کاشفی

محفلین
غزل
(مخمور سعیدی)
لمحہ بھر رُکنا پڑا، گو میں بڑی عجلت میں تھا
اک بُلاوا سا عجب، اس اجنبی صورت میں تھا

رات کے آنگن میں رقصاں تھی اُمیدِ صبحِ نو
نور کا اک دائرہ بھی، حلقہء ظلمت میں تھا

وہ دھڑکتے دل نکل بھاگے حصارِ ضبط سے
دشت دور سوئے ہوئے تھے، وقت بھی غفلت میں تھا

اُس کا افسردہ تبسم، میری پھیکی سی ہنسی
منعکس دونوں کا غم اک لمحہء رخصت میں تھا

سنگ پیکر لوگ بھی اندر سے تھے ٹوٹے ہوئے
عکسِ احساسِ شکست آئینہء نخوت میں تھا

تجھ سے دور آکر کبھی سوچا تو حیرانی ہوئی
خودفراموشی کا عالم جو تری قربت میں تھا

دیکھ کر دشمن کی کم تدبیریاں، دل ہے اُداس
اُس کے حصے کا بھی غم کھانا مری قسمت میں تھا

لفظ کی محفل تک آتے آتے بےجلوہ ہوا
جلوہ گر جو حسنِ معنی ذہن کی خلوت میں تھا

اب اُسے مخمور! میں کس نام سے آواز دوں
وہ، کہ جس کے سامنے تھا، اک نئی صورت میں تھا
 
Top