امیر مینائی لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں

مرا خط پھینک کر قاصد کے مُنہ پر طنز سے بولے
خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں

ابھی اے جاں تونے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا دیں گے کہ دیکھ اس طرح مرتے ہیں

قیامت دور، تنہائی کا عالم، روح پر صدمہ
ہمارے دن لحد میں دیکھیئے کیوں کر گزرتے ہیں

جو رکھ دیتی ہے شانہ آئینہ تنگ آکے مشاطہ
ادائیں بول اُٹھتی ہیں کہ دیکھو یوں سنورتے ہیں

چمن کی سیر ہی چھوٹی تو پھر جینے سے کیا حاصل؟
گلا کاٹیں مرا صیاد ناحق پر کترتے ہیں

قیام اس بحرِ طوفاں خیز دنیا میں کہاں ہمدم؟
حباب آ سا ٹھہرتے ہیں‌تو کوئی دم ٹھہرتے ہیں

ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم اُنکی نہیں جاتی
نگہ نیچی کیئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں

بڑے ہی قدرداں کانٹے ہیں صحرائے مُحبت کے
کہیں گاہک گریباں کے، کہیں دامن کے بیٹھے ہیں

وہ آمادہ سنورنے پر، ہم آمادہ ہیں مرنے پر
اُدھر وہ بن کے بیٹھے ہیں، اِدھر ہم تن کے بیٹھے ہیں

امیر ، اچھی غزل ہے داغ کی، جسکا یہ مصرع ہے،
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ دو غزلیں ہیں؟

مجھے تو دو لگ رہی ہیں، ایک جس کا قافیہ کرتے، مرتے ہیں وغیرہ اور دوسری جسکے قافیے مدفن، دامن، تن وغیرہ اور ردیف "بیٹھے ہیں" ہے۔
 

کاشفی

محفلین
کیا یہ دو غزلیں ہیں؟

مجھے تو دو لگ رہی ہیں، ایک جس کا قافیہ کرتے، مرتے ہیں وغیرہ اور دوسری جسکے قافیے مدفن، دامن، تن وغیرہ اور ردیف "بیٹھے ہیں" ہے۔

میرے پاس ایک ہی ہے۔۔ لیکن آپ سب زیادہ بہتر جانتے ہیں۔رہنمائی فرمائیں۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
کیا یہ دو غزلیں ہیں؟

مجھے تو دو لگ رہی ہیں، ایک جس کا قافیہ کرتے، مرتے ہیں وغیرہ اور دوسری جسکے قافیے مدفن، دامن، تن وغیرہ اور ردیف "بیٹھے ہیں" ہے۔
حضور آپ کا خیال درست تھا کہ یہ ایک غزل نہیں۔ آج امیر مینائی کے دیوان کی ورق گردانی کرتے ہوئے کھلا کہ فی الحقیقت یہ دو نہیں بلکہ "تین" غزلیات سے اشعار کا انتخاب ہے۔
پہلی غزل (20 اشعار):
پھڑک کر مرغِ بسمل کی طرح عاشق جو مرتے ہیں
یہ مقتل میں عروسِ تیغ کے صدقے اترتے ہیں

دوسری غزل (26 اشعار):
دبا پایا جو ہے ہم کو تو یہ بھی ظلم کرتے ہیں
ہماری قبر کے تختے بھی اب ہم سے سنورتے* ہیں
(درست طور پر پڑھ نہ پایا کہ یہاں فی الحقیقت کیا لفظ ہے۔)

تیسری غزل (22 اشعار):
وہ دل کی تاک میں جب شوق سے بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
تو سو غمزوں سے دل پر تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں

اشعار کی تعداد اس لیے واضح کر دی تا آپ یہ سمجھ سکیں کہ ہم نے ان غزلیات کو ٹائپ کر کے ارسال کیوں نہ کی۔ 68 اشعار ٹائپ کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔
ہاں رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے ہر غزل علاحدہ دھاگے میں ارسال کرنے کی کوشش کروں گا۔

کاشفی صاحب! ایک مصرع درست کر لیجیے کہ
مِرا خط پھینک کر قاتل کے مُنہ پر طنز سے بولے
یہاں "قاتل" کی بجائے "قاصد" ہے۔
 
Top