لوگ کہتے ہیں گلستاںمیں بہار آئی ہے-منور علی ملک

لوگ کہتے ہیں گلستاںمیں بہار آئی ہے
پھول کہتا ہے مری جان پہ بن آئی ہے

تھام کر ہاتھ مرا، اس نے کسی کی نہ سنی
لوگ کہتے رہے سودائی، سودائی ہے

ان سے ملنے پہ بھی لوگوں نے بنائی باتیں
اور اب ان سے نہ ملنے پہ بھی رسوائی ہے

میں اکیلا تو نہیں میرے کئی ساتھی ہیں
آپکی یاد ہے، غم ہے، مری تنہائی ہے

شاخ سے توڑ کے جو چاہے اسے لے جائے
صرف بھنورا ہی نہیں، پھول بھی ہرجائی ہے

اپنے بارے میں بھی اب سوچ لیا کرتا ہوں
حاصلِ ترکِ مراسم یہی دانائی ہے

(پروفیسر منور علی ملک-میانوالی)
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت خوب عدنان بھائی!
البتہ پہلے شعر کے پہلے مصرعہ میں "گلستان" اور "میں" کے درمیان فصل کردیں تو بہتر رہے گا۔
 

طارق شاہ

محفلین
ملک صاحب ، عبد الرحمن بھائی کھاد ڈالنے اور بیج بونے کا تھوڑی کہہ رہے ہیں
گلستاں اور میں کو آپ نے بغلگیرکردیا ہے ، انھیں جُدا کرنے کا کہہ رہے ہیں
( دونوں کو الگ الگ لکھنے کا کہہ رہے تھے )
بذلہ سنجی یا خوش گوئی کے علاوہ یہ کہ

تھام کر ہاتھ مرا، اس نے کسی کی نہ سنی
لوگ کہتے رہے سودائی، سودائی ہے

کا دوسرا مصرعہ میں ایک" ہے" پہلے سودائی کے بعد لکھنے سے رہ گیا ہے
لوگ کہتے رہے سودائی ہے سودائی ہے
صحیح ہوگا :)
تشکّر شیئر کرنے پر
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
فصل سے آپکی مراد کیا ہے، میں سمجھا نہیں، اگر وضاحت فرما دیں تو۔۔۔ ۔۔۔
عدنان بھائی مطلب یہ کہ "گلستانمیں" کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا ہے ایک ہی لفظ ہے۔ اگر نون کے بعد فاصلہ دے دیں تو بات اور واضح ہوجائے گی۔ جیسے گلستان میں۔
 
Top