محمد شکیل خورشید
محفلین
1984 میں یہ پہلی کاوش کی تھی، تقریباََ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں، تب یار تخلص اختیار کیا تھا، کوئی استاد میسر نہیں تھا، بس کاپی کے صفحے بھرتا رہا، اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کئی بے وزن اور دوسری اغلاط سے بھری پڑی تھیں، زیرِ نظر غزل پہلی مکمل غذل تھی، آج پرانے کاغذوں پر نظر پڑی تو یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
جب نہ کچھ سادگی نے نام دیا
ہم نے دیوانگی سے کام لیا
جب نہ پایا نشہ محبت کا
ہم نے گھبرا کے ایک جام پیا
دردِ دل ایک ہی مصیبت ہے
جس نے جینا مرا حرام کیا
جانے کیا سوچ کے پکارا تمہیں
دل نے نا جانے کیوں یہ کام کیا
یار نہ دل کو توڑنا ایسے
اسی ناداں نے ہم کو تھام لیا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
جب نہ کچھ سادگی نے نام دیا
ہم نے دیوانگی سے کام لیا
جب نہ پایا نشہ محبت کا
ہم نے گھبرا کے ایک جام پیا
دردِ دل ایک ہی مصیبت ہے
جس نے جینا مرا حرام کیا
جانے کیا سوچ کے پکارا تمہیں
دل نے نا جانے کیوں یہ کام کیا
یار نہ دل کو توڑنا ایسے
اسی ناداں نے ہم کو تھام لیا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر