طارق شاہ
محفلین
غزلِ
ماجد صدیقی
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہُوں، مُجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچُھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مِرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری
میرا کھلیان، نہ بیدرد جَلا دے کوئی
وہ تو ہوگا جو مِرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے !
وقت سے پہلے ہی دریا میں بہا دے کوئی
میں بتاؤں گا، گئی رُت نے کِیا ہے کیا کیا
میرے چہرے سے جمی گرد ہٹا دے کوئی
موسمِ گل نہ سہی، بادِ نم آلود سہی
شاخِ عُریاں کو دِلاسہ تو دِلا دے کوئی
ہے پس و پیش جو اپنا یہ مُقدّر، ماجد
آخری تِیر بھی، ترکش سے چَلا دے کوئی
ماجد صدیقی
آخری تدوین: