غزل
لگتا ہے مل گیا مجھے مقصد حیات کا
اٹھتا ہے دل میں شوق جو اس کی ہی بات کا
رہنے لگا ہوں محو بس اس کے خیال میں
اب مجھ کو علم ہے کوئی دن کا نہ رات کا
نکلا ہوں سر پہ باندھے کفن اس کی چاہ میں
نے جیت کی طلب ہے نہ دھڑکا ہے مات کا
میرا بھی کارساز وہی ہے کہ جو ہے رب
اس خلقتِ عظیم کا اس کائنات کا
غم ہے تو بس ہے یہ کہ نہ چھوٹے اب اس کا ہاتھ
ہے جشن کوئی دل میں تو اس کے ہی ساتھ کا
دیکھیں اب اس کی چاہ میں خوشیاں ہیں کون سی
دیکھا ہے جس کی راہ میں غم ذات ذات کا
برداشت اس قدر مگر آئی کہاں سے ہے
اے دل بنا ہے کون سی ایسی تُو دھات کا؟
جب ہے رضا ہی دوست کی اپنا ہدف عظیم
تعمیر کیوں کریں گے محل خواہشات کا
****