نیرنگ خیال
لائبریرین
نہیں !
لوگوں سے کیا شکوہ
اور اِن لوگوں سے کیا شکوہ
یہ بے چارے تو ویسے بھی
یونہی عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں
جنہیں کوئی بھی چرواہا
محبّت،امن اور تعمیر کا چارہ دکھا کر جس طرف بھی ہانک لے جائے
یہ جائیں گے
تمنّا کی "نظر بندی" تو یوں بھِی سخت ھوتی ہے
خیالوں اور نا پختہ ارادوں کی جہاں بھگدڑ مچی ہو
پھر وہاں کس کو بھلا معلوم پڑتا ھے
کہ اب اگلے قدم پر سامنے منزل ہے یا کھائی .. !!
نہیں بھائی .. !
بھلا لوگوں سے کیا شکوہ ؟؟
جہاں سچ بولنے والی زبانیں کاٹ دی جائیں
زمینیں تو زمینیں ہیں
جہاں پر ہاریوں کی بیٹیاں بھی "مالکوں" میں بانٹ لی جائیں
جہاں اک "نظم" لکھنے سے
عقیدت کے بتوں کی شانِ اقدس پر ہزاروں حرف آتے ہوں
جہاں سانسوں پہ پہرے ہوں
جہاں تحقیق پر تسلیم نافذ ہو
جہاں سنگیت پر فتووں کی "بندش" ہو
جہاں کارِ معیشت ،اہلِ ِ سرمایہ کی دلّالی پہ قائم ہو
جہاں پر جبر اپنی آخری حد پر پہنچتا ہو
وہاں پیاسے ،سرابوں کو بھی دریا مان لیتے ہیں
وہاں چوروں اچکّوں اور ٹھگوں کو بھی مسیحا جان لیتے ہیں
کہ شاید اب سُنی جائے
کہ شاید اب سُنی جائے
سو ان خوش باش چہروں اور اُمیدوں سے بھری آنکھوں سے کچھ شکوہ نہیں ہے
جو سمجھتے ہیں
کہ بس منزل چلی آئی
ذرا یہ دھند چھٹنے دو
یہ ھا ھا کار جو اس دم گلی کوچوں میں رائج ہے
اسے خاموش ہونے دو
تمنّا کی "نظر بندی" ذرا سی ٹوٹنے تو دو
یہی خوش باش چہرے اور اُمیدوں سے بھری آنکھیں
اور آنکھوں میں سجے سپنے
یہ خود ہی جان جائیں گے
جنہیں موسیٰ سمجھتے تھے وہ سب فرعون نکلے ہیں۔۔۔۔۔ !!!
لوگوں سے کیا شکوہ
اور اِن لوگوں سے کیا شکوہ
یہ بے چارے تو ویسے بھی
یونہی عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں
جنہیں کوئی بھی چرواہا
محبّت،امن اور تعمیر کا چارہ دکھا کر جس طرف بھی ہانک لے جائے
یہ جائیں گے
تمنّا کی "نظر بندی" تو یوں بھِی سخت ھوتی ہے
خیالوں اور نا پختہ ارادوں کی جہاں بھگدڑ مچی ہو
پھر وہاں کس کو بھلا معلوم پڑتا ھے
کہ اب اگلے قدم پر سامنے منزل ہے یا کھائی .. !!
نہیں بھائی .. !
بھلا لوگوں سے کیا شکوہ ؟؟
جہاں سچ بولنے والی زبانیں کاٹ دی جائیں
زمینیں تو زمینیں ہیں
جہاں پر ہاریوں کی بیٹیاں بھی "مالکوں" میں بانٹ لی جائیں
جہاں اک "نظم" لکھنے سے
عقیدت کے بتوں کی شانِ اقدس پر ہزاروں حرف آتے ہوں
جہاں سانسوں پہ پہرے ہوں
جہاں تحقیق پر تسلیم نافذ ہو
جہاں سنگیت پر فتووں کی "بندش" ہو
جہاں کارِ معیشت ،اہلِ ِ سرمایہ کی دلّالی پہ قائم ہو
جہاں پر جبر اپنی آخری حد پر پہنچتا ہو
وہاں پیاسے ،سرابوں کو بھی دریا مان لیتے ہیں
وہاں چوروں اچکّوں اور ٹھگوں کو بھی مسیحا جان لیتے ہیں
کہ شاید اب سُنی جائے
کہ شاید اب سُنی جائے
سو ان خوش باش چہروں اور اُمیدوں سے بھری آنکھوں سے کچھ شکوہ نہیں ہے
جو سمجھتے ہیں
کہ بس منزل چلی آئی
ذرا یہ دھند چھٹنے دو
یہ ھا ھا کار جو اس دم گلی کوچوں میں رائج ہے
اسے خاموش ہونے دو
تمنّا کی "نظر بندی" ذرا سی ٹوٹنے تو دو
یہی خوش باش چہرے اور اُمیدوں سے بھری آنکھیں
اور آنکھوں میں سجے سپنے
یہ خود ہی جان جائیں گے
جنہیں موسیٰ سمجھتے تھے وہ سب فرعون نکلے ہیں۔۔۔۔۔ !!!