لکھاری اور قاری کا تعلق از ادریس آزاد

بہت کم ایسا ہوتاہے کہ ایک لکھاری غیرجذباتی قسم کا انسان ہو۔ عام طورپر لکھاری وہی لوگ بن پاتے ہیں جو جذباتی بلکہ بعض اوقات شدید جذباتی قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک جذباتی انسان کیسا ہوتاہے؟ ایک ایسا انسان جو جلد خوش ہوجاتاہو، جلد روپڑتاہو، جلد غصے میں آجاتاہو، جلد ہنس پڑتاہو، جذباتی انسان ہوتاہے۔اچھے لکھاری لکھتے وقت ہی بطورخاص، جذباتی ہوجاتے ہیں۔ لکھاریوں کوپڑھنے والے لوگوں میں ہرطرح کےلوگ ہوتے ہیں۔ جذباتی بھی اور غیرجذباتی بھی۔ زیادہ جذباتی بھی اور اعتدال پسند طبیعت کے مالک بھی۔ لیکن لکھاری خود عام طورپر زیادہ جذباتی آدمی ہی ہوتاہے۔

جب کوئی لکھاری کوئی چیز لکھتاہے تو اس کے جذبات کا رنگ اس تحریر میں غالب اور نمایاں ہوتاہے۔ بہت زیادہ جذباتی انداز میں لکھنےوالے کا اندازِ بیاں خود بخود ہی خطیبانہ یا عاشقانہ ہوجاتاہے۔ جب کوئی شخص کسی لکھاری کی تحریر پڑھتاہے تو وہ بھی اُس لکھاری کے جذبات کا شکار ہوسکتاہے۔ قاری اگر لکھاری کو پہلے سے جانتاہے تو قاری دوطرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرسکتاہے۔ ایک لکھاری سے نفرت کا ردعمل اوردوسرا لکھاری سے محبت کا ردعمل۔ دونوں صورتوں میں قاری اُس لکھاری کی تحریر کو انصاف کے ساتھ پڑھنے سے محرورم رہتاہے۔ عام طورپر قاری لکھاری کے ٹرانس میں رہ کر پڑھتاہے۔بالکل ویسے جیسے کسی اچھی آرٹ مووی کا دیکھنےوالا جذبات کی رو میں بہہ جاتاہے۔ایسے ہی ایک اچھی تحریر کا پڑھنے والا اپنے لکھاری کے جذبات کا عکس بن کر پڑھتارہتاہے۔بعض قارئین لکھاری سے بھی زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ ایسے قارئین اپنے پسندیدہ لکھاری کی تحریر پڑھتے وقت گویا اُس کی تحریر سے ہپناٹائز ہوکر جذبات اورہیجان کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہرمعاشرے میں لکھاری ہی لوگوں کو ذہن بناتے ہیں۔ یہ لکھاری کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔ عین ممکن ہے وہ پردۂ سکرین کے پیچھے بیٹھے ہوں۔ عین ممکن ہے وہ آپ کے گھر میں کسی گانے کی صورت بج رہے ہوں۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کے حکمران کی حیثیت سے آپ کے سامنے تقریر کررہے ہوں۔ بعض حکمرانوں کی تقریریں بھی ایسے ہی لکھاریوں کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں جو مختلف بیانیوں کے سوداگرہوتے اوراپنے لوگوں پر بڑی شدت سے اثرانداز ہوسکتے ہیں۔لکھاری کتابیں ہی نہیں لکھتے، سب کچھ لکھتے ہیں۔ سڑکوں کے کناروں پر لگے سائن بورڈز، دکانوں کے شٹروں پر لکھے ہوئے نام، تقریبات کے دعوتی کارڈز، اخباروں کی خبریں اور کالم، ٹی وی کے ڈرامے اور سکرپٹ، بینروں کے نعرے اورفلائرز کے نکات، غزلیں، گیت، نظمیں، کافیاں، ترجمے، مضمون ، افسانے، مرثیے، بین، اعلانات۔ اگرکوئی قوم بولتی ہے تو وہ لکھاریوں کا لکھاہوا بولتی ہے اور اگر کوئی قوم سنتی ہے تو وہ لکھاریوں کا لکھا ہوا سنتی ہے۔کسی قوم کا سارا بیانیہ اس کے لکھاریوں کے ہاتھ میں ہوتاہے۔ کسی قوم کے مستقبل کا سارا دارومدار انہی لکھاریوں کے لکھے ہوئے پر ہوتاہے۔

لکھاری مقدس کتاب کا ترجمہ بھی کریں تو اپنے مخصوص بیانیوں سے باہر نہیں رہ سکتے۔ مخصوص بیانیوں کو پھیر پھیر کر لکھنا ہی ایک لکھاری کی زندگی کا مقصد ہوتاہے۔کسی بھی لکھاری کا بیانیہ تشکیل پانے کے بے شمار عوامل ہیں۔ جن میں اس کا ماحول، پیدائش، پرورش، تدریسی بیانیے، تاریخی وراثت اور ثقافت سمیت ان گنت عوام ہیں جو ایک لکھاری کا ذہن بناتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتاہے کہ لکھاری بِک جائے۔ بِک جائےاور اپنے ضمیر کے خلاف لکھنے لگے۔ ایسی صورت میں لکھاری کسی اور کا بیانیہ پھیلانے کا کام انجام دیتاہے۔ مگر ایسا ہوتا بہت کم ہے کہ کوئی لکھاری بِک جائے۔ عام طورپر جینوئن لکھاری نہیں بکتے۔

کسی قوم کا بیانیہ ہی اس کا کُل سرمایہ ہوتاہے۔ کسی قوم کا ایٹم بم کسی قوم کا کُل سرمایہ نہیں ہے لیکن بیانیہ اُس قوم کا سب کچھ ہے۔اگر کسی قوم کے تمام تر لکھاریوں کا یا زیادہ لکھاریوں کا بیانیہ ایک جیسا ہو تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ وہ قوم بہت مضبوط ہے لیکن اگر کسی قوم کے مختلف لکھاریوں کے مختلف بیانیے ہوں تو اس قوم کا اپنا مخصوص بیانیہ دھیرے دھیرے کھوجاتاہے۔کسی قوم کا اپنا مخصوص بیانیہ کھوجانا ایسا ہے جیسے اُس قوم کی شناخت ہی کھوجائے۔ کیونکہ بیانیہ ہی کسی قوم کی اساس سے لے کر انجام تک، شکست وریخت کا ذمہ دار ہے۔عام طورپر اقوام اپنی شناخت اورثقافت کے بقا کے لیے برسرپیکار رہتی ہیں، اس لیے اُن کے بیانیے جہدللبقأ یعنی سروائیول کے بیانیے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ سروائیول کے بیانیوں میں دوسری اقوام کے خلاف ایک خاص قسم کا مدافعتی طرزِ عمل پایا جاتاہے۔اُن بیانیوں میں ایک پوشیدہ خوف موجود ہوتاہے، جسے ایک ماہر تنقید نگار اپنی تجربہ گارنگاہ سے بھانپ لیتاہے۔ایسی اقوام جنہیں اپنی ثقافت کے بقأ کی جنگ نہ لڑنا پڑرہی ہو، انسانی سطح کے بیانیے تخلیق کرتی ہیں۔ان بیانیوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ طویل المیعاد منصوبوں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ان کے خالقین کی مطمحِ نظر وسیع اور بلند ہوتاہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کے بیانیے ہرلحاظ سےصاف شفاف ہوں۔ایسے بیانیے بھی مکروفریب پر مبنی ہوسکتے ہیں۔ اور ایسے بیانیے اگر مکروفریب پر مبنی نہ بھی ہوں تو کسی اور وجہ سے غلط ثابت ہوسکتے ہیں۔

عامۃ الناس اپنے ارد موجود بیانیوں کے ٹرانس میں ہی رہتے ہیں جو کسی نہ کسی لکھاری نے ہی پھیلا رکھے ہوتے ہیں۔مثلاً امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے بارے میں یہ رائے رکھتی ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر میں دہشت گردی کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بیانیہ امریکہ کے لکھاریوں نے اس وقت تخلیق کرنااچانک شروع کردیا جب امریکہ کا تمام کام افغانستان میں مکمل ہوگیا اور وہ افغانستان کو اُس کے پڑوسی ملکوں کے لیے ایک مستقل سردرد کی صورت یونہی حالتِ بربادی میں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ اس وقت وہ تمام مجاہدین جو امریکی جھنڈے تلے روس کے خلاف لڑتے رہے تھے، اچانک ہی امریکی بیانیے کی رُو سے دہشت گرد ہوگئے۔ چونکہ عامۃ الناس اپنے لکھاریوں کے بیانیوں میں سے ہی جملے، چٹکلے، لطیفے، چُست جملے، اشعار، اور گانے یا فلمی ڈائیلاگز یاد کرکے اپنے معاشرے میں بار بار بولتے اور اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ’’شیئر‘‘ کرتے رہتے ہیں اِس لیے امریکی عوام کو یہ پتہ ہی نہ چلا کہ چند سال پہلے تک یہ لوگ تو امریکی فوجیوں کی حیثیت سے رُوس کے خلاف لڑرہے تھے۔ امریکی عوام کو یہ بات گویا راتوں رات ہی بھول گئی۔ امریکہ بیانیے میں نئے اصطلاحات آگئیں، نئے جملے، نئے ڈائیلاگز، نئے محاورے، نئے لطیفے، نئے ٹی وی پروگرام، نئے چُست جملے۔ اور یوں بہت تھوڑے وقت میں زیادہ تر امریکی عوام نے مکمل طورپر یہ ذہن بنالیا کہ ’’ہاں واقعی، مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں‘‘۔ یوں لکھاری اپنے عوام کو بے وقوف بناتے اور اُنہیں اپنے ٹرانس میں لیے رکھتےہیں۔

مضمون کے شروع میں میں نے کہا کہ لکھاری جذباتی ہوتے ہیں اور وہ اپنے اندازِ تحریر سے اپنے پڑھنےوالوں کے ذہنوں کو جذبات کی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ایسے لکھاریوں کے وار سے بچنا مشکل ہوتاہے کیونکہ ضروری نہیں وہ کوئی جذباتی کہانی سنا کر آپ کے ساتھ کھیلیں۔ ایسا بھی ہوسکتاہے کہ وہ کچھ بھی نہ سنا کر آپ کو ذہنی طورپر مغلوب کرلیں۔جذبات واقعات میں نہیں ہوتے۔ جذبات لفظوں میں ہوتے ہیں۔لکھاری کا ایک ایک لفظ قاری کے لیے ایک ایک تِیر ہے۔جتنا اچھا لکھاری ہے اُتنے ہی تیزدھار تِیر اُس کے پاس ہیں۔لکھاری کے الفاظ کب قاری کے قلب و ذہن پر طاری ہوجاتے ہیں اس بات کا اندازہ لگانا کسی قاری کے لیے خاصا مشکل ہے۔لکھاری کے الفاظ فقط الفاظ نہیں ہیں، وہ ایک سوچ ہے جو دوسرے انسان پر طاری کی جارہی ہے۔ وہ فقط خیالات کا مجموعہ نہیں وہ احساسات و کیفیات کا مجموعہ ہے جو قاری کو غیر محسوس طریقے پر اپنی لپیٹ میں لیتاچلا جاتاہے۔ ضروری نہیں کہ کسی ایک آدھ مضمون سے ایسا ہو۔ ہم معاشرے میں رہتے ہیں اور ہمہ وقت ہمارے آس پاس لکھاریوں کی ذہنیت بکھری پڑی رہتی ہے۔کسی ایک بیانیے کے لکھاریوں کے اثرات دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ضروری نہیں کسی مضمون یا کہانی سے ہی قاری کا ذہن تبدیل ہو۔ ایک شعر، ایک نظم، ایک نغمہ، ایک نعرہ، ایک لطیفہ، ایک طنز بھی لکھاری کی ذہنیت کو قاری کی ذہنیت میں بدل سکتاہے۔

الغرض ساری دنیا کے عوام لکھاریوں کے ٹرانس میں رہتے ہیں۔ لکھاری فقط معاشرتی مسائل لکھنے والے کو ہی نہیں کہتے۔ سائنس لکھنے سے لے کر تصوف لکھنے تک، ہرکہیں لکھاری کی ہی ذہنیت ہے جو قاری کی ذہنیت میں بدل رہی ہے۔مثلاً فی زمانہ سائنسی مضامین کے ذریعے ہی تو سب سےزیادہ اُس درشتی کو پروموٹ کیا جاتاہے جس کا نام ہارڈ کور لبرلزم ہےاورجو دورحاضر کے سرمایہ دار کی فوج کے ہراول دستے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔سب سے زیادہ سائنسی مضامین ہی ہیں جو اپنی شان و شوکت کی وجہ سے جلد قارئین کے دلوں کو گھائل کرلیتےہیں۔فی زمانہ سائنسی تحریروں میں آفاقی شواہد کو ڈھال بنا کر عام طورپر سرمایہ دارانہ اخلاقیات کو متعارف کروایا جاتاہے۔دنیا بھر میں یوٹیلیٹیرنزم کا چرچا ہوا تو فقط سائنسی ذہنیت کی بدولت۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ کوئی ایک قسم کا شعبۂ زندگی ہے جوقارئین تک کسی مخصوص بیانیے کو منتقل کررہاہے، غلط بات ہے۔ بیانیہ کہیں بھی ہوسکتاہے۔ کسی بھی طرح کا ہوسکتاہے۔ اگر کچھ طے ہے تو فقط یہ کہ ہربیانیہ لکھاری کی زبان سے نازل ہوتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لکھاریوں پر یہ بیانیے کسی طاقتور گروہ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں۔

ادریس آزاد
 

فرقان احمد

محفلین
ایسے لکھاری آج کل بکثرت مل جاتے ہیں، جو وہی لکھتے ہیں، جس کی معاشرے میں ڈیمانڈ ہے۔ وہ اپنے ذہن اور قلم کو گروی رکھ چکے ہیں۔ ہماری دانست میں کمرشلائزیشن، عالمگیریت اور مسابقت نے لکھاریوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بے چہرہ اسلوب سامنے آ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی قوم کی مضبوطی اس کے لکھاریوں کے بیانیوں کے باہم مماثل ہونے سے جڑی ہوئی ہے تاہم اس کی اپنی قباحتیں بھی ہیں جس کا شاخسانہ ہم بھگت رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر امریکی لکھاریوں نے ایک خاص بیانیے کے ماتحت قلم اٹھایا ہے تو اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ دراصل، یہ مضمون بہت اعلیٰ ہے تاہم کہیں نہ کہیں اختلاف کی گنجائش بھی نکالی جا سکتی ہے۔ لکھاری اور قاری کے تعلق کے حوالے سے اہم نکات اٹھائے گئے ہیں جو قابل توجہ ہیں۔یوں بھی، ادریس صاحب جب لکھتے ہیں، غضب کا لکھتے ہیں۔ ہماری بدنصیبی کہ وہ کچھ عرصہ اردو محفل کے رُکن رہے، تاہم، بس معاملہ تعارف سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فیس بک پر موصوف خاصے فعال ہیں۔ انہیں یہاں گھیر کر لانا ہو گا۔
 
یہ مضمون بہت اعلیٰ ہے تاہم کہیں نہ کہیں اختلاف کی گنجائش بھی نکالی جا سکتی ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ مضمون کسی خاص فکر یا نظریہ سے آزاد ہے۔ اسی لیے اکثر پڑھنے والوں کو کسی بات سے اتفاق اور کسی سے اختلاف ہو گا۔ :)
ادریس صاحب جب لکھتے ہیں، غضب کا لکھتے ہیں۔ ہماری بدنصیبی کہ وہ کچھ عرصہ اردو محفل کے رُکن رہے، تاہم، بس معاملہ تعارف سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فیس بک پر موصوف خاصے فعال ہیں۔ انہیں یہاں گھیر کر لانا ہو گا۔
ایک مشاعرہ کے وقت کوشش کی گئی تھی، آئے بھی تھے اور شمولیت کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ مگر پھر صحت کی خرابی آڑے آ گئی۔
 
Top