لندن والے پیرصاحب

راشد احمد

محفلین
السلام علیکم

میرے آج کے کالم کا عنوان ہے لندن والے پیرصاحب

لندن والے پیرصاحب کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے۔ وہ ہمیشہ قوم کو اتحاد، یکجہتی، محبت اور یگانگت کا درس دیتے ہیں۔ ان کی عادت ہے وہ جب تک ہفتہ میں ایک بار پاکستانی قوم کو درس نہ دے دیں انہیں چین نہیں‌آتا۔ پاکستان کے بہت سے اعلٰی پائے کے سیاست دان لندن والے پیرصاحب کے مرید ہیں اور جب بھی انہیں‌ضرورت ہو وہ پیرصاحب کو فون کرکے ان سے درس لیتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ سیاست دان ایسے ہیں جو لندن والے پیرصاحب کو بالکل پسند نہیں کرتے اور ان کی مریدی میں نہیں‌آنا چاہتے۔ ان میں عمران خان، نوازشریف، قاضی حسین احمد قابل ذکر ہیں۔

ماضی میں عمران خان لندن والے پیر صاحب کے خلاف دہشت گردی، منی لانڈرنگ جیسے مختلف مقدمات درج کرانے کی کوشش کرتے رہے لیکن پیرصاحب کے مریدوں کو عمران خان کی یہ حرکت گراں گزری سو انہوں نے بھی عمران خان کے ماضی کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔لندن والے پیرصاحب کے مریدوں پیرکی

اسی طرح پیرصاحب کو ایک اور شخص سے خداواسطے کا بیرہے۔ وہ ہیں میاں نوازشریف، میاں‌صاحب توپیرصاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتے کیونکہ میاں صاحب کے دور میں ہی پیرصاحب کو جلاوطن ہوناپڑا اور ان کی غیرموجودگی میں پیرصاحب کو 27سال قید کی سزاسنادی گئی جو بعد میں کالعدم ہوگئی۔ لیکن پیرصاحب پھر بھی پاکستان آنے سے گبھراتے ہیں۔ان کے بقول ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ویسے خطرہ تو باقی سیاستدانوں کو بھی ہے انہیں بھی چاہئے کہ لندن میں سیاسی پناہ لیں تاکہ وہ بھی پیرصاحب کی طرح ناگہانی مصیبت سے بچ سکیں۔ تاکہ ملک وقوم کی قیادت محفوظ ہاتھوں میں رہے۔ میرا نوازشریف اور عمران خان کو مشورہ ہے کہ وہ بھی مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیں کیونکہ مفاہمت کی ملک کو جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ مفاہمت کے لئے ضروری ہے کہ پیرصاحب کے زیرسایہ آیا جائے جیسے زرداری صاحب آگئے ہیں۔ اس لئے نوازشریف اور عمران خان کو پیرصاحب کی مریدی قبول کرلینی چاہئے تاکہ مفاہمت کو فروغ ملے کیونکہ لندن والے پیرصاحب سے پیار سے جان بھی مانگو تو وہ بھی دے دیتے ہیں۔ اس لئے عمران خان اور نوازشریف پیار سے اپنا مقصد حل کرو۔

پیرصاحب ہر حکومت میں شامل رہتے ہیں اگرکسی حکومت میں شامل نہ ہوں تو وہ حکومت چلنا مشکل ہوجاتی ہے۔ پیرصاحب ملکی حالات پر بہت کڑھتے ہیں۔ اس لئے اگر ملک میں کوئی سانحہ ہوتو سب سے پہلا بیان پیرصاحب کا ہی آتا ہے۔ جس میں وہ نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ قوم کو صبروتحمل کا درس بھی دیتے ہیں۔ پیرصاحب حکومت وقت کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ اس لئے چاہے وہ بارہ مئ ہویا 3 نومبر یا لانگ مارچ وہ ہردم حکومت کی مددکرتے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا پہیہ جام نہ ہو۔پیرصاحب کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس لئے تمام سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ سب مل کر پیرصاحب کے پاس جائیں اور مناکر انہیں پاکستان لے آئیں۔تاکہ ملک کی باگ دوڑ ایک مخلص سیاستدان کے سپردہو اور ہمیں دہشت گردی، تصادم کی سیاست سے نجات مل سکے۔

پیرصاحب کی تقریر کرنے کا طریقہ انتہائی منفرد ہے۔ میرے ایک دوست فرماتے ہیں کہ پیرصاحب جب تقریر کررہے ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ورزش فرمارہے ہیں یا رقص فرما رہے ہوں۔ وہ تقریر کے ساتھ ساتھ ورزش بھی فرمالیتے ہیں تاکہ قوم کا قیمتی وقت بچایا جاسکے۔ لیکن میں اپنے دوست کی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پیرصاحب جب ملکی حالات کو دیکھتے ہیں تو انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں۔ اور انہیں جذبات میں بے اختیار چلااٹھتے ہیں۔

پیرصاحب کے بھی حالیہ دنوں میں ایک پیرصاحب ہیں۔ یہ پیرصاحب مولانافضل الرحمان المعروف مولانا ڈیزل صاحب یا مولانا ٹروجن ہیں۔مولانا صاحب کی مفاہمت سے لندن والے پیر صاحب بہت متاثر ہیں۔ لانگ مارچ کی صورت حال پرجب مولانا صاحب نےفرمایا کہ یہ پنجاب کی تحریک ہے تو لندن والےپیرصاحب نے بھرپور تائید کی اور کہا کہ یہ سندھ دھرتی کے خلاف ایک سازش کی جارہی ہے۔ لندن والے پیرصاحب کے آج کل زرداری‌صاحب بھی مرید ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے گناہوں کو معاف کردیا ہے اور آپس میں شیروشکر اور بھائی چارے کی مثال قائم کررہے ہیں جس کی ملک وقوم کو ضرورت ہے۔

مختصرالندن والے پیرصاحب کی شخصیت کا سب سے روشن پہلوان کے ارشادات اور اقوال زریں ہیں، جن پر عمل کرکے ہمارے سیاستدان ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
 
Top