لکی مروت: ہلاکتیں نوّے سے زیادہ، اجتماعی نماز جنازہ
پاکستان کے صوبہ سرحد کے شہر لکی مروت میں ایک خودکش کار بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ترانوے ہوگئی ہے جبکہ سینتیس لوگ زخمی ہیں۔
سنیچر کو پچھتر افراد کی اجتماعی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ لوگ ملبے میں مزید لوگوں کو تلاش کرتے رہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک شدگان میں سکیورٹی اہلکار اور بچے بھی شامل ہیں۔
لکی مروت پولیس سربراہ ایوب خان نے سنیچر کی صبح بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دھماکے سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے کے لیے کیا جانے والا ریسکیو آپریشن رات گئے ختم کر دیا گیا۔
ان کے بقول اگرچہ امدادی کام تقریباً مکمل ہوگیا ہے تاہم پھر بھی تسلی کے لے تباہ شدہ عمارتوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ ان کے مطابق ریسکیو آپریشن کے دوران ملبے سے مزید لاشیں بھی نکالی گئی ہیں جبکہ بعض شدید زخمیوں نے ہسپتال میں دم توڑ دیا جس کے ساتھ ہی اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اٹھاسی ہوگئی ہے جبکہ سینتیس لوگ زخمی ہیں۔
پولیس سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ہلاک شدگان میں دو پولیس، سات ایف سی اہلکار، چھ بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول انتظامیہ اور مقامی لوگ اب ہلاک شدگان کی تدفین کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر افراد مقامی امن کمیٹی کے رضا کار تھے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل امن کمیٹی کے رضا کاروں نے طالبان کو اس علاقے سے بے دخل کیا تھا۔
جائے وقوعہ پر موجود شاہ حسن خیل امن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری رحم دل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر تباہ شدہ عمارتوں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اگر اب بھی ملبے تلے کوئی شخص دبا ہو اس سے نکالا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لکی مروت کا شاہ حسن خیل کا علاقہ تقریباً پانچ سو مکانات پر مشتمل ہے۔
یہ حملہ فتح خیل محلہ میں پیش آیا ہے ہوا جہاں پر سو سے زائد مکانات ہیں اور دھماکے میں تقریباً تیس مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
خیال رہے کہ حملہ جمعہ کی شام شاہ حسن خیل کے علاقے میں واقع والی بال گراؤنڈ میں ایک گاڑی میں سوار خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ دھماکے کے وقت میدان میں دو سو کے قریب افراد موجود تھے۔