لوگ یہ چند جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔

ایم اے راجا

محفلین
استاد محترم الف عین صاحب حاضر ہے ایک تازہ ترین کوشش۔۔

لوگ یہ چند جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
شہر میں وہ ہیں جو صیاد ہوئے پھرتے ہیں

جس طرف جائوں مرے ساتھ چلے آتے ہیں
درد گویا مرے ہمزاد ہوئے پھرتے ہیں

ہم سے رکھے نہ سروکار ذرا بھی کوئی
ہم سیا بخت ہیں، برباد ہوئے پھرتے ہیں

جو کبھی شاد نہ رکھ پائے پدر مادر کو
دہر میں آج وہ ناشاد ہوئے پھرتے ہیں

بوجھ ہیں شہر_ محبت کی زمیں پر راجا
یہ جو شیریں یہ جو فرہاد ہوئے پھرتے ہیں
 
آخری تدوین:
تازہ ترین داد آپ کی اس تر و تازہ کوشش کے لیے۔۔بہت خوب
ایک تجویز مری ناقص رائے میں یہ ہے کہ ان مرکبّات کو دیکھ لیں
یہ جو فرہاد کی جگہ "شیرین و فرہاد" اور سیا بخت کی جگہ "سیاہ بخت" کیسا رہے گا۔
 

یاز

محفلین
بہت خوب غزل ہے ایم اے راجا بھائی۔
میرے خیال سے سیا بخت کی بجائے سیاہ بخت یا سیہ بخت مستعمل اصطلاحات ہیں۔
 
صاحب ایک ہی شعر کی بچونگڑی سی تجویذ شجویذ سے سمجھ جائیں ۔ آپ کے الفاظ کی ترتیب کیسے ہونی چاہیے ۔ ویسے اگر ردیف ہوئے پھرتے کی بجائے شجائے " بنے پھرت ہیں" ہو جائے تو کیا ہو۔ ذرا غور کریں اس پر بھی

چند یہ لوگ جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں ۔۔ چند انسان جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
وہی اس شہر میں صیاد ہوئے پھرتے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب غزل ہے ایم اے راجا بھائی۔
میرے خیال سے سیا بخت کی بجائے سیاہ بخت یا سیہ بخت مستعمل اصطلاحات ہیں۔
بھائی حیران ہوں میں نے ہر بار سیا بخت ہی ٹائپ کیا مگر نہ جانے کیوں پوسٹ ہونے کے بعد یہ سیا بخت ہو جاتا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
بھائی حیران ہوں میں نے ہر بار سیا بخت ہی ٹائپ کیا مگر نہ جانے کیوں پوسٹ ہونے کے بعد یہ سیا بخت ہو جاتا ہے
Screenshot_2016-03-03-22-56-50_zpsxy5xzw3e.png

:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 

ایم اے راجا

محفلین
صاحب ایک ہی شعر کی بچونگڑی سی تجویذ شجویذ سے سمجھ جائیں ۔ آپ کے الفاظ کی ترتیب کیسے ہونی چاہیے ۔ ویسے اگر ردیف ہوئے پھرتے کی بجائے شجائے " بنے پھرت ہیں" ہو جائے تو کیا ہو۔ ذرا غور کریں اس پر بھی

چند یہ لوگ جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں ۔۔ چند انسان جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
وہی اس شہر میں صیاد ہوئے پھرتے ہیں
شکریہ دانش بھائی، اصل میں بنے پھرتے ہیں کی ردیف اکثر اشعار میں فٹ نہیں ہوتی۔
2۔ مطلع کا معنی پر ذرا غور کریں۔ آپ کی تجویز سے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہاں ایسے کیا جا سکتا ہے۔
چند یہ لوگ جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
وہ ہیں جو شہر میں صیاد ہوئے پھرتے ہیں
اس سے بھی مصرع ثانی کے معنی میں تھوڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے اسلیئے میری ناقص سمجھ میں یہ ترتیب و ترکیب زیادہ مناسب لگی ہے۔
لوگ یہ چند جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
شہر میں وہ ہیں جو صیاد ہوئے پھرتے تھے
 

الف عین

لائبریرین
وعلیکم السلام
تاخیر کی معذرت۔ در اصل یہاں علی گڑھ میں ہوں، ابھی انٹر نیٹ پیکیج لیا ہے۔
تم نے بھی اصل میں ترمیم کر دی ہے، پتہ چلا ہے کہ پہلے ردیف بنے پھرتے ہیں‘ تھی۔
مطلع مفہوم کے لحاظ سے عجیب لگ رہا ہے۔ پہلے مصرع میں ’چند یہ لوگ‘ کی بہ نسبت ’یہ جو کچھ لوگ‘ بہتر ہے۔ اور ’وہی اس شہر میں‘ بہتر ہے۔ لیکن پورا مطلع بدل دیا جائے تو بہتر ہو گا۔
دوسرا شعر بہت خوب
تیسرا درست
پدر مادر کی بجائے اگر ماں باپ ہی لا سکو تو شعر بہتر اور رواں ہو سکتا ہے، کہ بول چال کے قریب ہے۔
آخری شعر میں بھی بہتری کی گنجائش ہے۔ ’یہ جو شیریں یہ جو‘ کا بیانیہ اچھا نہیں لگتا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں نے آج آپکی پوسٹ دیکھی ہے استاد محتر الف عین صاحب۔ اس غزل میں پہلے میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی اب آپ کے حکم کی روشنی میں کوشش کروں گا۔ شکریہ۔
 
استاد محترم الف عین صاحب حاضر ہے ایک تازہ ترین کوشش۔۔

لوگ یہ چند جو آزاد ہوئے پھرتے ہیں
شہر میں وہ ہیں جو صیاد ہوئے پھرتے ہیں

جس طرف جائوں مرے ساتھ چلے آتے ہیں
درد گویا مرے ہمزاد ہوئے پھرتے ہیں

ہم سے رکھے نہ سروکار ذرا بھی کوئی
ہم سیا بخت ہیں، برباد ہوئے پھرتے ہیں

جو کبھی شاد نہ رکھ پائے پدر مادر کو
دہر میں آج وہ ناشاد ہوئے پھرتے ہیں

بوجھ ہیں شہر_ محبت کی زمیں پر راجا
یہ جو شیریں یہ جو فرہاد ہوئے پھرتے ہیں
بے حد کمال کی غزل۔ کیا کہنے۔ سبحان اللہ
داد کے لئے الفاظ نہیں۔ واہ واہ
 
Top