ایم اسلم اوڈ
محفلین
لُٹی قوم کا پاکستان لُٹ رہا ہے(محمد نورا لھدیٰ) ای میل
ہر زمانہ میں اور خصوصاً موجودہ دور میں امت مسلمہ پر ہر جانب سے ابلیسی اور شیطانی حملوں کا زور ہے ۔ اور اسلامی دنیا اس کی زد میں ہے ۔ ہر مسلمان جس میں ذرا سی بھی سوجھ بوجھ ہے اور وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ ”میں بنی آدم کو چاروں طرف سے گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا اور سوائے تیرے خالص بندوں کے کوئی بھی میرے حملوں سے نہ بچ پائے گا ۔ “ موجودہ زمانے میں مسلمان اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں میں خاص کر کچھ ایسی رسومات رواج پاچکی ہیں کہ جن کا اسلام اور اسلامی ثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ حالانکہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اسے کم از کم اتنا معلوم ہو کہ اسلام کیا کہتا ہے اور کیا نہیں .... کس چیز کا حکم دیتا ہے اور کس چیز سے روکتا ہے .... اس علم کے بغیر کوئی بھی مسلمان ، صحیح العقیدہ مسلمان نہیں رہ سکتا ....
آج کل ابلیس کا ایک کارگر حملہ” ثقافت“ کے نام پر مادر پدر آزادی کی راہ پر ڈالنا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہی ہورہا ہے ۔ نئے سال کی آمد ہو یا کوئی سالگرہ ہو ۔ عید یا غیر مسلموں کا تہوار ہو یا ویلنٹائن ڈے .... مخلوط محفلیں ، ہلڑ بازی ، بیہودگی ، شراب نوشی ، آوارہ گردی ، نائٹ کلبوں میں رقص ، اور پتنگ بازی ، سب عروج پر ہوتی ہیں ۔ حالانکہ اسلام ان تمام بیہودہ اور غیر اسلامی ثقافت اور رسموں کو مٹانے آیا تھا ۔ اسلام پروروں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کی بجائے فقط دو عیدیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ منانے کا حکم دیا گیا تھا ۔ غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے شعار اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کا الگ تشخص برقرار رہے ۔ مگر ہم نے شاید نبی کی اس حدیث کو بھلا دیا ہے کہ ”جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا ، وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا“ ۔
بسنت ، ویلنٹائن ڈے ، میراتھن ریس ، نیو ائیر ، اور ایسی ہی دیگر رسومات وغیرہ کے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ موسمی اور ثقافتی تہوار ہےں ۔ میرے خیال میں ایسا صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو ان تہواروں میں حصہ تو لیتے ہیں لیکن ان کا پس منظر جاننے کی زحمت انہوں نے کبھی گوارہ نہیں کی ۔
وطن عزیز پاکستان ایک کانٹا بن کر دنیائے کفر کے سینے میں اترا اور حقیقت بن کر کرہ ارض پر ابھرا ۔ عالم کفر نے اسے مٹانے کے لئے بہت سی منافقانہ چالیں چلیں لیکن ہر محاذ پر ناکام رہے ۔ پھر اسلام دشمن قوموں کے دانشوروں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر پاکستانی قوم کی” ذہنی تخریب کاری“ کا پروگرام بنایا۔ وہ جانتے تھے کہ قوموں کے امین نوجوان ہوا کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں دلکش غلاظتوں میں ڈبونے کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ ایک یلغار تھی جو پاکستان کی ثقافت پر لڑائی ، مارکٹائی ، جرائم ، خون خرابے ، اور جنسی لذت سے بھرپور انگریزی و انڈین فلموں ، ناولوں ، بیہودہ رسموں اور فضول تہواروں کی صورت میں ہوئی ۔ جب ذہن بدلتے ہیں تو سوچیں بدل جاتی ہیں .... اطوار ، لباس ، تہذیب ، پسند اور ناپسند کے پیمانے ، غرض کہ سبھی کچھ بدل جاتا ہے ۔ اور جب ذہن کی تبدیلی لذت پرستی اورفرار پسندی کے زیر اثر ہو تو اخلاقیات اور مذہب کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں ، کردار کے قلعے مسمار ہوجاتے ہیں ، نیک و بد کی تمیز مٹ جاتی ہے ، انسان حیوان بن جاتے ہیں اور قومی روایات سے انحراف شروع ہوجاتا ہے ۔
تخریب کا یہ عمل آج پاکستان میں جاری ہے ۔ وہ نونہال اور نوجوان جو قومی روایات کے رکھوالے اور وارث تھے ، آج ویلنٹائن ڈے اور بسنت ، اور نیو ائیر نائٹ منانے میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ قومی روایات کے امین وہ نوجوان ”ٹیڈی بوائے “ بن گئے ، لڑکیوں کے لباس بھی اتنے تنگ اور مختصر ہوگئے کہ وہ ملبوس ہوتے ہوئے بھی مستور نہیں رہیں ۔ دوپٹہ رسی کی طرح گلے میں پڑا رہتا ہے ۔ لڑکی بھری محفل میں ”بوائے فرینڈ“ کا ذکر بڑے فخر سے کرتی ہے ۔ بات کرنے ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، اور چلنے پھرنے تک کے انداز بدل گئے ۔ اور پھر اس انداز میں ”امریکی / مغربی پلے بوائز“ کا رنگ غالب آنے لگا ۔
دشمن کی یلغار کامیاب رہی اور کامیاب بھی اس لئے رہی کہ پاکستان بنانے والا تو ایک ہی سال بعد دنیا سے اٹھ گیا ، پیچھے حکومت کرنے والے رہ گئے جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بندی کررکھی ہے ۔ وہ اپنے ملک کی بقاءکی بجائے اقتدار کی جنگ لڑرہے ہیں اور تمام تر وسائل اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی سیاست جو سیاست نہیں بلکہ معرکہ آرائی ہے ، اب تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی خنجر ، چاقو ، اور سٹین گنیں ، طلبہ کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہیں ۔ قوم کے نونہالوں کو سیاسی مقاصد اور مفادات کی خاطر ہنگامہ آرائی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ شہر قائد کے تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے ۔ صوبائی حکومت نے ایک طلبہ تنظیم کو اپنے مخالفین کے استعمال کرنے کاذریعہ بنا رکھا ہے اور شہر کا امن داﺅ پر لگا رکھا ہے ۔
ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی تھی ۔ ہم نے ہندﺅں کو بھی شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ تو پھر کیا ہم اس چھوٹے سے گروہ سے اپنے ملک کو نہیں بچا سکتے ۔ ہم پاکستان کو بچا سکتے ہیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی محبت اور اس کی قدر و قیمت ہمارے ان بزرگوں کے دلوں میں ہی رہ گئی ہے جنہوں نے پاکستان بنایا تھا یا پھر جنہوں نے اسے بنتے دیکھا تھا ۔ جو اپنے مکان ، اپنی زمینیں ، اپنے عزیز وں کی لاشیں ، اور اپنی بیٹیوں کی عصمتیں سرحد پار ہی چھوڑ آئے تھے ۔ آج 60برسوں میں پاکستان پر جتنے بھی حکمران مسلط ہوئے انہوں نے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالا ۔ یاد رکھئے کسی بھی ملک کی سلامتی ایک مضبوط پرعزم اور قومی جذبے سے سرشار نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں پاکستان کی نوجوان قیادت جتنی طاقتور ہوگی ہندﺅں اور انگریزوں پر اتنی ہی دہشت طاری ہوگی ۔ ہمیں دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ہے جس نے 14اگست 1947ءسے پہلے کہا تھا کہ” پاکستان ایک مذاق ہے اگر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کربھی لیا تو یہ چند دنوں کا کھیل ثابت ہوگا “۔ دشمن اپنے دعوے میں ناکامی کے بعد اب پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے اور ہماری نوجوان نسل پر تہذیبی یلغار کے ذریعے کمزور اور وطن سے لاتعلق کرنے کے درپے ہے ۔ آج اسلام کے قلعے پاکستان کی دیواروں میں دڑاریںپڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ ایک لٹی ہوئی قوم کا پاکستان لٹ رہا ہے ۔ اس پاکستان کو دشمن کے عزائم سے بچا کر ایک مضبوط اسلامی مملکت بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہئے کہ ہماری نسلوں کو پاکستان کے وقار اور آن کا محافظ بننا ہے ۔ ان کی خون میں آباﺅ اجداد کی روایات کو شامل کرنا ہے اور اسکے مذہب اور ملک کا دشمن دکھانا ہے اور ابلیسی قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے قابل بنانا ہے ۔ نیز انہیں اس بات کی اجازت ہرگز .... ہرگز نہیں دینی کہ ملک کے وقار اور اس کے حصول کے لئے دی گئی قربانیوں کو پتنگوں کے ذریعے ہواﺅں میں اڑا دیا جائے .... میراتھنوں کے ذریعے سڑکوں پر گھسیٹا جائے یا ویلنٹائنی پھولوں کے ذریعے فضاﺅں میں بکھیر ا جائے ۔
http://www.lahoreupdates.com/index....9-37-58&catid=13:2009-06-10-15-57-48&Itemid=4
ہر زمانہ میں اور خصوصاً موجودہ دور میں امت مسلمہ پر ہر جانب سے ابلیسی اور شیطانی حملوں کا زور ہے ۔ اور اسلامی دنیا اس کی زد میں ہے ۔ ہر مسلمان جس میں ذرا سی بھی سوجھ بوجھ ہے اور وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ ”میں بنی آدم کو چاروں طرف سے گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا اور سوائے تیرے خالص بندوں کے کوئی بھی میرے حملوں سے نہ بچ پائے گا ۔ “ موجودہ زمانے میں مسلمان اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں میں خاص کر کچھ ایسی رسومات رواج پاچکی ہیں کہ جن کا اسلام اور اسلامی ثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ حالانکہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اسے کم از کم اتنا معلوم ہو کہ اسلام کیا کہتا ہے اور کیا نہیں .... کس چیز کا حکم دیتا ہے اور کس چیز سے روکتا ہے .... اس علم کے بغیر کوئی بھی مسلمان ، صحیح العقیدہ مسلمان نہیں رہ سکتا ....
آج کل ابلیس کا ایک کارگر حملہ” ثقافت“ کے نام پر مادر پدر آزادی کی راہ پر ڈالنا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہی ہورہا ہے ۔ نئے سال کی آمد ہو یا کوئی سالگرہ ہو ۔ عید یا غیر مسلموں کا تہوار ہو یا ویلنٹائن ڈے .... مخلوط محفلیں ، ہلڑ بازی ، بیہودگی ، شراب نوشی ، آوارہ گردی ، نائٹ کلبوں میں رقص ، اور پتنگ بازی ، سب عروج پر ہوتی ہیں ۔ حالانکہ اسلام ان تمام بیہودہ اور غیر اسلامی ثقافت اور رسموں کو مٹانے آیا تھا ۔ اسلام پروروں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کی بجائے فقط دو عیدیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ منانے کا حکم دیا گیا تھا ۔ غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے شعار اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کا الگ تشخص برقرار رہے ۔ مگر ہم نے شاید نبی کی اس حدیث کو بھلا دیا ہے کہ ”جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا ، وہ انہی میں سے اٹھایا جائے گا“ ۔
بسنت ، ویلنٹائن ڈے ، میراتھن ریس ، نیو ائیر ، اور ایسی ہی دیگر رسومات وغیرہ کے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ موسمی اور ثقافتی تہوار ہےں ۔ میرے خیال میں ایسا صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو ان تہواروں میں حصہ تو لیتے ہیں لیکن ان کا پس منظر جاننے کی زحمت انہوں نے کبھی گوارہ نہیں کی ۔
وطن عزیز پاکستان ایک کانٹا بن کر دنیائے کفر کے سینے میں اترا اور حقیقت بن کر کرہ ارض پر ابھرا ۔ عالم کفر نے اسے مٹانے کے لئے بہت سی منافقانہ چالیں چلیں لیکن ہر محاذ پر ناکام رہے ۔ پھر اسلام دشمن قوموں کے دانشوروں نے انسانی فطرت کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر پاکستانی قوم کی” ذہنی تخریب کاری“ کا پروگرام بنایا۔ وہ جانتے تھے کہ قوموں کے امین نوجوان ہوا کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں دلکش غلاظتوں میں ڈبونے کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ ایک یلغار تھی جو پاکستان کی ثقافت پر لڑائی ، مارکٹائی ، جرائم ، خون خرابے ، اور جنسی لذت سے بھرپور انگریزی و انڈین فلموں ، ناولوں ، بیہودہ رسموں اور فضول تہواروں کی صورت میں ہوئی ۔ جب ذہن بدلتے ہیں تو سوچیں بدل جاتی ہیں .... اطوار ، لباس ، تہذیب ، پسند اور ناپسند کے پیمانے ، غرض کہ سبھی کچھ بدل جاتا ہے ۔ اور جب ذہن کی تبدیلی لذت پرستی اورفرار پسندی کے زیر اثر ہو تو اخلاقیات اور مذہب کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں ، کردار کے قلعے مسمار ہوجاتے ہیں ، نیک و بد کی تمیز مٹ جاتی ہے ، انسان حیوان بن جاتے ہیں اور قومی روایات سے انحراف شروع ہوجاتا ہے ۔
تخریب کا یہ عمل آج پاکستان میں جاری ہے ۔ وہ نونہال اور نوجوان جو قومی روایات کے رکھوالے اور وارث تھے ، آج ویلنٹائن ڈے اور بسنت ، اور نیو ائیر نائٹ منانے میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ قومی روایات کے امین وہ نوجوان ”ٹیڈی بوائے “ بن گئے ، لڑکیوں کے لباس بھی اتنے تنگ اور مختصر ہوگئے کہ وہ ملبوس ہوتے ہوئے بھی مستور نہیں رہیں ۔ دوپٹہ رسی کی طرح گلے میں پڑا رہتا ہے ۔ لڑکی بھری محفل میں ”بوائے فرینڈ“ کا ذکر بڑے فخر سے کرتی ہے ۔ بات کرنے ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، اور چلنے پھرنے تک کے انداز بدل گئے ۔ اور پھر اس انداز میں ”امریکی / مغربی پلے بوائز“ کا رنگ غالب آنے لگا ۔
دشمن کی یلغار کامیاب رہی اور کامیاب بھی اس لئے رہی کہ پاکستان بنانے والا تو ایک ہی سال بعد دنیا سے اٹھ گیا ، پیچھے حکومت کرنے والے رہ گئے جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بندی کررکھی ہے ۔ وہ اپنے ملک کی بقاءکی بجائے اقتدار کی جنگ لڑرہے ہیں اور تمام تر وسائل اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی سیاست جو سیاست نہیں بلکہ معرکہ آرائی ہے ، اب تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی خنجر ، چاقو ، اور سٹین گنیں ، طلبہ کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہیں ۔ قوم کے نونہالوں کو سیاسی مقاصد اور مفادات کی خاطر ہنگامہ آرائی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ شہر قائد کے تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے ۔ صوبائی حکومت نے ایک طلبہ تنظیم کو اپنے مخالفین کے استعمال کرنے کاذریعہ بنا رکھا ہے اور شہر کا امن داﺅ پر لگا رکھا ہے ۔
ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی تھی ۔ ہم نے ہندﺅں کو بھی شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ تو پھر کیا ہم اس چھوٹے سے گروہ سے اپنے ملک کو نہیں بچا سکتے ۔ ہم پاکستان کو بچا سکتے ہیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی محبت اور اس کی قدر و قیمت ہمارے ان بزرگوں کے دلوں میں ہی رہ گئی ہے جنہوں نے پاکستان بنایا تھا یا پھر جنہوں نے اسے بنتے دیکھا تھا ۔ جو اپنے مکان ، اپنی زمینیں ، اپنے عزیز وں کی لاشیں ، اور اپنی بیٹیوں کی عصمتیں سرحد پار ہی چھوڑ آئے تھے ۔ آج 60برسوں میں پاکستان پر جتنے بھی حکمران مسلط ہوئے انہوں نے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالا ۔ یاد رکھئے کسی بھی ملک کی سلامتی ایک مضبوط پرعزم اور قومی جذبے سے سرشار نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں پاکستان کی نوجوان قیادت جتنی طاقتور ہوگی ہندﺅں اور انگریزوں پر اتنی ہی دہشت طاری ہوگی ۔ ہمیں دشمن کے عزائم کو ناکام بنانا ہے جس نے 14اگست 1947ءسے پہلے کہا تھا کہ” پاکستان ایک مذاق ہے اگر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کربھی لیا تو یہ چند دنوں کا کھیل ثابت ہوگا “۔ دشمن اپنے دعوے میں ناکامی کے بعد اب پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے اور ہماری نوجوان نسل پر تہذیبی یلغار کے ذریعے کمزور اور وطن سے لاتعلق کرنے کے درپے ہے ۔ آج اسلام کے قلعے پاکستان کی دیواروں میں دڑاریںپڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ ایک لٹی ہوئی قوم کا پاکستان لٹ رہا ہے ۔ اس پاکستان کو دشمن کے عزائم سے بچا کر ایک مضبوط اسلامی مملکت بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہئے کہ ہماری نسلوں کو پاکستان کے وقار اور آن کا محافظ بننا ہے ۔ ان کی خون میں آباﺅ اجداد کی روایات کو شامل کرنا ہے اور اسکے مذہب اور ملک کا دشمن دکھانا ہے اور ابلیسی قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے قابل بنانا ہے ۔ نیز انہیں اس بات کی اجازت ہرگز .... ہرگز نہیں دینی کہ ملک کے وقار اور اس کے حصول کے لئے دی گئی قربانیوں کو پتنگوں کے ذریعے ہواﺅں میں اڑا دیا جائے .... میراتھنوں کے ذریعے سڑکوں پر گھسیٹا جائے یا ویلنٹائنی پھولوں کے ذریعے فضاﺅں میں بکھیر ا جائے ۔
http://www.lahoreupdates.com/index....9-37-58&catid=13:2009-06-10-15-57-48&Itemid=4