الف نظامی
لائبریرین
لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ آئیے آج اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں ۔
اس کی پہلی وجہ اس سماج کی نفسیاتی تشکیل کا عمل ہے جہاں آج تک ٹیکس دینے کو شعوری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ برصغیر میں باقاعدہ ٹیکس کب لگا اور اس کی وجوہات کیا تھیں ۔
یہ ٹیکس 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانیہ نے لگایا اور اس کی اعلانیہ وجہ یہ قرار دی گئی کہ عظیم برطانوی سلطنت کو چونکہ ہندوستان میں اس جنگ آزادی میں بھاری اخراجات کرنے پڑے اس لیے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے ٹیکس نافذ کیا جا رہا ہے ۔ لوگوں میں اس احساس نے جنم لیا کہ پہلے ہمارے ملک پر قبضہ ہوا، قتل عام کیا گیا ، عصمتیں لٹیں ، شہروں کے شہر تاراج کیے گئے اور اب ہم تباہ حال لوگوں سے ٹیکس کے نام سے تاوان جنگ بھی لیا جا رہا ہے ۔ معاشرے کی اجتماعی نفسیات میں آج بھی ٹیکس ایک جبر ہے جس سے حکمران عیاشیاں کرتے ہیں ۔ اس گرہ کو کھولے بغیر ملک میں ٹیکس کلچر کا فروغ ممکن نہیں اور اس طرز حکومت کے ساتھ یہ گرہ کھولنا بھی ممکن نہیں۔
ٹیکس کلچر تب فروغ پاتا ہے جب لوگوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ ٹیکس کی رقم انہی پر خرچ ہو گی اور اس کے بدلے انہیں کچھ ملے گا۔ یہ یقین انہیں آج تک کوئی نہیں دلا سکا ۔ لوگوں کو اس احساس نے ادھ موا کر رکھا ہے کہ بچوں کے لیے تعلیم انہیں خریدکر لانی ہے ، بیمار پڑ گئے تو علاج انہیں اپنے خرچے پر کروانا ہے ، ان کے ساتھ ظلم ہو گیا تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے لیے بھی رشوت لینی ہے ، انصاف لینا ہے تو وہ بھی اپنے دست قدرت سے لینا ہے ۔ بنیادی سوال ہے کہ ٹیکس کیوں دیا جائے؟ اس کے بدلے عوام کو کیا ملتا ہے؟
حکمرانوں کا طرز زندگی عوام الناس کی توہین ہی نہیں ان کے شعور کو بھی یہ برباد کر دیتی ہے۔جب سادگی کا پرچار کرنے اور بھینسیں بیچنے والے وزیر اعظم کے وزیر اعظم ہاوس کے اخراجات بھی بڑھتے ہی چلے جائیں تو اس سے بد گمانی ، مایوسی ، اور فکری عدم توازن تو جنم لے سکتا ہے لیکن ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکتا۔کوئی ایک اداراہ بتا دیجیے جہاں ریاستی وسائل کو بے رحمی سے استعمال نہ کیا جاتا ہو؟ اس رویے کے مظاہر لوگ قدم قدم پر دیکھ رہے ہیں ، وہ کچھ کر تو نہیں سکتے لیکن یہ احساس ان سے لپٹ جاتا ہے کہ ان عیاشیوں کے لیے ٹیکس نہیں دیا جا سکتا۔
ٹیکس کلچر کو شعوری طور پر قبول نہ کرنے کی تیسری وجہ ان ڈائرکٹ ٹیکسز کا طوفان ہے۔ حکومت نے جن سے ٹیکس لینا ہے ان سے وصولی میں جب ناکام ہوتی ہے تو ان ڈائرکٹ ٹیکسز کا بوجھ ہر کسی کی کمر پر لاد دیتی ہے ۔ نااہلی حکومت کی ہے لیکن اس کی سزا عوام کو مل رہی ہے ۔ پچاس ہزار کے موٹر سائیکل والے نے بھی پٹرول پر اتنا ہی ٹیکس دینا ہے جتنا دو کروڑ کی لینڈ کروزر والے نے۔ وہ چاہے کوئی بیوہ ہی کیوں نہ ہو جو دن میں دو وقت فاقہ کرتی ہو بجلی کے بل میں عجیب و غریب ٹیکسز کا بوجھ اس کی کمر پر بھی لادا جانا ہے اور بجلی کی قیمت سے زیادہ اس سے ٹیکس لیے جانے ہیں۔کبھی بجلی کا بل کھول کر دیکھیے اور اس پر موجود ٹیکسز کی تفصیل پڑھیے ، افاقہ ہو جائے گا۔
چوتھی وجہ غیر سنجیدہ قانون سازی ہے۔پر ویز مشرف صاحب کے دور میں آئی ایم ایف نے جب شرط عاید کر دی کہ قرض کی اگلی قسط نہیں ملے گی جب تک نیا ٹیکس قانون نہ لایا جائے تو ملک میں کسی سے کوئی مشاورت کیے بغیر راتوں رات آسٹریلوی اسسٹنٹ پروفیسر لی برنز کا بنا قانون اٹھا کر انکم ٹیکس آرڈی ننس 2001ء کے نام سے وطن عزیز میں نافذکر دیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا دل چسپ ترین مذاق تھا۔ آپ اس قانون کے مضحکہ خیز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نافذ ہونے کے بعد جب اس کے تحت عوام نے اپنے پہلے ٹیکس ریٹرن فائل کیے تو اس مختصر سی مدت میں اس قانون میں 600 سے زائد ترامیم کی جا چکی تھیں۔ہر روز ایک ترمیم ۔ تماشا لگا ہوا تھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا نیا قانون ہے کیا۔ ٹیکس دینے والے بھی پریشان ، ٹیکس کنسلٹنٹ بھی پریشان اور وکلاء بھی پریشان۔
یہ تماشا آج تک جاری ہے اور قانون کی کتابوں میں یہ واحد قانون ہے جو کتابی شکل میں نہیں آ سکا کہ کیا جانے کب کوئی نئی ترمیم ہو جائے۔ہر صفحے کو الگ فولڈر میں رکھا جاتا ہے کہ ادھر کوئی تبدیلی ہو اور پرانا صفحہ پھاڑ کے پھینک دیا جائے اور نیا لگا لیا جائے۔
پانچویں وجہ اس نظام کی پیچیدگی ہے۔شرح خواندگی آپ کے سامنے ہے ۔۔باقی کے مسائل کو تو چھوڑ ہی دیجیے،اس شرح خواندگی کے ساتھ عام آدمی تو رہا ایک طرف خود وکلاء کے لیے بھی صرف ٹیکس ریٹرن فارم بھرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔گویا پہلے آپ ٹیکس دیں اور اس کے بعد کسی ٹیکس کنسلٹنٹ یا وکیل کو فیس دیں تا کہ آپ ریٹرن فائل کر سکیں۔ٹیکس کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے بھی اگر کسی کو پیسے دینے پڑتے ہوں تو کیا آپ سمجھتے ہیں اس سے ٹیکس کلچر فروغ پا جائے گا؟
ٹیکس دہندگان کو عزت بھی دینا ہو گی۔ہر شہر میں مقامی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ اگر قانون بنا دیا جائے کہ ہر ضلع کے پانچ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے افراد اس مالی سال کے لیے ضلعی حکومت کا حصہ تصور کیے جائیں گے، کونسلر ہوں گے یا جو بھی ڈھانچہ ہو اس میں موجود ہوں گے تو ٹیکس دینے والا کار ریاست میں خود کو سٹیک ہولڈر سمجھے گا۔ یہی کام صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی ہونا چاہیے۔ ہر صوبے کے پانچ بڑے ٹیکس دہندگان کو ایم پی اے قرار دیا جائے اور ملک بھر کے پانچ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ایم این اے قرار پائیں۔خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی قانون سازی ہو سکتی ہے تو یہاں کیا مضائقہ ہے؟
کچھ آوٹ آف باکس سوچ کر تو دیکھیے۔
اس کی پہلی وجہ اس سماج کی نفسیاتی تشکیل کا عمل ہے جہاں آج تک ٹیکس دینے کو شعوری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ برصغیر میں باقاعدہ ٹیکس کب لگا اور اس کی وجوہات کیا تھیں ۔
یہ ٹیکس 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانیہ نے لگایا اور اس کی اعلانیہ وجہ یہ قرار دی گئی کہ عظیم برطانوی سلطنت کو چونکہ ہندوستان میں اس جنگ آزادی میں بھاری اخراجات کرنے پڑے اس لیے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے ٹیکس نافذ کیا جا رہا ہے ۔ لوگوں میں اس احساس نے جنم لیا کہ پہلے ہمارے ملک پر قبضہ ہوا، قتل عام کیا گیا ، عصمتیں لٹیں ، شہروں کے شہر تاراج کیے گئے اور اب ہم تباہ حال لوگوں سے ٹیکس کے نام سے تاوان جنگ بھی لیا جا رہا ہے ۔ معاشرے کی اجتماعی نفسیات میں آج بھی ٹیکس ایک جبر ہے جس سے حکمران عیاشیاں کرتے ہیں ۔ اس گرہ کو کھولے بغیر ملک میں ٹیکس کلچر کا فروغ ممکن نہیں اور اس طرز حکومت کے ساتھ یہ گرہ کھولنا بھی ممکن نہیں۔
ٹیکس کلچر تب فروغ پاتا ہے جب لوگوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ ٹیکس کی رقم انہی پر خرچ ہو گی اور اس کے بدلے انہیں کچھ ملے گا۔ یہ یقین انہیں آج تک کوئی نہیں دلا سکا ۔ لوگوں کو اس احساس نے ادھ موا کر رکھا ہے کہ بچوں کے لیے تعلیم انہیں خریدکر لانی ہے ، بیمار پڑ گئے تو علاج انہیں اپنے خرچے پر کروانا ہے ، ان کے ساتھ ظلم ہو گیا تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے لیے بھی رشوت لینی ہے ، انصاف لینا ہے تو وہ بھی اپنے دست قدرت سے لینا ہے ۔ بنیادی سوال ہے کہ ٹیکس کیوں دیا جائے؟ اس کے بدلے عوام کو کیا ملتا ہے؟
حکمرانوں کا طرز زندگی عوام الناس کی توہین ہی نہیں ان کے شعور کو بھی یہ برباد کر دیتی ہے۔جب سادگی کا پرچار کرنے اور بھینسیں بیچنے والے وزیر اعظم کے وزیر اعظم ہاوس کے اخراجات بھی بڑھتے ہی چلے جائیں تو اس سے بد گمانی ، مایوسی ، اور فکری عدم توازن تو جنم لے سکتا ہے لیکن ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکتا۔کوئی ایک اداراہ بتا دیجیے جہاں ریاستی وسائل کو بے رحمی سے استعمال نہ کیا جاتا ہو؟ اس رویے کے مظاہر لوگ قدم قدم پر دیکھ رہے ہیں ، وہ کچھ کر تو نہیں سکتے لیکن یہ احساس ان سے لپٹ جاتا ہے کہ ان عیاشیوں کے لیے ٹیکس نہیں دیا جا سکتا۔
ٹیکس کلچر کو شعوری طور پر قبول نہ کرنے کی تیسری وجہ ان ڈائرکٹ ٹیکسز کا طوفان ہے۔ حکومت نے جن سے ٹیکس لینا ہے ان سے وصولی میں جب ناکام ہوتی ہے تو ان ڈائرکٹ ٹیکسز کا بوجھ ہر کسی کی کمر پر لاد دیتی ہے ۔ نااہلی حکومت کی ہے لیکن اس کی سزا عوام کو مل رہی ہے ۔ پچاس ہزار کے موٹر سائیکل والے نے بھی پٹرول پر اتنا ہی ٹیکس دینا ہے جتنا دو کروڑ کی لینڈ کروزر والے نے۔ وہ چاہے کوئی بیوہ ہی کیوں نہ ہو جو دن میں دو وقت فاقہ کرتی ہو بجلی کے بل میں عجیب و غریب ٹیکسز کا بوجھ اس کی کمر پر بھی لادا جانا ہے اور بجلی کی قیمت سے زیادہ اس سے ٹیکس لیے جانے ہیں۔کبھی بجلی کا بل کھول کر دیکھیے اور اس پر موجود ٹیکسز کی تفصیل پڑھیے ، افاقہ ہو جائے گا۔
چوتھی وجہ غیر سنجیدہ قانون سازی ہے۔پر ویز مشرف صاحب کے دور میں آئی ایم ایف نے جب شرط عاید کر دی کہ قرض کی اگلی قسط نہیں ملے گی جب تک نیا ٹیکس قانون نہ لایا جائے تو ملک میں کسی سے کوئی مشاورت کیے بغیر راتوں رات آسٹریلوی اسسٹنٹ پروفیسر لی برنز کا بنا قانون اٹھا کر انکم ٹیکس آرڈی ننس 2001ء کے نام سے وطن عزیز میں نافذکر دیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا دل چسپ ترین مذاق تھا۔ آپ اس قانون کے مضحکہ خیز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نافذ ہونے کے بعد جب اس کے تحت عوام نے اپنے پہلے ٹیکس ریٹرن فائل کیے تو اس مختصر سی مدت میں اس قانون میں 600 سے زائد ترامیم کی جا چکی تھیں۔ہر روز ایک ترمیم ۔ تماشا لگا ہوا تھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا نیا قانون ہے کیا۔ ٹیکس دینے والے بھی پریشان ، ٹیکس کنسلٹنٹ بھی پریشان اور وکلاء بھی پریشان۔
یہ تماشا آج تک جاری ہے اور قانون کی کتابوں میں یہ واحد قانون ہے جو کتابی شکل میں نہیں آ سکا کہ کیا جانے کب کوئی نئی ترمیم ہو جائے۔ہر صفحے کو الگ فولڈر میں رکھا جاتا ہے کہ ادھر کوئی تبدیلی ہو اور پرانا صفحہ پھاڑ کے پھینک دیا جائے اور نیا لگا لیا جائے۔
پانچویں وجہ اس نظام کی پیچیدگی ہے۔شرح خواندگی آپ کے سامنے ہے ۔۔باقی کے مسائل کو تو چھوڑ ہی دیجیے،اس شرح خواندگی کے ساتھ عام آدمی تو رہا ایک طرف خود وکلاء کے لیے بھی صرف ٹیکس ریٹرن فارم بھرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔گویا پہلے آپ ٹیکس دیں اور اس کے بعد کسی ٹیکس کنسلٹنٹ یا وکیل کو فیس دیں تا کہ آپ ریٹرن فائل کر سکیں۔ٹیکس کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے بھی اگر کسی کو پیسے دینے پڑتے ہوں تو کیا آپ سمجھتے ہیں اس سے ٹیکس کلچر فروغ پا جائے گا؟
ٹیکس دہندگان کو عزت بھی دینا ہو گی۔ہر شہر میں مقامی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ اگر قانون بنا دیا جائے کہ ہر ضلع کے پانچ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے افراد اس مالی سال کے لیے ضلعی حکومت کا حصہ تصور کیے جائیں گے، کونسلر ہوں گے یا جو بھی ڈھانچہ ہو اس میں موجود ہوں گے تو ٹیکس دینے والا کار ریاست میں خود کو سٹیک ہولڈر سمجھے گا۔ یہی کام صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی ہونا چاہیے۔ ہر صوبے کے پانچ بڑے ٹیکس دہندگان کو ایم پی اے قرار دیا جائے اور ملک بھر کے پانچ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ایم این اے قرار پائیں۔خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی قانون سازی ہو سکتی ہے تو یہاں کیا مضائقہ ہے؟
کچھ آوٹ آف باکس سوچ کر تو دیکھیے۔