الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
---------------
لوگوں نے اصل چہرہ اپنا چھپا لیا ہے
حالات کے مطابق حلیہ بنا لیا ہے
--------------
دنیا نہ جان پائے میری ہے کیا حقیقت
چہرے پہ اس لئے ہی جنگل اُگا لیا ہے
----------
بالوں کا میں نے منہ پر جنگل اگا لیا ہے
----------
کوئی نہ جان پائے میں دیکھتا ہوں اس کو
آنکھوں پہ میں کالا چشمہ لگا لیا ہے
-------
مجھ کو ملی ہے نفرت میری ہی حرکتوں سے
خود کو نظر میں سب کی میں نے گرا لیا ہے
---------- یا
خود کو نظر سے میں نے سب کی گرا لیا ہے
----------
دیکھے حکیم سارے لیکن شفا نہ پائی
اک لا علاج دکھ جو خود کو لگا لیا ہے
-----------
غیروں کے ساتھ ان کو دیکھا جو آج میں نے
بہنے لگے تھے آنسو جن کو دبا لیا ہے
------------یا
صدمہ ہوا جو مجھ کو ، دل میں چھپا لیا ہے
----------
جو بھی گنہ کرو گے اس کی سزا ملے گی
کیسا بُرا وطیرہ تم نے بنا لیا ہے
-------------
دولت نہ ساتھ دے گی محشر میں جا کے ارشد
تیرے لئے ہے کافی جتنا کما لیا ہے
-------------
 
آخری تدوین:
دنیا نہ جان پائے میری ہے کیا حقیقت
چہرے پہ اس لئے ہی جنگل اُگا لیا ہے
----------
بالوں کا میں نے منہ پر جنگل اگا لیا ہے
پہلے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بدل کر دیکھیں۔
دنیا نہ جان پائے، کیا ہے مری حقیقت

دوسرے مصرعے میں داڑھی کو جنگل سے تشبیہ دینا ہمیں بالکل مناسب نہیں لگا :)

کوئی نہ جان پائے میں دیکھتا ہوں اس کو
آنکھوں پہ میں کالا چشمہ لگا لیا ہے
یہ تو مزاحیہ شعر ہو گیا ۔۔۔ بہتر ہے اس کو سنجیدہ غزل میں شامل نہ کریں۔

مجھ کو ملی ہے نفرت میری ہی حرکتوں سے
خود کو نظر میں سب کی میں نے گرا لیا ہے
---------- یا
خود کو نظر سے میں نے سب کی گرا لیا ہے
مصرعہ ثانی کے لئے دوسرا متبادل بہتر ہے۔
پہلا مصرعہ مزید بہتری چاہتا ہے، نفرت حرکتوں سے نہیں حرکتوں کی وجہ سے ملے گی ۔۔۔ دونوں باتیں مختلف ہیں۔

دیکھے حکیم سارے لیکن شفا نہ پائی
اک لا علاج دکھ جو خود کو لگا لیا ہے
دکھ لاعلاج نہیں ہوتا ۔۔۔ مرض یا درد لاعلاج ہوسکتا ہے۔
پہلے مصرعے میں سارے کے بجائے کتنے کردیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔
دیکھے حکیم کتنے، لیکن شفا نہ پائی
کیسا مرض یہ خود کو، ہم نے لگا لیا ہے!

غیروں کے ساتھ ان کو دیکھا جو آج میں نے
بہنے لگے تھے آنسو جن کو دبا لیا ہے
ٹینسسز گربڑا گئے ہیں ۔۔۔ دوبارہ فکر کرکے دیکھیں۔

جو بھی گنہ کرو گے اس کی سزا ملے گی
کیسا بُرا وطیرہ تم نے بنا لیا ہے
بھرتی کا شعر ہے۔

دولت نہ ساتھ دے گی محشر میں جا کے ارشد
تیرے لئے ہے کافی جتنا کما لیا ہے
جا کے کے بجائے تیرا کہنا چاہیے پہلے مصرعے میں۔ علاوہ ازیں دولت کے لئے ساتھ دینے کے بجائے کام آنا کہنا زیادہ بہتر رہے گا۔
دوسری بات یہ دوسرے مصرعے میں تاکید کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
دولت نہ ساتھ دے گی محشر میں تیرا ارشدؔ
بس کردے اب کہ کافی ہے جو کما لیا ہے۔
 
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----
(اصلاح کے بعد )
دنیا نے اصل چہرہ اپنا چھپا لیا ہے
حالات کے مطابق حلیہ بنا لیا ہے
------------
دنیا نہ جان پائے کیا ہے مری حقیقت
لمبی یہ ریش رکھ کر ، خود کو چھپا لیا ہے
------------یا
داڑھی کے آیئنے میں خود کو چھپا لیا ہے
---------
غیروں کے ساتھ جاتے میں نے انہیں جو دیکھا
دل پر مرے جو گزری دل میں چھپا لیا ہے
------------
لوگوں کے دل میں کچھ بھی خوفِ خدا نہیں ہے
کیسا بُرا وطیرہ سب نے بنا لیا ہے
-----------
درویش بن گئے ہیں الفت میں ہم کسی کی
یہ روگ خود ہی ہم نے خود کو لگا لیا ہے
-------------
دولت نہ ساتھ دے گی محشر میں تیرا ارشدؔ
بس کردے اب کہ کافی ہے جو کما لیا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دنیا نے اصل چہرہ اپنا چھپا لیا ہے
حالات کے مطابق حلیہ بنا لیا ہے
------------ ٹھیک ہے

دنیا نہ جان پائے کیا ہے مری حقیقت
لمبی یہ ریش رکھ کر ، خود کو چھپا لیا ہے
------------یا
داڑھی کے آیئنے میں خود کو چھپا لیا ہے
--------- یہ مزاحیہ غزل کے طور پر چلے گا، سنجیدہ نہیں

غیروں کے ساتھ جاتے میں نے انہیں جو دیکھا
دل پر مرے جو گزری دل میں چھپا لیا ہے
------------ تھیک

لوگوں کے دل میں کچھ بھی خوفِ خدا نہیں ہے
کیسا بُرا وطیرہ سب نے بنا لیا ہے
----------- پہلے مصرع میں ترتیب بدل دیں، تقابل ردیفین کا سقم ہے

درویش بن گئے ہیں الفت میں ہم کسی کی
یہ روگ خود ہی ہم نے خود کو لگا لیا ہے
------------- درست

دولت نہ ساتھ دے گی محشر میں تیرا ارشدؔ
بس کردے اب کہ کافی ہے جو کما لیا ہے۔
دوسرا مصرعہ پہلے نصف میں بات مکمل نہیں ہوتی
بس کر کہ ہے یہ کافی جو کچھ کما....
 
Top