محسن وقار علی
محفلین
لیڈی ولنگڈن — تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز –.
راولپنڈی کا وہ وزیرِ اعظم ہاؤس تو اب ماضی ہوا جو طرزِ تعمیر میں سادہ اور قدامت کا رنگ لیے تھا مگر دس پندرہ برس پرانا لیکن پھر بھی نیا نکور، اسلام آباد کا مغلئی چوبرجیوں والا محل نما وزیرِ اعظم ہاؤس پُر رونق ہے، جس کے مکین یہاں پہنچ کر اکثر بھول جاتے ہیں کہ عوام ان کی رعایا نہیں بلکہ اس عالیشان محل میں پہنچانے والے ‘مالک’ ہیں۔
پرانا وزیرِ اعظم ہاؤس تو اتنا سادہ تھا کہ اس کے برابر سوفٹ ڈرنک کی ایک بہت بڑی فیکٹری لگی ہوئی تھی۔ عام چوڑائی کی سڑک کے ایک طرف وزیرِ اعظم ہاؤس میں وزرا اور افسر شاہی کے داخلے کا گیٹ تھا تو سڑک پار چھوٹے سے ٹیلے پر ایک پرائمری اسکول تو اس کے سامنے چائے کا ایک ٹھیا بھی تھا۔
کئی بار اُس وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکل کر اِس ٹھیے پر جا کر چائے پی۔ دہکتے انگاروں پر بنی وہ چائے بڑی پُرلطف ہوتی تھی۔ آج بھی اس کا ذائقہ لبوں پر محسوس ہوتا ہے۔
بڑا سادہ سا وزیرِ اعظم ہاؤس تھا وہ، شاید اس لیے غالباً اپنے آخری مکین محمد خان جونیجو کے دور تک، اس گھر پر بدعنوانی کی انگلی شاذ و نادر ہی اٹھی ہوں مگر یہ نیا وزیرِ اعظم ہاؤس، جتنا وسیع، عالی شان، پُرشکوہ اور باہر سے پُر جلال ہے، اس کے مکین اتنے ہی شاہانہ انداز کے مالک اور شہرت یہ کہ بدعنوانی کی انگلیاں اس گھر پر دن میں کئی بار اٹھتی ہیں۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ شاہوں کے تاج اکثر سپہ سالاروں نے اُن کے محلوں میں ہی اتارے اور پھر کئی بے تاج بادشاہوں نے لڑ لڑا کر اسے دوبارہ حاصل بھی کیا مگر سبق۔۔۔۔؟ تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اس سے کوئی حاکم سبق نہیں سیکھتا۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ شاہی محل سے شاید ہی کم، اس وزیراعظم ہاؤس سے نواز شریف اپنے سپہ سالار کو برطرف کرنے کے جرم میں اپنی ہی سپاہ کے ہاتھوں معتوب ہوئے اور اب ایک بار پھر غریب عوام کے ووٹوں سے مغلئی محل نما میں جلوہ گر ہونے جارہے ہیں۔
یہ نیا وزیرِ اعظم ہاؤس بھی عجیب عمارت ہے۔ جہاں آپ لفٹ میں سوار ہوئے اور زیرو دبایا تو سیدھے تہ خانے کی نچلی منزل پر اور جسے گراؤنڈ فلور سمجھ کر داخل ہو اور دوسری منزل پر جانے کے لیے لفٹ کا بٹن دبایا تو مجال کہ وہ ٹس سے مس ہوجائے۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کا گراؤنڈ فلور زمین کے اندر اور جسے گراؤنڈ فلور سمجھو وہ دوسری منزل ہے۔
شاید یہی وہ بھول بھلیاں ہیں کہ جن میں گھومتے گھماتے حکمرانوں کے دماغ اکثر چکرا جاتے ہیں۔ سچ ہے کہ عمارتیں بھی حکمرانوں کا دماغ خراب کرنے میں کچھ کم کردار ادا نہیں کرتیں۔
برصغیر میں ریڈیو نشریات کے بانیوں میں شامل اور غالبا تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی اس کے بانی سید ذوالفقارعلی بخاری تھے۔ اپنی حیات کے پُرلطف قصوں پر مشتمل ‘سرگزشت’ میں تقسیمِ ہند سے پہلے اور گورا راج کے آخری چند برسوں کے پس منظر میں ایک دلچسپ قصہ بیان کرتے ہیں:
“لارڈ ولنگڈن کو اُس وقت ریٹائر ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ جب وائسرائے ہندوستان تھے تو میرے حال پر بڑی توجہ کیا کرتے تھے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اُن سے بھی جا کرملاقات کروں۔
وکٹوریہ اسٹیشن (لندن) کے پاس لیگن پیلس، اُمرا کا ایک محلّہ ہے، اس میں رہتے تھے۔ میں ان کے مکان کے دروازے پر گیا گھنٹی بجائی۔ ایک ملازم آیا اور کہا کہ اوپر لارڈ ولنگڈن تمہارا انتظار کررہے ہیں۔
چھوٹا سا مکان تھا۔ اوپر گیا تو دو تین دروازے نظر آئے۔ کچھ پتا نہ چلا کہ کس دروازے پر دستک دوں۔ خیر ایک دروازے پر دستک دی اور اندر چلا گیا۔
ایک عورت اپرن باندھے ہوئے جھاڑ پوچھ کرر رہی تھی۔ غور سے دیکھا تو لیڈی ولنگڈن۔
وائسریکل لاج میں رہنے والی لیڈی ولنگڈن۔۔۔ کروڑوں انسانوں پر حکومت کرنےوالی لیڈی ولنگڈن۔۔۔ سیکڑوں (ہندوستانی) ملازم رکھنے والی لیڈی ولنگڈن!
مجھے دیکھا تو بہت تپاک سے ملیں اور کہا کہ میرے میاں ساتھ کے کمرے میں ہیں۔ تم ان کے پاس جاؤ میں جھاڑ پونچھ کر کے ابھی آتی ہوں اور پھر کہا ارے ہاں، میرا باغ تو دیکھتے جاؤ۔
یہ کہہ کر وہ مجھے کھڑکی کے پاس لے گئیں۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو تیس پینتیس فٹ کا ایک قطع زمین جس پر گھاس اُگی ہوئی تھی اور اس کے کنارے کنارے پھولوں کی چند کیاریاں تھیں۔
مجھے وائسریکل لاج کا وسیع باغ اور گلاب کے پھولوں کا وہ عریض تختہ یاد آیا، جسے لیڈی صاحبہ مغل گارڈن کہا کرتی تھیں اور بعد میں اس کا یہی نام پڑ گیا تھا۔
بہت چھوٹی سی بات مگر سمجھو تو بہت بڑی ہے، شاید ہمارے جیسے غریب ملکوں کے شاہانہ مزاج حکمرانوں کے لیے اس میں بہت بڑا سبق بھی ہے لیکن تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ حکمران سبق لیتے نہیں، عوام کو سبق دیتے ہیں۔
تحریر: مختار آزاد
بہ شکریہ ڈان اردو