خرم شہزاد خرم
لائبریرین
پیارے دوست زین بھائی نے کہا تھا یار غزل کے علاوہ بھی کچھ لکھے ارے بھائی ہماری غزل کسی سے برداشت نہیں ہوتی مطلب وہ سننے کے قابل نہیں ہوتی تو نثر اللہ معاف کرے۔خیر
لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر کیوں لکھے ؟
میرے علاوہ بھی بہت سے دوست ایسے ہونگے جو لکھنا چاہتے ہونگے جو بہت اچھا لکھ سکتے ہیں جن کو لکھنے کا شوق بھی ہے لیکن وہ نہیں لکھتے اس کی میرے نزدیک کچھ وجوہات ہیں جو میں یہاں بیان کروں گا۔
میں نے اپنے ایک دوست سے اس بارے میں بات کی کہ بھائی آپ اتنا اچھا لکھتے تھے اب آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے تو جواب ملا جناب لکھنے کے لیے تو میرے پاس بہت کچھ ہیں لیکن کیوں لکھے؟ کس کے لیے لکھے ؟ کیا یہاں کوئی پڑھنے والا ہے کوئی ایک ایسا ہو جو پڑھنے کے لیے تیار ہو ۔ آپ خود اندازہ کریں ہر طرف لکھنے والے موجود ہیں لیکن پڑھنے والے کم ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پڑھنے والے کیوں کم ہے اور لکھنے والے کیوں زیادہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے اب تحریروں کا میعار نہیں دیکھا جاتا بلکے تحریر کار کو دیکھا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں دیکھ لے کتابیں بہت سی ہیں۔ ایک لکھاری نے 5،5 کتابیں لکھیں ہوئی ہیں لیکن اس لکھاری کا نام بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا وہ اپنے حلقے میں جانا جاتا ہے بہت کم لکھاری ایسے ہیں جو اچھا لکھتے ہیں جن کی تحریروں کا لوگ انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریریں بہت مشکل کے بعد مارکیٹ میں کتابی شکل میں آتی ہیں۔ اس وقت اخبارات ، میگزیں ، رسالے ، ٹی وی ، ریڈیو، وغیرہ جہاں جہاں بھی دیکھا جائیں صرف اور صرف وہی لوگ نظر آتے ہیں جو ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ یہاں تو کام کے بدلے کام لیا جاتا ہے۔ میعار نہیں دیکھا جاتا ۔
بھائی ایسی بات نہیں میں اب بھی لکھتا ہوں لیکن کسی کے لیے نہیں اپنے لیے اور وہ سب کچھ میری ڈائریں میں ہے
خرم شہزاد خرم
لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر کیوں لکھے ؟
میرے علاوہ بھی بہت سے دوست ایسے ہونگے جو لکھنا چاہتے ہونگے جو بہت اچھا لکھ سکتے ہیں جن کو لکھنے کا شوق بھی ہے لیکن وہ نہیں لکھتے اس کی میرے نزدیک کچھ وجوہات ہیں جو میں یہاں بیان کروں گا۔
میں نے اپنے ایک دوست سے اس بارے میں بات کی کہ بھائی آپ اتنا اچھا لکھتے تھے اب آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے تو جواب ملا جناب لکھنے کے لیے تو میرے پاس بہت کچھ ہیں لیکن کیوں لکھے؟ کس کے لیے لکھے ؟ کیا یہاں کوئی پڑھنے والا ہے کوئی ایک ایسا ہو جو پڑھنے کے لیے تیار ہو ۔ آپ خود اندازہ کریں ہر طرف لکھنے والے موجود ہیں لیکن پڑھنے والے کم ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پڑھنے والے کیوں کم ہے اور لکھنے والے کیوں زیادہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے اب تحریروں کا میعار نہیں دیکھا جاتا بلکے تحریر کار کو دیکھا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں دیکھ لے کتابیں بہت سی ہیں۔ ایک لکھاری نے 5،5 کتابیں لکھیں ہوئی ہیں لیکن اس لکھاری کا نام بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا وہ اپنے حلقے میں جانا جاتا ہے بہت کم لکھاری ایسے ہیں جو اچھا لکھتے ہیں جن کی تحریروں کا لوگ انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریریں بہت مشکل کے بعد مارکیٹ میں کتابی شکل میں آتی ہیں۔ اس وقت اخبارات ، میگزیں ، رسالے ، ٹی وی ، ریڈیو، وغیرہ جہاں جہاں بھی دیکھا جائیں صرف اور صرف وہی لوگ نظر آتے ہیں جو ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ یہاں تو کام کے بدلے کام لیا جاتا ہے۔ میعار نہیں دیکھا جاتا ۔
بھائی ایسی بات نہیں میں اب بھی لکھتا ہوں لیکن کسی کے لیے نہیں اپنے لیے اور وہ سب کچھ میری ڈائریں میں ہے
خرم شہزاد خرم