ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنادیا
اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنادیا
پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر
دل کو ترے خیال نے محشر بنادیا
صادق تھے ہم بھی جذبہء منزل میں اسقدر
رستے کا ہر سراب سمندر بنادیا
لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری
ہم نے جبین ِ عشق کا زیور بنادیا
شہر ِ وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے جب
مجھ کو طلسم ِ ہجر نے پتھر بنادیا
بخشی کسی کو گہری خموشی مگر مجھے
اک عشق ِرائگاں نے سخنور بنادیا
رکھتے تھے ہم بھی پہلو میں ہیرا سا دل کبھی
آلام ِ روزگار نے کنکر بنادیا
ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ٢٠٠٣
ٹیگ: سید عاطف علی فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر
اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنادیا
پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر
دل کو ترے خیال نے محشر بنادیا
صادق تھے ہم بھی جذبہء منزل میں اسقدر
رستے کا ہر سراب سمندر بنادیا
لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری
ہم نے جبین ِ عشق کا زیور بنادیا
شہر ِ وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے جب
مجھ کو طلسم ِ ہجر نے پتھر بنادیا
بخشی کسی کو گہری خموشی مگر مجھے
اک عشق ِرائگاں نے سخنور بنادیا
رکھتے تھے ہم بھی پہلو میں ہیرا سا دل کبھی
آلام ِ روزگار نے کنکر بنادیا
ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ٢٠٠٣
ٹیگ: سید عاطف علی فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر