لوگوں پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
سید عاطف علی
-----------
لوگوں پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا
دنیا میں، میں کسی سے بھی بدگماں نہ ہوتا
--------------یا
تب دوستوں سے اپنے میں بد گماں نہ ہوتا
-------
تیرے ہی آسرے پر جیتا ہوں میں خدایا
ورنہ جہاں میں میرا نام و نشاں نہ ہوتا
-------
مانگے بغیر ملنا تیرے قریب لایا
گر کوششوں سے ملتا تب یہ گماں نہ ہوتا
-------
لوگوں کی سختیوں نے ایسا بنا دیا ہے
ورنہ کسی سے ہرگز میں بدزباں نہ ہوتا
---------
الفت کے راستے پر چلنا بہت تھا مشکل
گر تم حسیں نہ ہوتے ،گر میں جواں نہ ہوتا
--------
پہلے اگر بتاتا جانا ہے کیوں ضروری
مجھ پر ترا بچھڑنا اتنا گراں نہ ہوتا
-----------
گر دیکھتے نہ تم کو ہوتی نہ یوں محبّت
گھر کے قریب تیرے نیرا مکاں نہ ہوتا
----یا
تیرے قریب میرا گر آشیاں نہ ہوتا
-------
ہم نے ہی خود بگاڑا ہے عاقبت کو اپنی
دامن بچا کے چلتے اتنا زیاں نہ ہوتا
------یا
گر بچ بچا کے چلتے ِاتنا زیاں نہ ہوتا
-------
نیکی کے راستے پر چلتا اگر تُو ارشد
سر پر ترے گنہ کا بارِ گراں نہ ہوتا
----------
 
لوگوں پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا
دنیا میں، میں کسی سے بھی بدگماں نہ ہوتا
--------------یا
تب دوستوں سے اپنے میں بد گماں نہ ہوتا
لوگوں پہ حال سارا خود جو عیاں نہ ہوتا
کوئی مرا جہاں میں پھر راز داں نہ ہوتا
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:
پہلے اگر بتاتا جانا ہے کیوں ضروری
مجھ پر ترا بچھڑنا اتنا گراں نہ ہوتا
جانا ہی تھا تجھے تو مجھ کو بتا تو دیتا
تب یہ ترا بچھڑنا اِتنا گراں نہ ہوتاجانے والے تیری جدائی کازہربھی مسکرا کے پی لیں گے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
لوگوں پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا
دنیا میں، میں کسی سے بھی بدگماں نہ ہوتا
--------------یا
تب دوستوں سے اپنے میں بد گماں نہ ہوتا
-------
مصرع ثانی کا دوسرا متبادل بہتر لگ رہا ہے مجھے، مگر اولی مجھے واضح نہیں لگ رہا

'دنیا میں میں' بھلا نہیں لگ رہا مزید یہ کہ 'بھی' بھی دوسرے حصے میں جا گرا ہے۔ یہ وہی بحر ہے دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے جو
تیرے ہی آسرے پر جیتا ہوں میں خدایا
ورنہ جہاں میں میرا نام و نشاں نہ ہوتا
-------
درست
مانگے بغیر ملنا تیرے قریب لایا
گر کوششوں سے ملتا تب یہ گماں نہ ہوتا
-------
کیا ملنا؟ اور گماں کا بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہاں کیا مقصد ہے سوائے قافیہ کے!
لوگوں کی سختیوں نے ایسا بنا دیا ہے
ورنہ کسی سے ہرگز میں بدزباں نہ ہوتا
---------
کسے سے بد زباں ہونا مجھے محاورے کے اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا
الفاظ بدل کر درست کیا جا سکتا ہے اس مصرع کو، بطور خاص مصرع ثانی کا نصف اول بدل کر

الفت کے راستے پر چلنا بہت تھا مشکل
گر تم حسیں نہ ہوتے ،گر میں جواں نہ ہوتا
--------
گر کا استعمال مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں ہے، ویسے شعر ٹھیک لگتا ہے مجھے
کیا 'جب' بہتر رہے گا گر کی جگہ؟
یا کسی اور طرح کوشش کریں
پہلے اگر بتاتا جانا ہے کیوں ضروری
مجھ پر ترا بچھڑنا اتنا گراں نہ ہوتا
-----------
دوسرا مصرع اچھا لگ رہا ہے مگر پہلا بہت معمولی سا لگتا ہے
گر دیکھتے نہ تم کو ہوتی نہ یوں محبّت
گھر کے قریب تیرے نیرا مکاں نہ ہوتا
----یا
تیرے قریب میرا گر آشیاں نہ ہوتا
-------
ثانی کا دوسرا متبادل ہی بہتر لگ رہا ہے، مگر اس کے ساتھ ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے
اولی کو بھی بہتر انداز سے کہا جائے الفاظ یا بیان بدل کر تو بہتر ہو
ہم نے ہی خود بگاڑا ہے عاقبت کو اپنی
دامن بچا کے چلتے اتنا زیاں نہ ہوتا
------یا
گر بچ بچا کے چلتے ِاتنا زیاں نہ ہوتا
-------
دامن کس شے سے بچایا جانا چاہیے تھا اس کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے
نیکی کے راستے پر چلتا اگر تُو ارشد
سر پر ترے گنہ کا بارِ گراں نہ ہوتا
بار گراں کی ترکیب کھٹک رہی ہے، مزید گنہ کا بار گراں بھی عجیب ہی لگ رہا ہے
 
عظیم
(اصلاح)
-----------------
دنیا پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا
ایسے کبھی کسی سے میں بد گماں نہ ہوتا
-----------
تیرے ہی آسرے پر جیتا ہوں میں خدایا
ورنہ جہاں میں میرا نام و نشاں نہ ہوتا
---------
ایمان ہے سلامت رحمت تری کے صدقے
ملتی نہ گر ہدایت میں مسلماں نہ ہوتا
---------
کڑوی زباں ہے میری ایسا مگر یہ کیوں ہے؟
ملتی اگر محبّت میں بد زباں نہ ہوتا
------------
کب تک جدا رہو گے اتنا مجھے بتاتے
تب ہجر بھی تمہارا مجھ پر گراں نہ ہوتا
---------
تجھ سے نظر نہ ملتی ہوتی نہ یوں محبّت
تیری گلی میں میرا گر آشیاں نہ ہوتا
----
ہم نے ہی خود بگاڑا ہے عاقبت کو اپنی
بچتے اگر گنہ سے اتنا زیاں نہ ہوتا
------
ارشد کبھی نہ بچتا دنیا میں تُو گنہ سے
رب کا تجھے میسّر گر سائباں نہ ہوتا
-------
 

عظیم

محفلین
دنیا پہ راز میرا گر یوں عیاں نہ ہوتا
ایسے کبھی کسی سے میں بد گماں نہ ہوتا
-----------
میں ابھی بھی یہی کہوں گا کہ مجھے واضح نہیں لگ رہا مطلع، کیا مطلب نکلتا ہے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا

تیرے ہی آسرے پر جیتا ہوں میں خدایا
ورنہ جہاں میں میرا نام و نشاں نہ ہوتا
---------
اس کے بارے میں تو کہہ چکا ہوں کہ درست ہے

ایمان ہے سلامت رحمت تری کے صدقے
ملتی نہ گر ہدایت میں مسلماں نہ ہوتا
---------
یہ بھی کچھ اوبڑ کھابڑ لگ رہا ہے الفاظ کی نشست کے اعتبار سے۔
ایمان ہے سلامت، رحمت کی تیرے صدقے
مسلماں کا تلفظ غلط ہے یہاں۔ م سل ما ں درست تلفظ ہو گا

کڑوی زباں ہے میری ایسا مگر یہ کیوں ہے؟
ملتی اگر محبّت میں بد زباں نہ ہوتا
------------
کڑوی زبان سے تو مجھے پہلے والا مصرع ہی بہتر لگ رہا ہے، اسی میں کچھ تبدیلی کر لی جاتی
مثلاً
دنیا کی سختیوں نے..
مگر سختیاں بھی مجھے وضاحت طلب لگتا ہے، کسی طرح رویے وغیرہ لایا جائے تو بات بن سکتی ہے

کب تک جدا رہو گے اتنا مجھے بتاتے
تب ہجر بھی تمہارا مجھ پر گراں نہ ہوتا
---------
// کب تک یہ دوریاں ہیں، اتنا بتایا ہوتا
سے شاید کچھ بہتری آئے

تجھ سے نظر نہ ملتی ہوتی نہ یوں محبّت
تیری گلی میں میرا گر آشیاں نہ ہوتا
----
میرا خیال ہے کہ آنکھوں کے ملنے کا محل ہے یہاں
آشیاں بھی گلی میں ہونا عجیب ہے

ہم نے ہی خود بگاڑا ہے عاقبت کو اپنی
بچتے اگر گنہ سے اتنا زیاں نہ ہوتا
------
گنہ واحد مجھے یہاں ٹھیک رہتا ہوا نظر نہیں آ رہا، گناہوں کا محل معلوم ہوتا ہے
اسی طرح 'اتنا' زیاں بھی واضح معلوم نہیں ہوتا
'ایسا زیاں' شاید چل سکے

ارشد کبھی نہ بچتا دنیا میں تُو گنہ سے
رب کا تجھے میسّر گر سائباں نہ ہوتا
// سائباں کے ساتھ پہلے مصرع میں گناہوں کی دھوپ وغیرہ ہونا چاہیے تھا
مجھے لگتا ہے کہ زمین مشکل منتخب کر لی ہے آپ نے، جس کی وجہ سے دشواری پیش آ رہی ہے
 
آخری تدوین:
Top