محمد شکیل خورشید
محفلین
میں کر تو دوں گا ذکر کسی بے قرار کا
کیا وہ سمجھ سکیں گے اشارا پیار کا
اک وقت تھا کہ وہ بھی سمجھتے تھے حالِ دل
ان کو بھی پاس تھا کسی عہد و قرار کا
اتنا طویل ہو گیا وقتِ خزاں کہ دوست
اب یاد بھی نہیں ہے زمانہ بہار کا
ہر نشترِ زمانہ سہا ہم نے اس طرح
یہ بھی تھا امتحاں مرے پروردگار کا
کیا جانے ختم کب ہو یہاں مہلتِ حیات
کچھ ہے بھروسہ عالمِ ناپائدار کا
کون آئے گا بسانے کو اجڑے چمن یہاں
ہے کس کو غم جہاں میں گلستانِ یار کا
اک بار آ کے پوچھنا زندہ ہو اے شکیل
پھر حال دیکھنا دلِ دیوانہ وار کا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ اور احباب کی توجہ کا منتظر
کیا وہ سمجھ سکیں گے اشارا پیار کا
اک وقت تھا کہ وہ بھی سمجھتے تھے حالِ دل
ان کو بھی پاس تھا کسی عہد و قرار کا
اتنا طویل ہو گیا وقتِ خزاں کہ دوست
اب یاد بھی نہیں ہے زمانہ بہار کا
ہر نشترِ زمانہ سہا ہم نے اس طرح
یہ بھی تھا امتحاں مرے پروردگار کا
کیا جانے ختم کب ہو یہاں مہلتِ حیات
کچھ ہے بھروسہ عالمِ ناپائدار کا
کون آئے گا بسانے کو اجڑے چمن یہاں
ہے کس کو غم جہاں میں گلستانِ یار کا
اک بار آ کے پوچھنا زندہ ہو اے شکیل
پھر حال دیکھنا دلِ دیوانہ وار کا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ اور احباب کی توجہ کا منتظر