سردیوںمیںہمارےپاس ایندھن کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری گیس گھروں میں ہی اتنی لگ جاتی ہے کہ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ سی این جی سٹیشنز کو گیس کی دو دن فی ہفتہ بندش اسی وجہ سے ہے۔ پاور سٹیشنز کو بھی گیس نہیں ملتی اور کام پورا ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے ہمارے ڈیم بھر ہی نہیں رہے، جیسے ہی سرما میں ڈیم بند کیے جاتے ہیں سارا پاور سسٹم ختم ہوجاتا ہے۔ پیچھے ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سردیوں میں چار ہزار میگا واٹ کی کمی گرمیوں کی چار ہزار میگا واٹس کی کمی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیداوار پندرہ ہزار کے اریب قریب اور کھپت بیس ہزار کے اریب قریب ہوتی ہے۔ سردیوں میں کھپت دس ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہوتی ہے اور میں سے چار ہزار میگا واٹ کی کمی کا مطلب ہے فیصد میں ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی۔ پچھلے تین سال سے دسمبر کے آخری دو ہفتے اور جنوری کے پہلے دو ایک ہفتے اتنہائی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہوتے ہیں۔ اس سال سے تو گیس بھی کم آنے لگی ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی گیس بھی کم ہوجاتی ہے، چولہا جلائیں تو گیس بلب نہیں جلتا وہ جلائیں تو چولہے پر روٹی بھی نہیں پکتی۔ ہماری گیس زیادہ سے زیادہ اگلے آٹھ سال تک کے لیے ہے وہ بھی تب جب نئے کنکشن نہ دئیے جائیں اور سی این جی سٹیشن نہ لگائے جائیں۔ گیس کہاں سے آئے گی کا خیال کیے بغیر گاڑیوں کو بلامنصوبہ بندی سی این جی پر کیا گیا اور آج گھروں میں روٹی پکانے کے لیے بھی گیس نہیں ہوتی سردیوں میں۔ قصبوں اور دیہوں میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دئیے گئے اور گنجان آباد شہروں کے رہنے والے جہاں کوئی اور ایندھن بھی دستیاب نہیں آئے دن گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے ہمارا۔ ڈنگ ٹپاؤ۔ کھاتے جاؤ۔ جب ختم ہوگا دیکھی جائے گی۔