لے کے چشمِ تر کہاں اب جائے گا؟ غزل نمبر 111 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
لے کے چشمِ تر کہاں اب جائے گا؟
رب کو سجدہ کر کہاں اب جائے گا؟

عُمرِ آخر ہے خُدا کا نام لے
چھوڑ مت یہ در کہاں اب جائے گا؟

ماسِوا اللہ کے ہے جُھوٹ سب
خاک کے پیکر کہاں اب جائے گا؟

دولتِ ایمان لے کر ساتھ جاؤں
موت تک یہ ڈر کہاں اب جائے گا؟

جیتے جی ہی مان لیتا رب کو تُو
نا سمجھ کافر کہاں اب جائے گا؟

موت آکر لے گئی تو یہ بتا
تیرا مال و زر کہاں اب جائے گا؟

پُھونک ڈالا بِجلیوں نے آشیاں
بُلبلِ بے پر کہاں اب جائے گا؟

تیغِ شاہی ہے خفا جس شخص سے
وہ بچا کر سر کہاں اب جائے گا؟

وقتِ رُخصت ہائے وہ رونا ترا
دِل سے یہ منظر کہاں اب جائے گا؟

رِند کی منزل ہے مے خانہ فقظ
ماسِوا ساغر کہاں اب جائے گا؟

آنے دو خورشید کو بھی دیکھ لیں
چاند رُک تُو گھر کہاں اب جائے گا؟

تُو سنائے گا کِسے شارؔق غزل
سوگیا شہر کہاں اب جائے گا؟
 

الف عین

لائبریرین
آخری تینوں اشعار درست نہیں، باقی غزل ٹھیک ہے۔
ساغر کوئی جانے کی جگہ نہیں
چاند رک.. والا مصرع اچھا ہے، دوسری گرہ لگا کردیکھو
شہر تو وزن میں نہیں آتا
 

امین شارق

محفلین
سر الف عیںن آخری تین اشعار میں تبدیلیاں کی ہے

دل سے تیری یاد،آنکھوں سے شبیہ
ہاتھ سے ساغر کہاں اب جائے گا

منتظر ہوں میں ابھی محبوب کا
چاند رُک تُو گھر کہاں اب جائے گا؟

روک لے اپنے قدم شارؔق ذرا
شاعرِ مضطر کہاں اب جائے گا
 
Top