کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی)
لے گئی کل ہوسِ مے جو سرخُم مجھ کو
ہوش کی طرح سے مستی نے کیا گم مجھ کو
صورتِ غنچہ کہاں تابِ تکلم مجھ کو
منہ کے سو ٹکڑے ہوں آئے جو تبسم مجھ کو
مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی
آکے عیسٰی نہ سر بالیں کہیں قم مجھ کو
میں ترا عکس تھا اس آئینہء ہستی میں
تونے کیا پھیر لیا منہ کہ کیا گم مجھ کو
کعبہء رُخ کی طرف پڑھنی ہے آنکھوں سے نماز
چاہئے گردِ نظر بہر تیمم مجھ کو
ہوں میں مشتاق شہادت کہیں حسرت تو مٹے
خاطر غیر ہی سے قتل کرو تم مجھ کو
لالہ و گل ہوں، خس و خار ہوں، یارب کیا ہوں
ڈوبتا ہوں تو ڈبوتا نہیں قلزم مجھ کو
نہیں معلوم وہ مہمان ہوئے ہیں کس کے
آج گھر گھر لئے پھرتا ہے توہم مجھ کو
وائے قسمت کہ یہاں قتل کی حسرت ہے امیر
اور وہ سمجھے ہیں سزاوار ترحم مجھ کو
(امیر مینائی)
لے گئی کل ہوسِ مے جو سرخُم مجھ کو
ہوش کی طرح سے مستی نے کیا گم مجھ کو
صورتِ غنچہ کہاں تابِ تکلم مجھ کو
منہ کے سو ٹکڑے ہوں آئے جو تبسم مجھ کو
مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی
آکے عیسٰی نہ سر بالیں کہیں قم مجھ کو
میں ترا عکس تھا اس آئینہء ہستی میں
تونے کیا پھیر لیا منہ کہ کیا گم مجھ کو
کعبہء رُخ کی طرف پڑھنی ہے آنکھوں سے نماز
چاہئے گردِ نظر بہر تیمم مجھ کو
ہوں میں مشتاق شہادت کہیں حسرت تو مٹے
خاطر غیر ہی سے قتل کرو تم مجھ کو
لالہ و گل ہوں، خس و خار ہوں، یارب کیا ہوں
ڈوبتا ہوں تو ڈبوتا نہیں قلزم مجھ کو
نہیں معلوم وہ مہمان ہوئے ہیں کس کے
آج گھر گھر لئے پھرتا ہے توہم مجھ کو
وائے قسمت کہ یہاں قتل کی حسرت ہے امیر
اور وہ سمجھے ہیں سزاوار ترحم مجھ کو