کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں
کرڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں
اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک
پھرتے ہیں ترے غم کے پریشان ہزاروں
اے جانِ بہاراں تجھے معلوم نہیں ہے
تیرے لئے پُرزے ہیں گریبان ہزاروں
اعجازِ محبت تو کوئی دیکھ لے آکر
ہیں میرے دلِ تنگ میں ارمان ہزاروں
کیا بات ہے اے چشمِ حسیں تیری جہاں میں
اک تیرِ نظر سے ہوئے بےجان ہزاروں
غنچے بھی ہیں اس دہر میں کانٹے بھی ہیں گل بھی
ہاں دل کے بہلنے کو ہیں سامان ہزاروں
اب تو کسی طوفاں کا مجھے خوف نہیں ہے
آئے ہیں مری زیست میں طوفان ہزاروں
پھر اس سے ہی کرتا ہوں میں پیمانِ محبت
جس نے کہ شکستہ کئے پیمان ہزاروں
اس کی نگہ ناز کا ادنیٰ سا کرم ہے
بہزاد مرے دل میں ہیں ارمان ہزاروں
(بہزاد لکھنوی)
لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں
کرڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں
اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک
پھرتے ہیں ترے غم کے پریشان ہزاروں
اے جانِ بہاراں تجھے معلوم نہیں ہے
تیرے لئے پُرزے ہیں گریبان ہزاروں
اعجازِ محبت تو کوئی دیکھ لے آکر
ہیں میرے دلِ تنگ میں ارمان ہزاروں
کیا بات ہے اے چشمِ حسیں تیری جہاں میں
اک تیرِ نظر سے ہوئے بےجان ہزاروں
غنچے بھی ہیں اس دہر میں کانٹے بھی ہیں گل بھی
ہاں دل کے بہلنے کو ہیں سامان ہزاروں
اب تو کسی طوفاں کا مجھے خوف نہیں ہے
آئے ہیں مری زیست میں طوفان ہزاروں
پھر اس سے ہی کرتا ہوں میں پیمانِ محبت
جس نے کہ شکستہ کئے پیمان ہزاروں
اس کی نگہ ناز کا ادنیٰ سا کرم ہے
بہزاد مرے دل میں ہیں ارمان ہزاروں