لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے
شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے

شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں
شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے

پتوار بنا کرمجھے طوفانِ حوادث
قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے

ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا
گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے

یہ وقت مجھے موتی بنائے گا کہ مٹی؟!
اک آبِ رواں ہے کہ مجھے رول رہا ہے

کھُلتے نہیں کردار کہ ہیرو یا ولن ہیں
اپنی تو کہانی میں یہی جھول رہا ہے

ظہیر احمد ظہیر - ٢٠٠٥
ٹیگ: محمد تابش صدیقی فاتح سید عاطف علی کاشف اختر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ ایک اور خوبصورت غزل۔۔۔
یہ شعر تو کمال ہی ہے۔

بہت خوب ظہیر بھائی

واہ واہ بہت خوبصورت ۔



بہت نوازش!! اس ذرہ نوازی اور حوصلہ افزائی کے لئے بہت ممنون ہوں ۔ خدا آپ تمام احباب کو سلامت رکھے۔
 
Top