ایم اسلم اوڈ
محفلین
بجلی کی لوڈشیڈنگ .... ملکی مسائل میں سے ایک بڑا اور اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو ہماری ملکی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ صنعت ، زراعت ، تجارت ، بینکنگ اور ٹیچنگ سمیت ہماری ملکی پیداوار کا ہر شعبہ بجلی کا محتاج ہے اور بجلی نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف اشیاءکی پیداوار میں رکاوٹ ہورہی ہے بلکہ ملکی ترقی اور استحکام بھی عدم تحفظ کا شکار ہورہا ہے ۔ دیہاڑی دار طبقہ ، دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین، بجلی سے چلنے والی مشینوں پر دن بھر جتے روٹی کمانے والے غریب لوگ اور طلبہ و گھریلو خواتین .... سب کا یہی رونا ہے کہ بجلی کی آنکھ مچولی سے ان کے زورمرہ کے معمولات ڈسٹرب ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ”آدھا گھنٹا تمہارا، دو گھنٹے ہمارے“ کے مصداق عوام کا جینا حرام کردیا گیا ہے ۔ اسی لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوام احتجاج کرکے اپنی تکالیف کی شدت حکام بالا تک پہنچا رہے ہیں ۔ کسی گھر میں کوئی بیمار ہے تو کوئی مریض ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں ہے ، کسی کا آپریشن ہورہا ہے اور کوئی اپنی تکالیف سے نجات کے لئے بجلی آنے کا منتظر ہے ، کہیں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ، کہیں طالبعلموں کی تعلیم ڈسٹرب ہے اور کہیںکسی دفتر یا فیکٹری وغیرہ میں کام کرنے والے افراد واپڈا کو کوس رہے ہیں ۔ مگر کسی کو عوام کی اس مصیبت کا احساس نہیں ۔ ارباب اقتدار و اختیار شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیئے بیٹھے ہیں ۔ دوسری جانب ہر دوسرے مہینے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ شدید سردی کے موسم میں بھی بارہ سے سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود ناقابل برداشت بل بھیجے جارہے ہیں ۔ بجلی کے بلوں کے بھاری بھرکم بوجھ نے عوام کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ جس حساب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اس تناسب سے عوام کو بجلی ہی مہیا نہیں کی جارہی ۔ نہ تو حکومت کوئی نوٹس لے رہی ہے اور نہ ہی عدلیہ کے سوموٹو ایکشن کی آوازیں آرہی ہیں ۔ بلکہ الٹا یہی کہا جارہا ہے کہ یہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں ان سے نبٹنے میں وقت لگے گا ۔ دوسری جانب ”وزیر لوڈشیڈنگ “ اپنے ہی کئے گئے وعدوں سے مکرتے ہوئے ہر مرتبہ نئی کہانی سنا دیتے ہیں اور عوام کو مکر و فریب اور جھوٹ کے نئے جال میں پھانس دیتے ہیں ۔ کیا انہیں یا واپڈا حکام کو کوئی لگام ڈالنے والا نہیں جنہوں نے پورے ملک کو اندھیروں میں ڈبو رکھا ہے .... ؟؟؟
یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلم قوم کو ”پرویز“ حکمرانوں نے ہر دور میں نقصان پہنچایا ہے ۔ خسرو پرویز سے لے کر پرویز مشرف ، پرویز الہٰی اور اب (وزیر بجلی) راجہ پرویز اشرف تک مسلمانوں پر مسلط ہر ”پرویز“ نے اپنی قوم کے ساتھ ناانصافیوں ،مظالم اور زیادتیوں کی انتہا کی ہے ۔ ”پرویزوں“ کے سیاہ کارناموں سے تو ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ آج اُسی کڑی کا تسلسل آصف زرداری کی آشیرباد تلے راجہ ”پرویز“ اشرف کی صورت میں موجود ہے ۔ عوام کو صبر کرنے کے مشورے دینے اور مسائل ورثے میں ملنے کی باتیں کرنے والوں کو ملک پر مسلط ہوئے دو سال گزر چکے مگر ملک کی مجموعی حالت سدھرنے کی بجائے بری طرح بگڑتی جارہی ہے اس کے برعکس گذشتہ دور حکومت میں لوڈشیڈنگ سمیت مجموعی مسائل اس حد تک نہیں بڑھے تھے جتنے اب برھ چکے ہیں ۔
اور تو اور لوڈشیڈنگ کا بھی کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا ۔ صبح سکول و دفاتر جانے والے اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں تو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے تیاری کرتے ہیں ۔ بچے سکول پہنچتے ہیں تو وہ تاریکی میں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ نو بجے کے بعد دفتری اوقات شروع ہوتے ہیں تو بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے آدھے سے زیادہ دن یونہی گزر جاتا ہے ۔ رات گھروں کو جائیں تو بھی تاریکی منتظر ہوتی ہے ۔ غرض کہ بجلی کی مصنوعی قلت نے عوام کو ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے ۔ سردی کی شدت کے باوجود بجلی کی کمی کا رونا رو کر کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے .... ؟؟؟
یہی نہیں بلکہ بحرانوں کی سرزمین بننے والے اس پیارے وطن میں آٹے اور چینی کے مصنوعی بحران کا اثر ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس اور پانی کے بحران نے بھی عوام کو جکڑ لیا ۔ سی این جی اسٹیشنز پر لگی عوام کی لمبی لمبی قطاریں ، پانی کی بوند بوند کو ترستے ، گیس کی ذرا سی تپش محسوس کرنے کے لئے پورا پورا دن انتظار کرتے ، ٹھٹھرتے ، اور بجلی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب ماتم کناں عوام درحقیقت بے بسی کی تصویر ہیں جو ملک میں نافذ نام نہاد جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا ہے تب سے پاکستان مسائل میں بری طرح گھر چکا ہے ۔ ”سب سے پہلے پاکستان “ اور ”پاکستان کھپے“ کے کھوکھلے نعروں کی چھاﺅں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہماری اپنی جنگ بناکر ملکی تحفظ کو جس طرح داﺅ پر لگایا گیا ہے اور مجموعی طور پر ملک جس معاشی ، اقتصادی اور دیگر بحرانوں سے نبرد آزما ہے اس نے عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کو تنہا کردیا ہے ۔
دوسری طرف احساس سے عاری حکمران بے حس ، بے ضمیر اور بے حمیت بنے صم بکم عم کا کردار اداکررہے ہیں ، انہیں عوام کے دکھوں اور مسائل کا احساس ہی نہیں ہے ۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ عوام نے موجودہ قیادت کو صرف اسی وجہ سے منتخب کیا تھا کہ وہ طبقہ جو عوامی خدمت اور روٹی ، کپڑا مکان کا انتخابی نعرہ لگاتے ہوئے عوام پر حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے شاید وہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنا کر عوام کے دل جیت لے مگر موجودہ حکمرانوں نے بھی سفاکیت کی مثالیں قائم کیں ۔ ”پاکستان کھپے“ کا جو نعرہ موجودہ حکمرانوں نے لگایا تھا وہ درحقیقت سندھی معنوں میں نہیں بلکہ پنجابی معنوں میں لگایا گیا تھا اور حکمران انہی معنوں میں عوام کو کھپانے اور رسوا کرنے کے مشن پر گامزن ہیں ۔
آج بھی آصف زرداری اور راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں کاروبار زندگی مفلوج ہوچکا اور عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں ۔ مگر احساس سے عاری اور تماشائی کا کردار ادا کرنے والے حکمرانوں کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ، پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ ”میں بیرونی دورے آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے کرتا ہوں “ ۔( مگر وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ وہ ”آئندہ نسل“ پاکستان کی عوام کو کہہ رہے ہیں یاکسی مخصوص طبقے کو؟) ۔ بے نظیر کے خوابوںکو پورا کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے دعوےداروں نے ضروریات زندگی کی ہر بنیادی شے عوام کی پہنچ سے دور کردی ہے ۔ ملکی معیشت تباہ اور ذہنی سکون برباد ہوکر رہ گیا ہے اور وہ صرف اپنے دور حکمرانی کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ واپڈا اپنے کروڑوں کے نادہندہ افراد سے رقوم نکلوائے اور ارباب اختیار کے گناہوں کا تمام بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے اسے انہی سے وصول کیا جائے ۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں ، بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود واپڈا کی طرف سے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ناچاہتے ہوئے بھی قبول کرتے اور پورا بل دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود انہیں ادائیگی کے حساب سے بجلی نہ ملے تو یہ واپڈا حکام کی بھی ڈھٹائی اور بے شرمی کا عبرتناک نمونہ ہے اور وزیر بجلی سمیت حکومت کی بھی بے حسی اور بے غیرتی کا شرمناک کردار اور سیاہ باب ہے۔ آخر عوام کا کیا قصور جو اپنا پیٹ کاٹ کر واپڈا کا کھلا ہوامنہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے بھر رہے ہیں اور بجلی کی قیمتوں میں ناجائز اضافوں پر بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں ، مگر اس کے باوجود انہیں پوری بجلی مہیا نہیں کی جاتی اور استعمال کے حساب سے کئی گنا زائد بل بھیجے جاتے ہیں۔ اسے کرپشن کی بدترین مثال بھی کہا جاسکتا ہے جس کا کم از کم عدلیہ کو فی الفور نوٹس لینا چاہئے کیونکہ عوام کی رقوم ہڑپ کرنے والے واپڈا کے خلاف ایکشن حالات کا تقاضا ہیں۔
نیز صدر اور وزیراعظم سے لے کر وزیروں اور مشیروں اور چند مخصوص سیاستدانوں تک کو جو بجلی مفت سپلائی کی جاتی ہے اور جن کے گھروںکو لوڈشیڈنگ سے عاری قرار دیا جاتا ہے ، ان سے بھی بجلی کے بل وصول کئے جائیں ۔ ان کے حصے کابوجھ عوام کے ناتواں کاندھوں پر منتقل کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔ بجلی چوری کی یہ روش رکنے سے ہی لوڈشیڈنگ میں کمی لائی جاسکتی ہے ، ورنہ پورا ملک اسی طرح اندھیروں میں ڈوبا رہے گا اور ارباب اقتدارکے گھر اسی طرح روشن رہیں گے۔ عوام کی برداشت کی حدیں اب ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمرانوں اور مصنوعی بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھائے جائیں۔ ذلت برداشت کرنے کے مراحل اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک اس کے ذمہ دار افراد کو نکیل نہیں ڈالی جاتی ۔
http://www.lahoreupdates.com/index....0-06-06&catid=13:2009-06-10-15-57-48&Itemid=4
یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلم قوم کو ”پرویز“ حکمرانوں نے ہر دور میں نقصان پہنچایا ہے ۔ خسرو پرویز سے لے کر پرویز مشرف ، پرویز الہٰی اور اب (وزیر بجلی) راجہ پرویز اشرف تک مسلمانوں پر مسلط ہر ”پرویز“ نے اپنی قوم کے ساتھ ناانصافیوں ،مظالم اور زیادتیوں کی انتہا کی ہے ۔ ”پرویزوں“ کے سیاہ کارناموں سے تو ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ آج اُسی کڑی کا تسلسل آصف زرداری کی آشیرباد تلے راجہ ”پرویز“ اشرف کی صورت میں موجود ہے ۔ عوام کو صبر کرنے کے مشورے دینے اور مسائل ورثے میں ملنے کی باتیں کرنے والوں کو ملک پر مسلط ہوئے دو سال گزر چکے مگر ملک کی مجموعی حالت سدھرنے کی بجائے بری طرح بگڑتی جارہی ہے اس کے برعکس گذشتہ دور حکومت میں لوڈشیڈنگ سمیت مجموعی مسائل اس حد تک نہیں بڑھے تھے جتنے اب برھ چکے ہیں ۔
اور تو اور لوڈشیڈنگ کا بھی کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا ۔ صبح سکول و دفاتر جانے والے اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں تو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے تیاری کرتے ہیں ۔ بچے سکول پہنچتے ہیں تو وہ تاریکی میں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ نو بجے کے بعد دفتری اوقات شروع ہوتے ہیں تو بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے آدھے سے زیادہ دن یونہی گزر جاتا ہے ۔ رات گھروں کو جائیں تو بھی تاریکی منتظر ہوتی ہے ۔ غرض کہ بجلی کی مصنوعی قلت نے عوام کو ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے ۔ سردی کی شدت کے باوجود بجلی کی کمی کا رونا رو کر کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے .... ؟؟؟
یہی نہیں بلکہ بحرانوں کی سرزمین بننے والے اس پیارے وطن میں آٹے اور چینی کے مصنوعی بحران کا اثر ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس اور پانی کے بحران نے بھی عوام کو جکڑ لیا ۔ سی این جی اسٹیشنز پر لگی عوام کی لمبی لمبی قطاریں ، پانی کی بوند بوند کو ترستے ، گیس کی ذرا سی تپش محسوس کرنے کے لئے پورا پورا دن انتظار کرتے ، ٹھٹھرتے ، اور بجلی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب ماتم کناں عوام درحقیقت بے بسی کی تصویر ہیں جو ملک میں نافذ نام نہاد جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا ہے تب سے پاکستان مسائل میں بری طرح گھر چکا ہے ۔ ”سب سے پہلے پاکستان “ اور ”پاکستان کھپے“ کے کھوکھلے نعروں کی چھاﺅں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہماری اپنی جنگ بناکر ملکی تحفظ کو جس طرح داﺅ پر لگایا گیا ہے اور مجموعی طور پر ملک جس معاشی ، اقتصادی اور دیگر بحرانوں سے نبرد آزما ہے اس نے عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کو تنہا کردیا ہے ۔
دوسری طرف احساس سے عاری حکمران بے حس ، بے ضمیر اور بے حمیت بنے صم بکم عم کا کردار اداکررہے ہیں ، انہیں عوام کے دکھوں اور مسائل کا احساس ہی نہیں ہے ۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ عوام نے موجودہ قیادت کو صرف اسی وجہ سے منتخب کیا تھا کہ وہ طبقہ جو عوامی خدمت اور روٹی ، کپڑا مکان کا انتخابی نعرہ لگاتے ہوئے عوام پر حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے شاید وہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنا کر عوام کے دل جیت لے مگر موجودہ حکمرانوں نے بھی سفاکیت کی مثالیں قائم کیں ۔ ”پاکستان کھپے“ کا جو نعرہ موجودہ حکمرانوں نے لگایا تھا وہ درحقیقت سندھی معنوں میں نہیں بلکہ پنجابی معنوں میں لگایا گیا تھا اور حکمران انہی معنوں میں عوام کو کھپانے اور رسوا کرنے کے مشن پر گامزن ہیں ۔
آج بھی آصف زرداری اور راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں کاروبار زندگی مفلوج ہوچکا اور عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں ۔ مگر احساس سے عاری اور تماشائی کا کردار ادا کرنے والے حکمرانوں کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ، پوچھنے پر کہا جاتا ہے کہ ”میں بیرونی دورے آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے کرتا ہوں “ ۔( مگر وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ وہ ”آئندہ نسل“ پاکستان کی عوام کو کہہ رہے ہیں یاکسی مخصوص طبقے کو؟) ۔ بے نظیر کے خوابوںکو پورا کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے دعوےداروں نے ضروریات زندگی کی ہر بنیادی شے عوام کی پہنچ سے دور کردی ہے ۔ ملکی معیشت تباہ اور ذہنی سکون برباد ہوکر رہ گیا ہے اور وہ صرف اپنے دور حکمرانی کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ واپڈا اپنے کروڑوں کے نادہندہ افراد سے رقوم نکلوائے اور ارباب اختیار کے گناہوں کا تمام بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے اسے انہی سے وصول کیا جائے ۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں ، بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود واپڈا کی طرف سے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ناچاہتے ہوئے بھی قبول کرتے اور پورا بل دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود انہیں ادائیگی کے حساب سے بجلی نہ ملے تو یہ واپڈا حکام کی بھی ڈھٹائی اور بے شرمی کا عبرتناک نمونہ ہے اور وزیر بجلی سمیت حکومت کی بھی بے حسی اور بے غیرتی کا شرمناک کردار اور سیاہ باب ہے۔ آخر عوام کا کیا قصور جو اپنا پیٹ کاٹ کر واپڈا کا کھلا ہوامنہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے بھر رہے ہیں اور بجلی کی قیمتوں میں ناجائز اضافوں پر بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں ، مگر اس کے باوجود انہیں پوری بجلی مہیا نہیں کی جاتی اور استعمال کے حساب سے کئی گنا زائد بل بھیجے جاتے ہیں۔ اسے کرپشن کی بدترین مثال بھی کہا جاسکتا ہے جس کا کم از کم عدلیہ کو فی الفور نوٹس لینا چاہئے کیونکہ عوام کی رقوم ہڑپ کرنے والے واپڈا کے خلاف ایکشن حالات کا تقاضا ہیں۔
نیز صدر اور وزیراعظم سے لے کر وزیروں اور مشیروں اور چند مخصوص سیاستدانوں تک کو جو بجلی مفت سپلائی کی جاتی ہے اور جن کے گھروںکو لوڈشیڈنگ سے عاری قرار دیا جاتا ہے ، ان سے بھی بجلی کے بل وصول کئے جائیں ۔ ان کے حصے کابوجھ عوام کے ناتواں کاندھوں پر منتقل کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔ بجلی چوری کی یہ روش رکنے سے ہی لوڈشیڈنگ میں کمی لائی جاسکتی ہے ، ورنہ پورا ملک اسی طرح اندھیروں میں ڈوبا رہے گا اور ارباب اقتدارکے گھر اسی طرح روشن رہیں گے۔ عوام کی برداشت کی حدیں اب ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمرانوں اور مصنوعی بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھائے جائیں۔ ذلت برداشت کرنے کے مراحل اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک اس کے ذمہ دار افراد کو نکیل نہیں ڈالی جاتی ۔
http://www.lahoreupdates.com/index....0-06-06&catid=13:2009-06-10-15-57-48&Itemid=4