لیجئے ہم دوبارا ایک غزل کا ٹوکرا لیے حاضر ہیں.

غزل
گل تنہا کھڑا کیا کر رہا ہے
خزاؤں سے وفا کیا کر رہا ہے
ہمیں آنکھوں کی کھڑکی سے نہ دیکھو
یہ دل کا در کھلا کیا کر رہا ہے
مجھے ہوتا ہے اکثر یہ تعجب
مرے دل میں خدا کیا کر رہا ہے
یہ خوہش ہے کہ ہو دیدار ان کا
وسط میں آئینہ کیا کر رہا ہے
بت صدمے لگے مجھکو نہ جانے
پس منظر خدا کیا کر رہا ہے
ارے ظالم بنام عشق بازی
مرے دل سے وہ کیا کیا کر رہا ہے
ذرا دیکھو تو در پر میکدے کے
یہ مولانا وہاں کیا کر رہا ہے
سر مہدی بچا ہر بار لیکن
یہ خون دل یہاں کیا کر رہا ہے
 
جملہ اساتذہ اور رفقاء سے گزارش ہے کہ اس غزل کے بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہماری اصلاح میں قدم فرسائی کیجئے
 

شمشاد

لائبریرین
اب جو بھی کریں گے اساتذہ کریں گے
کہ مہدی نقوی یہاں کیا کر رہا ہے

انتظار فرمائیں، اساتذہ کرام میں سے کئی ایک آتے ہی ہوں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
جملہ اساتذہ اور رفقاء سے گزارش ہے کہ اس غزل کے بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہماری اصلاح میں قدم فرسائی کیجئے
میں تو آ گیا ہوں، اساتذہ نہ سہی۔ پہلی بات تو یہ کہ جب کلام اصلاح سخن میں پوسٹ کیا جائے تب ہی اصلاح کی نظر سے دیکھتا ہوں، ورنہ سرسری گزر جاتا ہوں، اگر اتفاق سے کسی غلطی پر نظر پڑ گئی تو دیکھ لیتا ہوں۔
بہر حال اس غزل میں آخری دو اشعار کے قوافی غلط ہیں۔ یہاں ، کہاں نون غنہ پر ختم ہوتا ہے، الف پر نہیں۔ ردیف الف کے اختتامی لفظ کی متقاضی ہے۔
دوسرے ۔
وسط میں آئینہ کیا کر رہا ہے
بحر سے خارج ہے جس کی وجہ مجھے تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ شاید تم وسط کا تلفظ وَسَط کرتے ہو۔ درست تلفظ میں سین اور طا دونوں ساکت ہیں۔ بروزن فعل یا فاع، درد، ہجر وغیرہ
 

الف عین

لائبریرین
غزل کی تعریف کرنا تو بھول ہی گیا، خیالات واقعی اچھے ہیں۔ مجموعی طور سے عمدہ غزل ہے
 
Top