لکیریں برائے اصلاح

افاعیل ---مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
------------------------
اشعار نہیں میرے زخموں کی لکیریں ہیں
الفاظ نہیں میرے صدموں کی لکیریں ہیں

ہم کیسے بُھلا دیں اپنے دل سے تمہارا غم
دل پر تو ابھی تک بھی یادوں کی لکیریں ہیں

تیری بے وفائی کو دل مانے نہ اب تک بھی
کہتا ہے کبھی دل یہ وہموں کی لکیریں ہین

کھائی تھیں کبھی تم نے جو پیار نبھانے کی
دل پر تو ابھی تک اُن قسموں کی لکیریں ہیں

دنیا کی یہ رسمیں تو دیتی ہیں جدائی ہی
دل پر تو ابھی تک ان رسموں کی لکیریں ہیں

چاہت میں ہی تیری ہم نے گائے تھے جو نغمے
دل پر تو ابھی تک اُن نغموں کی لکیریں ہیں

ہے چُور ابھی ارشد زخموں سے جو دئے تم نے
دل پر تو ابھی تک اُن زخموں کی لکیریں ہیں
 

الف عین

لائبریرین
لکیریں ردیف ہی ہر جگہ فٹ نہیں ہو رہی۔ دوسری بات، دو حصوں میں منقسم بحر کا خیال نہیں رکھا گیا۔
اشعار نہیں میرے زخموں کی لکیریں ہیں
الفاظ نہیں میرے صدموں کی لکیریں ہیں
۔۔۔ ردیف؟ زخم یا صدمے کیسی لکیریں بناتے ہیں؟

ہم کیسے بُھلا دیں اپنے دل سے تمہارا غم
دل پر تو ابھی تک بھی یادوں کی لکیریں ہیں
۔۔۔اپ ۔ نے کا ٹوتنا۔ 'بھی' بھرتی کا۔

تیری بے وفائی کو دل مانے نہ اب تک بھی
کہتا ہے کبھی دل یہ وہموں کی لکیریں ہین
۔۔۔ 'بے' کی ے گرائی نہیں جا سکتی۔

کھائی تھیں کبھی تم نے جو پیار نبھانے کی
دل پر تو ابھی تک اُن قسموں کی لکیریں ہیں
۔۔لکیریں کھائی بھی جاتی ہیں؟ درست بیانیہ یوں ہونا تھا کہ جو جھوٹی قسمیں تم نے کھائی تھیں، ان قسموں کے لکیر نما زخم پڑ گئے ہیں!

دنیا کی یہ رسمیں تو دیتی ہیں جدائی ہی
دل پر تو ابھی تک ان رسموں کی لکیریں ہیں

چاہت میں ہی تیری ہم نے گائے تھے جو نغمے
دل پر تو ابھی تک اُن نغموں کی لکیریں ہیں
۔۔دونوں بالا اشعار میں ردیف نہیں جم رہی۔ زخم تو ممکن ہے مگر لکیریں!

ہے چُور ابھی ارشد زخموں سے جو دئے تم نے
دل پر تو ابھی تک اُن زخموں کی لکیریں ہیں
ٹھیک
 
Top