عظیم اللہ قریشی
محفلین
مرچ میں اٹھاؤں تو
اینٹ کا برادہ ہے
دودھ پانی پانی تو
شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں
کرسیوں پہ کتے ہیں
عصمتوں پہ بولی ہے
سرحدیں بھی ننگی ہیں
چینلوں پہ بکتی ہے
بھوک مرنے والوں کی
دیر تک رلاتا ہے
رش تماش بینوں کا
بے زبان لاشوں کا
جس جگہ میں رہتا ہوں
بے حسوں کی جنت ہے
کس قدر یہ سادہ ہیں
سود کے نوالوں سے
جب ڈکار آتے ہیں
شکر کی صداؤں سے
رب کو یاد کرتے ہیں
رب بھی مسکراتا ہے
جب یہ طاق راتوں میں
کچھ تلاش کرتے ہیں!
اینٹ کا برادہ ہے
دودھ پانی پانی تو
شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں
کرسیوں پہ کتے ہیں
عصمتوں پہ بولی ہے
سرحدیں بھی ننگی ہیں
چینلوں پہ بکتی ہے
بھوک مرنے والوں کی
دیر تک رلاتا ہے
رش تماش بینوں کا
بے زبان لاشوں کا
جس جگہ میں رہتا ہوں
بے حسوں کی جنت ہے
کس قدر یہ سادہ ہیں
سود کے نوالوں سے
جب ڈکار آتے ہیں
شکر کی صداؤں سے
رب کو یاد کرتے ہیں
رب بھی مسکراتا ہے
جب یہ طاق راتوں میں
کچھ تلاش کرتے ہیں!