترکہ چھوڑ کر جاتے ہیں جو اس علم کو حاصل کرتے ہیں وہ نبیوں کے وارث ہوتے ہیں۔
کتاب و سنت نے قانونِ وراثت سے منہ پھیرنے والوں کو خبردار فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے متعلق قواعد و ضوابط بیان فرمانے کے بعد کہا:"یہ (تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)کی فرمانبرداری کرے گا اللہ پاک اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ تعالیٰ اور اُسکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکل جائے گا اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا،(النساء:13تا 14)"۔حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے،(ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:862 )"۔اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرد اہل خیر کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر جب وصیت کرتا ہے تو اس میں ظلم اور نا انصافی کرتا ہے تو اس کے برے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اور ایک مرد ستر سال تک اہل شر کے اعمال کرتا ہے پھر وصیت میں عدل و انصاف سے کام لیتا ہے تو اس اچھے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے،( ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:863 )"۔کمزوروں پر ظلم کرنے والو یاد رکھو!خلاف شریعت اقتدار چل جاتاہے لیکن ظلم کا اقتدار نہیں چلتا۔
میری آپ سےدردمندانہ اپیل ہے کہ ذرا سوچئے:"اگر کوئی آپ کا مال چھینے جس طرح آپ دوسروں کے حقوق دبا رہے ہیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ اندازہ لگائیں اگر جس دولت پر آپ نے قبضہ کیا ہے نہ بھی ہوتی تو تمہارے اخراجات کس نے پورے کرنے تھے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہےیہ پیسہ(Wealth)ختم ہونے والا ہےاور اس کے بدلے دنیا و آخرت میں عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔خیال کریں کہ اگر حکمران آپ پر دباؤ ڈالیں کہ حصہ داروں کو ان کا حق دو تو تم فوراَ دے دو گے اس کا مطلب آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں بلکہ ان فرمارواؤں کا خوف ہے جنہیں اللہ پاک نے اختیار عطا کیا ہے"۔ میرے بھائیو!تم کیوں اللہ تعالیٰ کی وصیت کو چھوڑ کر اپنی بات کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہو ، کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :"اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا یاد رکھوجو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا، (الاحزاب :36)۔اور فرمایا:"سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے،(النور: 63)"۔ اللہ کی قسم! میں نے دھوکے بازی کے ساتھ میراث کا مال کھانے والوں کو اس دھن کے ساتھ تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
میری صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ :"مسائلِ میراث کے حل کے لیے مناسب اقدام کیئے جائیں اور وراثت کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائےاور جہیز کو ختم کر کے ترکے میں حصہ یقینی بنایا جائے کیونکہ جہیز کی چھری سے حقوقِ وراثت کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ اگر حکمران اس میں کردار ادا نہیں کریں گے تو قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ وراثت میں حصہ دینے سے اخوت وہمدردی اور محبت و مروت بڑھتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا حکم اور پیارے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی ہےاور اللہ پاک کے احکامات سے بغاوت اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔میرے بھائیو! ہم میں اللہ تعالیٰ کا عذاب سہنے کی طاقت کہاں لہذا اس سے پہلے کہ ہم پر عذاب آئیں ، توبہ کرو اورلوگوں کا مال انہیں واپس کر دو۔
 
ماشاء اللہ، بہت اچھی ترغیبات ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
کاش کہ ہم لوگ حرص و ہوس کے خول سے باہر نکل سکیں۔
ہَوس کی سُرخی رُخِ بَشر کا حَسین غازہ بنی ہُوئی ہے
کوئی مَسیحا اِدھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اُترے
اُفق کا چہرہ لہُو میں تَر ہے، زمیں جنازہ بنی ہُوئی ہے
 

تجمل حسین

محفلین
یہ ہے میرا لکھا ہوا مضمون:
مسائلِ وراثت
دین اسلام اس طریقے کا نام ہے جس نے نہ صرف زندگی کے ہر پہلو بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات پربھی نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وراثت کا مسئلہ جو انسان کی موت کے بعد پیش آتا ہے بہت ہی اہمیت کا حامل ہےاور عام طور پر معاشرے کے دو کمزور طبقے یعنی (یتیم)بچے اور عورتیں تقسیمِ وراثت کے وقت ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ جس سے قطع رحمی اور لڑائی جھگڑے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس طرح گن پوائنٹ پر قیمتی سازو سامان چھیننا جرم ہے اس سے بھی بڑا جرم ہے کہ وراثت میں حصہ داروں کو ان کا حصہ نہ دینا۔
علم میراث ہر گھر کی ضرورت ہے۔سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :"جن علوم کا سیکھنا ضروری ہے وہ تین طرح کے ہیں۔ جبکہ دوسرے علوم کا سیکھنا فضیلت کے باب میں آتا ہے۔ اور وہ یہ ہیں کہ قرآن کی آیات احکام کا سیکھنا، دوسرا سنت نبوی کا علم، تیسرا فرائض یعنی وراثت کا علم جو سارے کا سارا حق پر مبنی ہے،(ابوداؤد،جلددوم،حدیث:1118 )۔"اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، یقیناًیہ آدھا علم ہے اور یہ بھلا دیا جائے گا، اور یہ پہلا علم ہوگا جو میری امت سے اٹھا لیا جائے گا،(ابن ماجہ ، جلد دوم، حدیث:878 )۔"علم الفرائض سیکھنا اور سیکھانا بہت بڑی نیکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ النساء کی آیت نمبر7تا14 اور آیت نمبر176میں واضح کر دیا کہ کس کس وارث کو کتنا کتنا حصہ ملنا ہے۔میت کے کفن ، دفن کے بعد سب سے پہلے اس کے قرض کی ادائیگی کریں ۔اس کے بعد وصیت کو پورا کیا جائے اور خیال رکھیں کہ وصیت،دین (Loan)کی ادائیگی کے بعدتہائی (1/3)حصہ سے کم ہو اور وصیت کسی وارث اور حرام کام کے لیے جائز نہیں۔ان مراحل کےبعد مال کو اصحاب الفروض میں تقسیم کر دیا جائے ۔یاد رکھیں جس طرح وقت پر نمازپڑھنا، روزہ رکھنا اور حج ادا کرنا ضروری ہےاسی طرح میراث کو بانٹنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ دیر کرنے سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔قاتل مقتول کے ترکے سے حصہ نہیں پائے گا۔وراثت میں حصہ دینا زکوۃ دینے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اگر کوئی زندہ شخص وراثت تقسیم کرتا ہے تو جتنا بیٹے کو تو دیے گا اتنا ہی بیٹی کو دینا پڑے گا کیونکہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر مرنے کے بعد ہےزندگی میں یکساں ہی تقسیم کرنا پڑے گا۔کسی بیٹے یا بیٹی کو "عاق نامہ"، کی وجہ سے میراث سے محروم کرنا بلکل غلط ہے۔ مسلم ، غیر مسلم اور غیر مسلم ، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔بعض کہتے ہیں ہماری بہن نے ہمارے لیے اپنا حق چھوڑ دیا ہے بلکل غلط بات ہے یہ مال ہڑپ کرنے کا بہانا ہے کیونکہ چھوڑے گی تو تب، جب اس کا مال پر قبضہ ہو گا دولت پر تو تم سانپ بن کر بیٹھے ہوئےہو۔ وہ تو رشتہ داریاں ٹوٹنے کے ڈر سے کہہ دیتی ہے کہ بھائی میرا حق بھی آپ ہی رکھ لیں۔ تم اس کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اپنے مال میں سے اسے دو کہ بہن، مجھے تم سے ڈبل ملا ہے لہذا میرا کچھ مال آپ رکھ لیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی نمازیں پڑھے، روزے رکھے،زکوۃ اور حج ادا کرے لیکن میراث کا مال حصہ داروں کو نہ دے تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ پیغبروں کی وراثت نہیں چلتی ان کا ترکہ صدقہ کیا جاتا ہےالبتہ انبیاء کرام ایک اور ترکہ یعنی علم کا ترکہ چھوڑ کر جاتے ہیں جو اس علم کو حاصل کرتے ہیں وہ نبیوں کے وارث ہوتے ہیں۔
کتاب و سنت نے قانونِ وراثت سے منہ پھیرنے والوں کو خبردار فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے متعلق قواعد و ضوابط بیان فرمانے کے بعد کہا:"یہ (تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)کی فرمانبرداری کرے گا اللہ پاک اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ تعالیٰ اور اُسکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکل جائے گا اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا،(النساء:13تا 14)"۔حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے،(ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:862 )"۔اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرد اہل خیر کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر جب وصیت کرتا ہے تو اس میں ظلم اور نا انصافی کرتا ہے تو اس کے برے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اور ایک مرد ستر سال تک اہل شر کے اعمال کرتا ہے پھر وصیت میں عدل و انصاف سے کام لیتا ہے تو اس اچھے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے،( ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:863 )"۔کمزوروں پر ظلم کرنے والو یاد رکھو!خلاف شریعت اقتدار چل جاتاہے لیکن ظلم کا اقتدار نہیں چلتا۔
میری آپ سےدردمندانہ اپیل ہے کہ ذرا سوچئے:"اگر کوئی آپ کا مال چھینے جس طرح آپ دوسروں کے حقوق دبا رہے ہیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ اندازہ لگائیں اگر جس دولت پر آپ نے قبضہ کیا ہے نہ بھی ہوتی تو تمہارے اخراجات کس نے پورے کرنے تھے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہےیہ پیسہ(Wealth)ختم ہونے والا ہےاور اس کے بدلے دنیا و آخرت میں عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔خیال کریں کہ اگر حکمران آپ پر دباؤ ڈالیں کہ حصہ داروں کو ان کا حق دو تو تم فوراَ دے دو گے اس کا مطلب آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہیں بلکہ ان فرمارواؤں کا خوف ہے جنہیں اللہ پاک نے اختیار عطا کیا ہے"۔ میرے بھائیو!تم کیوں اللہ تعالیٰ کی وصیت کو چھوڑ کر اپنی بات کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہو ، کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :"اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا یاد رکھوجو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا، (الاحزاب :36)۔اور فرمایا:"سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے،(النور: 63)"۔ اللہ کی قسم! میں نے دھوکے بازی کے ساتھ میراث کا مال کھانے والوں کو اس دھن کے ساتھ تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
میری صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ :"مسائلِ میراث کے حل کے لیے مناسب اقدام کیئے جائیں اور وراثت کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائےاور جہیز کو ختم کر کے ترکے میں حصہ یقینی بنایا جائے کیونکہ جہیز کی چھری سے حقوقِ وراثت کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ اگر حکمران اس میں کردار ادا نہیں کریں گے تو قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ وراثت میں حصہ دینے سے اخوت وہمدردی اور محبت و مروت بڑھتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا حکم اور پیارے پیغبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی ہےاور اللہ پاک کے احکامات سے بغاوت اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔میرے بھائیو! ہم میں اللہ تعالیٰ کا عذاب سہنے کی طاقت کہاں لہذا اس سے پہلے کہ ہم پر عذاب آئیں ، توبہ کرو اورلوگوں کا مال انہیں واپس کر دو۔
ماشاءاللہ۔
بہترین تحریر ہے۔ یقیناً ہمیں وراثت کے مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی عموماً جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم میں ناانصافیوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں ہمیں ناانصافی کی مثالیں ملتی ہیں وہیں انصاف کی بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ سارے اسی طرح انصاف سے کام لیں تو آج ہمارے درمیان موجود دُوریاں اتنی زیادہ نہ ہوں۔

ایک مشورہ۔
اگر دھاگے کا عنوان وراثت کے مسائل ہوتا تو میرے خیال میں زیادہ بہتر رہتا۔ تاکہ تلاش کے دوران ایسے مسائل اور حل ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ :)
 
ماشاءاللہ۔
بہترین تحریر ہے۔ یقیناً ہمیں وراثت کے مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی عموماً جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وراثت کی تقسیم میں ناانصافیوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں ہمیں ناانصافی کی مثالیں ملتی ہیں وہیں انصاف کی بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے اور بے اختیار جی چاہتا ہے کہ سارے اسی طرح انصاف سے کام لیں تو آج ہمارے درمیان موجود دُوریاں اتنی زیادہ نہ ہوں۔
جزاک اللہ خیرا
ایک مشورہ۔
اگر دھاگے کا عنوان وراثت کے مسائل ہوتا تو میرے خیال میں زیادہ بہتر رہتا۔ تاکہ تلاش کے دوران ایسے مسائل اور حل ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ :)
میں نے پہلے سے ہی اس عنوان پر دھاگا اوپن کیا ہوا ہے، دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/مسائلِ-وراثت.88671/
 

نایاب

لائبریرین
"ہر کاوش (Struggle) لله رب العالمين کرو کیونکہ اگر تم لوگوں کے لیے تگ و دو کرو گے تو اکثر لوگ اسی طرح بے قدری کریں گے اور اگر تمہاری جد و جہد لله رب العالمين ہو گی تو اللہ تعالیٰ بڑا قدردان ہے۔"
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ کہا ۔ بلا شک رب سوہنا سچا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا
اور رہی دنیا ۔۔ یہ تو بس کہنے کو فسانے مانگے

بعض کہتے ہیں ہماری بہن نے ہمارے لیے اپنا حق چھوڑ دیا ہے بلکل غلط بات ہے یہ مال ہڑپ کرنے کا بہانا ہے کیونکہ چھوڑے گی تو تب، جب اس کا مال پر قبضہ ہو گا دولت پر تو تم سانپ بن کر بیٹھے ہوئےہو۔ وہ تو رشتہ داریاں ٹوٹنے کے ڈر سے کہہ دیتی ہے کہ بھائی میرا حق بھی آپ ہی رکھ لیں۔ تم اس کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اپنے مال میں سے اسے دو کہ بہن، مجھے تم سے ڈبل ملا ہے لہذا میرا کچھ مال آپ رکھ لیں۔
اک عرصے بعد کسی تحریر سے "خلوص بھری انسانیت " کہ ایسی مہک آئی کہ روح تک معطر ہو گئی ۔
بہت شکریہ شراکت پر
بہت دعائیں
 
اک عرصے بعد کسی تحریر سے "خلوص بھری انسانیت " کہ ایسی مہک آئی کہ روح تک معطر ہو گئی ۔
بہت شکریہ شراکت پر
بہت دعائیں
اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے کیونکہ آپ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔
 
Top