کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

تفسیر

محفلین
<table cellspacing="0" cellpadding="4" border="1" width="98%"><tr> <td colspan="2">
لیکچر نمبر 3
</td> </tr> <tr><td>

پچھلا لیکچر
کاخلاصہ
</td> <td> شاعری میں حرف یا تو متحرک ہوتا ہے یا ساکن ۔
حرکتیں تین طرح کی ہوتی ہیں زیر - زبر - پیش لیکن تینوں وزن میں برابر ہیں
دوحرفی لفظ سبب کہلاتا ہے - تین حرفی وتد ۔
سبب دو ہوتے ہیں سبب خفیف اور ثقیل ۔ وتد بھی دو ہیں وتد مجموع اور مفروق۔
سبب خفیف کے اجزاء متحرک اور ساکن ہیں۔ سبب ثقیل کے دو متحرک ۔
وتد مجموع دو متحرک اور سا کن اور مفروق کے متحرک ساکن متحرک ہیں۔
فَعلَ ( فَ - ع - لَ ) ایک بے معنی لفظ ہے جو پیمانہ (اسٹنڈرڈ ) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
مختلف اوزان قائم کرنے کیلئے ( ف - ع - ل ) کو بطور اصل وزن کےاختیار کیا گیا ہے
حروف ( ف - ع - ل ) سےآٹھ مختلف بےمعنی الفاظ کو ارکان کا نام دیاگیا ہے-
وہ ارکان مفاعلین، مستفعلن ، فاعلا تن مفاعلتن ، متفاعلن ، مفعولات ، فعولن اور فاعلن ہیں۔
</td> </tr> <tr> <td width="16%">
لیکچر
</td> <td>

آج کا لیکچر​

تقطیع ، مراعات، اصول تقطیع، ساکن و متحرک اوزان میں​

<table cellspacing="0" cellpadding="4" border="1" width="98%"> <tr><td>
تقطیع
لفظ “ تقطیع “ کے معنی قطع یا پارہ پارہ کرنے کے ہیں ۔اصطلاحِ عروض میں شعر کے وزن معلوم کرنے کو کہتےہیں چونکہ وزن معلوم کرنے کے لئے شعر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پڑتے ہیں - لہٰذا وزن کرنے کو تقطیع کہا گیا ہے۔

تقطیع کرنے کے لیے ؛

(1) الفاظ کے اصولوں ( syllables ) کی ترتیب معلوم کرنا۔
(2) اصولوں ( syllables ) کی مطابق اور موافق ارکان معلوم کرنا۔
(3) ہر رکن کا مقابلہ میں اس کے جواب کے اصول رکھنے والا لفظ یا الفاظ درج کرنا۔

مراعات ؛ شاعری میں شعرائے کرام کو یہ راعات حاصل ہیں ۔
1 - زیر ، زبر ، پیش ، الف ، واؤ اور یا ے کو مختصر یا طویل دونوں صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
2 - تو ، چو ، دو ، کہ ، سہ بالعموم ، مختصر طور پراستعمال ہوتے ہیں۔ گویا واؤ کو صرف حرکت کی صورت میں پڑھا جاتا ہے- ھائے مختفی کو اعلانیہ استعمال نہیں کیا جاتا - گویا یہ کلمات صرف ایک متحرک کی صورت میں آتے ہیں ۔
3 - بعض اوقات ضرورت شعری کے پیش نظر خاص خاص ساکن حروف کو متحرک اور متحرک کو ساکن کردیا جاتا ہے۔
4 - تقطیع کے دوران میں نون گنہ کو نہ ہونے کے برابر شمار کیا جاتا ہے - گویا جاں اور دل کا وزن ایک ہی ہے۔
5 - دو مختصر اصولوں کو ایک ہی طویل اصول میں بدل دیاجاتا ہے۔ مثلا “ بہ گذری “ کو“ بگ + ذری “ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔
6 - دوست ، پوست وغیرہ الفاظ میں “ت“ کو حذف کردیا جاتا ہے۔ گویا ان الفاظ کا وزن وہی ہوگا جو علم اور عقل ( متحرک - متحرک ساکن ) وغیرہ الفاظ کا ہے۔
<tr><tr><td>
اصول تقطیع​

1 - جو الفاظ لکھے جائیں لیکن بولنے اور پڑھنے میں نہ آئیں تقطیع میں ان کا شمار نہیں ہوتا ۔
2 - جو الفاظ لولنے اور پڑھنے میں آئیں اور لکھنے میں بھی آئیں تقطیع میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
3 - جو الفاظ بولنےاور پڑھنے میں آئیں اور لکھنے میں بھی نہ آئیں تقطیع میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
4 - تقطیع میں “ الف “ ، “ نون “ ، “ واو “ ، “ ھے“ ، اور “ ے “ گراتے ہیں ۔ لام جو“ ی “ اور “ الف “ کے بعد آتا ہے ۔ مگر بولنے میں نہیں آتا بھی گرایا جاتا ہے - مثال بلآخر ، بل آخر بن جاتا ہے ۔ اِن چھ حروف کو یاد رکھنے کے لیے لفظ “ ہولینا “ کو یاد رکھے۔
5 - “ و “ جو “ خ “ کے بعد آتی ہے مثال کےطور پر خود ، خواب ، خوش، خویش، خواجہ وغیرہ تلفظ میں نہ آے، اس کا شمار نہیں ہوتا ۔ تقطیع میں خد، خاب، خش، خیش، خاجہ شمار ہوتے ہیں۔
دو الفاظ کو ملانے والی “ و “ کبھی حرف اور کبھی حرکت [/color] تصور کی جاتی ہے۔ اسکا گرانا جائز ہے ۔ مثال دل و جاں ، غم ودرد ۔
6 - “ ہ “ جو “ چہ “ ، “ کہ “ ، “ نہ “ کے آخر میں ہے گرا دیتےہیں صرف “ چ “ ، “ ک “ ، “ ن “ وزن میں آتے ہیں۔ البتہ دیوانہ ، پروانہ بچہ میں دونوں صورتیں جائز ہیں یعنی “ ہ “ کا گرانا بھی جائز ہے اور کبھی اسکا اعلان بھی جائز ہے ۔
7 - اگر “ نون غنہ “ لفظ کے آخر میں ہو تو ہمیشہ شمار میں نہیں آتا۔ لفظ کے درمیان
الف ؛ اگر “ نون غنہ “ سے پہلے color=#0000FF] الف، و ، ے ہے[/color] ۔“ نون غنہ “ وزن میں شمار نہیں ہوتا۔
ب ؛ اگر “ نون غنہ “ سے پہلے اصلی حرف ہے تو اس کا شمار اصلی حرف کی طرح ہوگا۔ مثال کھانس ، بھینس، بھونڈا میں نون غنہ کا شمار نہیں ہوگا۔ مکاں ، کنواء، جاں، زمیں کع مکا ، کوا، جا، زمی پڑھا جائے گا۔ لیکن سنگ ، بنگ ، رنگ میں نون غنہ باقاعدہ ایک حرف ہے اور شمار میں آے گا۔
8 - “ الہ اور لہ اور بہ “ اگرچہ لکھے نہیں جاتے مگر تلفظ میں ادا ہوتے ہیں۔ اس لیے شمار ہونگے۔
9 - دو الفاظ کو ملانے والا “ زیر “ “ ے “ طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ یہ زیر کھینچ کے پڑھا جاتا ہے - اگریہ زیر کو کھینچ کے نہ پڑھا جائے تو نہیں شمار ہوتا ۔
10 - “ آ “ جب شروع کلمہ میں واقع ہو تو دو حروف شمار ہوتا ہے ۔
11- حروف مشدد بھی دو حروف گنا جاتا ہے۔
</td></tr><tr><td>
ساکن و متحرک حرف اوزان میں​


1 - اگر وہ لفظ جن کے آخر میں دو ساکن ہوں جیسے خوب، غیر ، ٹھیک ، خاص ، گرم، صبر وغیرہ بحر کےدرمیان ہوں تو آحری ساکن متحرک ہو جاتا ہے۔
مثال ؛ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
“ ورنہم بھی “ ( فاعلاتن ) “ آدمی تھے “ ( فاعلاتن ) “ کامکے “ ( فاعلن )
2 - ایسے الفاظ جن کے آخر میں تین تین ساکن آتے ہیں۔ کاشت ، دوست، زیست وغیرہ ۔ آخری ساکن کو آنے والے لفظ “ س“ ملا کرگرا دیتے ہیں
مثال ؛ دوست غم خواری میں میری سعی فرمایں گے کیا
دوست کا “ واو ، س اور ت “ ساکن ہیں لہذا “ ت “ کوگرا کر “ س“ کو متحرک کیاگیا تو “ دوسغمخا “ ( فاعلاتن ) ہوا

</td></tr></table></td></tr> <tr> <td> لیکچر کاخلاصہ</td> <td> لفظ “ تقطیع “ کے معنی قطع یا پارہ پارہ کرنے کے ہیں ۔اصطلاحِ عروض میں شعر کے وزن معلوم کرنے کو کہتےہیں چونکہ وزن معلوم کرنے کے لئے شعر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پڑتے ہیں - لہٰذا وزن کرنے کو تقطیع کہا گیا ہے۔
شاعری میں شعرائے کرام کو ایسا کرنے میں کچھ مراعات حاصل ہیں ۔ وہ زیر ، زبر ، پیش ، الف ، واؤ اور یا ے کو مختصر یا طویل استعمال کر سکتے ہیں ۔ - تو ، چو ، دو ، کہ ، سہ بالعموم ، مختصر طور پراستعمال کرتے ہیں۔ واؤ ہ کو صرف حرکت کی صورت میں پڑھ سکتے ہیں - بعض اوقات ضرورت شعری کے پیش نظر خاص خاص ساکن حروف کو متحرک اور متحرک کو ساکن کرسکتے ہیں۔ نون گنہ اور ھ کو تقطیع سے نکالدیتے ہیں ۔ دو مختصر اصولوں کو ایک ہی طویل اصول میں بدل سکتے ہیں - ت کو لفظ کے آخر سے گرا سکتے ہیں -
تقطیع کے لیےالفاظ کے اصولوں ( syllables) کی ترتیب کا معلوم کرنا۔اصولوں کی مطابق اور موافق ارکان کا معلوم کرنا۔ ہر رکن کا مقابلہ میں اس کے جواب کے اصول رکھنے والا لفظ یا الفاظ درج کرنا پڑتا ہے۔
</td></tr> <tr> <td>
Further Readings
</td><td> سبق نمبر 7 - عروضی اصول (علمِ عروض - سید تفسیراحمد) </td></tr><tr><td>علمِ عروض اور علمِ موسیقی </td><td>شعر علمِ عروض کے بغیر موزوں نہیں ہوسکتا۔ اور علم موسیقی بھی کلام موزوں کا نام ہے - علم موسیقی کے سب سے بڑے ماہر حکیم ابونصر فارابی نے جو رسائل اِس فن میں لکھے ہیں۔ بغیرعلم ہئیت، علم ہندسہ ، علم نجوم اورعلم ریاضی کی دسترس کے اُن کا سمجھنا محال ہے۔ موسیقی سریانی زبان میں راگ کے علم کو کہتے ہیں۔ امام فخرالدین رازی کے نزدیک یہ علم حضرت سلیمان علیہ السلام کے شاگرد حکیم فیثا غورث کی جدتِ طبع کا نتیجہ ہے۔ بعض حضرت داؤد علیہ السلام کو اس کا موجد بتاتے ہیں ۔ اور بعض کا خیال ہے کہ حکماء نے موسیقار نامی ایک پرندے کی آواز سے اس کا استخراج کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس پرندے کی چونچ کے مختلف سوراخوں سے مختلف آوازیں نکلتی ہیں ۔ علم موسیقی کے بارہ مقام ہیں جن کو بارہ “ برجوں “ پر قائم کیا گیا ہے۔</td></tr><tr><td> اگلا لیکچر</td><td> بحریں
مُتقارب - مُتدارِک - ہزَج - رَجَز - رَمَل - وَافر - کامِل - مُقتَضب جدید
</td></tr>
<td colspan="2">
2006©All Copyrights are reserved by Aurthor​
</td></table>​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top