میر مہدی مجروح لڑ کے اغیار سے جُدا ہیں آپ - میر مہدی مجروح

کاشفی

محفلین
غزل
لڑ کے اغیار سے جُدا ہیں آپ
مجھ سے بے وجہ کیوں‌ خفا ہیں آپ
میں اور اُلفت میں ہوں کہیں پابند
وہم میں مجھ سے بھی سوا ہیں آپ
غمزہ سے ناز سے لگاوٹ سے
ہر طرح آرزو فزا ہیں آپ
یاں تو دل ہی نہیں‌ ہے پھر کیا دیں
یہ تو مانا کہ دل رُبا ہیں آپ
کون سا دل نہیں تمہاری جا
جلوہ فرما ہر ایک جا ہیں آپ
دل نہ دیتے جو منہ نہ دکھلاتے
خود تعشق کی ابتدا ہیں آپ
ہم نے یاں تک خودی کو محو کیا
میں‌ نہیں اب تو میری جا ہیں آپ
کیا سنا حال تلخ کاموں کا
حد سے افزوں جو بدمزا ہیں آپ
واں‌ خبر ہی نہیں تو پھر مجروح
کیوں مصیبت میں‌ مبتلا ہیں آپ
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی رحمتہ اللہ علیہ )
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ جناب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔




دوسرے مصرعے میں کچھ محذوف ہے، شاید سے اور سوا کے درمیان بھی، پلیز چیک کر کے درست کر دیں، شکریہ۔

کردیا وارث صاحب اب دیکھیں۔

میں اور اُلفت میں ہوں کہیں پابند
وہم میں مجھ سے بھی سوا ہیں آپ
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ سمجھے نہیں جناب، میں یہ کہہ رہا تھا کہ غزل تو پوسٹ کاشفی صاحب نے کی ہے تو آپ نے کہاں درست کر دیا اسے :)

باقی بہت شکریہ آپ کا تصحیح کیلیے، مجھے بھی 'بھی' ہی لگ رہا تھا، آپ نے دیوانِ مجروح سے دیکھ لیا نوازش آپ کی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ سمجھے نہیں جناب، میں یہ کہہ رہا تھا کہ غزل تو پوسٹ کاشفی صاحب نے کی ہے تو آپ نے کہاں درست کر دیا اسے :)

باقی بہت شکریہ آپ کا تصحیح کیلیے، مجھے بھی 'بھی' ہی لگ رہا تھا، آپ نے دیوانِ مجروح سے دیکھ لیا نوازش آپ کی!

شکریہ وارث صاحب میں واقعی نہیں سمجھا تھا۔ آپ ایڈٹ کر کے اس غزل میں خود ہی تصحیح کر دیں۔ فکر نہ کریں یہ کاشفی ہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
حضور اتنی گرد اٹھ چکی کہ اب ذرا ہوا بھی چلے تو میری آنکھوں میں گرد کی چھبن محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے!
 
Top