ماتمِ یاس - پنڈت برج نرائن چکبست

حسان خان

لائبریرین
مصنف کے ایک ہونہار اور جواں مرگ عزیز پنڈت اجودھیا ناتھ آغاؔ کی وفات پر یہ نوحہ تصنیف ہوا تھا۔
اے جوانی کے مسافر اے اجل کے میہماں
سو گیا تو سنتے سنتے زندگی کی داستاں
تھک کے نیند آئی ہے ہوتا ہے یہ چتون سے عیاں
نیم باز آنکھوں میں ہے کیفیتِ خوابِ گراں
کارِ دنیا سے کوئی یوں بے خبر ہوتا نہیں
رات بھر جاگا ہوا دولھا بھی یوں سوتا نہیں
صبح کا تارا بھی چمکا، ہو گیا دن آشکار
تیرے چہرے سے مگر سرکی نہ چادر زینہار
دیکھ لے اٹھ کر ذرا اپنی جوانی کی بہار
سن تو کیا کہتی ہے ماں شانہ ہلا کر بار بار
یہ کفن ہرگز نہیں تیرے پنھانے کے لیے
لائی ہوں خلعت تجھے دولھا بنانے کے لیے
محفلِ احباب میں ماتم ہے تُو ہے مستِ خواب
کچھ خبر ہے آج کس کس کی ہوئی مٹی خراب
آخری تسلیم کے مشتاق ہیں کچھ دے جواب
پھر نظر آئے گی کاہے کو یہ تصویرِ شباب
ہنس کر ہر اک بات پر وہ جنبشِ ابرو کہاں
اک نظر پھر دیکھ لے اب ہم کہاں اور تو کہاں
اے محبت کے فرشتے اے وفا کے آفتاب
تیرے سینے میں صفا تھی جیسے آئینے میں آب
واسطے دشمن کے بھی لایا نہ تو دل میں عتاب
آج کیوں آتا ہے تجھ کو بھائی بہنوں سے حجاب
آج تو سنتا کسی کی گریہ و زاری نہیں
او عدم کے جانے والے یہ وفاداری نہیں
ماں کو رونا ہے کہ جاتا ہے تو جا مِل کے گلے
بھائی کہتا ہے رہوں گا کس کی چھاتی کے تلے
کہتی ہیں بہنیں کہاں منہ موڑ کر بھائی چلے
دھیان کچھ اس کا بھی ہے جس گود میں ہم تم پلے
کچھ سہارا چاہیے اہلِ محن کے واسطے
بھائی کی ڈھارس بڑی شے ہے بہن کے واسطے
تیری بالیں پر کھڑا ہے اور بھی اک سوگوار
وہ عزیزوں سے سوا تیرا انیس و غمگسار
چھوڑ کر گھر بار تجھ پر جان کی اپنی نثار
یہ محبت کا فسانہ بھی رہے گا یادگار
گو کہ باقی اب دلوں میں جذبۂ عالی نہیں
پاک روحوں سے مگر دنیا ابھی خالی نہیں
اِس شہیدِ یاس کا صدمہ عیاں ہوتا نہیں
آہ وہ کرتا نہیں اشکوں سے منہ دھوتا نہیں
جانِ غمگیں نالہ و فریاد سے کھوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ سب روتے ہیں وہ روتا نہیں
نالہ و فریاد اِس کے زخم کا مرہم نہیں
چار آنسو کا جو ہو محتاج یہ وہ غم نہیں
یہ وہ رونا ہے جو روتے ہیں ترے پس ماندگاں
ہے دلِ ناشاد کو کچھ اور ہی رونا یہاں
یاد کر کے ان کو روتی ہے یہ چشمِ خوں فشاں
تیری پیشانی پہ دیکھے تھے جو عظمت کے نشاں
تو مرا کیا قوم کا تیری مقدر پھر گیا
ایک موتی اور دامن سے ہمارے گر گیا
وہ ادب وہ علم وہ تہذیب اور وہ انکسار
زندگی تیری تھی ہم چشموں میں اپنے یادگار
زیورِ اخلاق تھا تیری جوانی کا سنگار
جب تلک زندہ رہا یکساں رہا تیرا شعار
خدمتِ انسان و یادِ کبریا ہوتی رہی
دل کے آئینے پہ مذہب کی جِلا ہوتی رہی
تو نے جس دنیا میں کھولی آنکھ اے نقشِ فنا
کچھ موافق تھی نہ تیرے واسطے اس کی ہوا
فیضِ قدرت نے مگر جوہر کیے ایسے عطا
باعثِ حیرت ہوئی دل کو تری نشوونما
میں یہ کہتا تھا کہ خاکستر سے آئینہ ملا
نور تاریکی میں ویرانے میں گنجینہ ملا
یہ تمنا تھی یہ آئینہ جلا پائے گا اب
پھیل کر یہ نور بزمِ قوم تک آئے گا اب
علم کا افلاس اس دولت سے مٹ جائے گا اب
جانتا تھا کون، گردوں یہ ستم ڈھائے گا اب
آئینہ ٹوٹا نظر سے نورِ ہستی کھو گیا
یہ خزانہ قوم کی قسمت سے مٹی ہو گیا
اس دلِ ناشاد میں کچھ حسرتوں کے ہیں مزار
اور اک چھوٹی سی تربت ہوگی تیری یادگار
پھول جب گلزار میں لائیں گے پیغامِ بہار
یاد کر کے تجھ کو یوں روئے گا تیرا سوگوار
"کھِل کے گل کچھ تو بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے"
تیری ہستی تھی اگر دیباچۂ اندوہ و غم
عالمِ فانی میں رکھا کس لیے تو نے قدم
اُن پہ حسرت ہے جو یوں دیتے ہیں غمگینوں کو دم
خواب یہ دنیا ہے یاں کیسی خوشی کیسا الم
انتظامِ دہر میں آخر ہے یہ تدبیر کیا
خواب دنیا ہے تو ہے اس خواب کی تعبیر کیا
(پنڈت برج نرائن چکبست)
۱۹۱۱ء
 
Top