ماحول دوست سولر رکشہ؛ پاکستانی طالب علم کی کاوش

الف نظامی

لائبریرین


کراچی کی اقراء یونیورسٹی میں الیکڑانکس ڈپارٹمنٹ کے طالبعلم راشد عالم کا تعلق اس نوجوان طبقے سے ہے جو اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے انتہائی پُر عزم ہے۔ راشد بیچلرز کے آخری سال کے طالبعلم ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پیٹرول کی بڑھتی قیمت اور سی این جی کی ہفتہ وار بندشوں کے باعث عوام کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہونے والی مشکلات سے کسی حد تک چھٹکارا دلانے کے لیے ایک عام رکشے کو سی این جی اور پیڑول سے شمسی اور برقی توانائی پر منتقل کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اپنی یونیورسٹی کے لیے کیے جانے والے اس پراجیکٹ کو انہوں نے “Solect hybrid” کا نام دیا ہے۔


راشد کے علاوہ ان کے گروپ میں 10طالبعلم تھے جنہوں نے دن رات کی محنت سے اس رکشہ پراجیکٹ کی تکمیل کی

اپنے شمسی اور برقی ہائبریڈ رکشہ پراجیکٹ کے حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے راشد نے بتایا، ’’اس کا جو بنیادی انجن ہے، وہ فیول پر نہیں کام نہیں کرتا بلکہ موٹر پر کام کرتا ہے۔ اس کے لیے رکشے کی پچھلی جانب بیٹریز لگائی گئی ہیں جوشمسی اور برقی توانائی سے چارج ہوتی ہیں۔ اگر موسم کی خرابی کے سبب شمسی توانائی سے بیٹریز چارج نہ ہو سکیں تو اسے آپ اپنے گھر پر برقی توانائی سے بھی چارج پر لگا سکتے ہیں۔ دن میں یہ رکشے پر لگائے گئے سولر پینلز سے حاصل ہونے والی بجلی سے چارج ہوتی رہتی ہیں۔‘‘

راشد کے مطابق یہ رکشہ سفری لاگت کے اعتبار سے انتہائی عوام دوست ہے، ’’ہم نے جو حساب لگایا اس کے مطابق ہمارے اس ہائبرڈ رکشے پر فی کلومیٹر لاگت صرف 75 پیسے ہے جبکہ سی این جی رکشہ فی کلومیٹر جو خرچ کرتا ہے وہ تین روپے ہے۔ اگر سی این جی رکشہ پاکستان میں کامیاب ہو سکتا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ کامیاب ہو گا۔‘‘


رکشے کی پچھلی جانب بیٹریز لگائی گئی ہیں جوشمسی اور برقی توانائی سے چارج ہوتی ہیں

راشد کے علاوہ ان کے گروپ میں 10طالبعلم تھے جنہوں نے دن رات کی محنت سے اس رکشہ پراجیکٹ کی تکمیل کی۔ راشد کے مطابق اس رکشے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ بہت ماحول دوست ہے، ’’یہ رکشا بالکل بھی آلودگی کا سبب نہیں بنے گا کیونکہ اس سے کوئی دھواں نہیں نکلتا اور یہ ہی کوئی شور ہوتا ہے۔ یہ سی این جی یا پیٹرول کے بجائے بیڑی سے چلتا ہے اس لیے یہ انتہائی ماحول دوست ہے۔‘‘

اس پراجیکٹ کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر عابد کے مطابق نجی کمپنیوں کی جانب سے تو اس میں دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر حکومت کی طرف سے اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا، ’’اب تک کئی نجی کمپنیوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے اور وہ اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہی ہیں اور اسے خریدنا چاہتی ہیں۔ تاہم اب تک حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن ہمارا کام ہے ریسرچ کرتے رہنا۔ اسی لیے اب ہم قابل تجدید توانائی کے ذریعے چلنے والی سائیکل اور رکشے کے بعد ہائبرڈ گاڑی تیار کرنے کے منصوبے پر کام کریں گے۔‘‘

اس پراجیکٹ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس پر بہت بڑی لاگت نہیں آئی۔ راشد عالم کے مطابق اس کو مکمل کرنے کے لیے پونے دو لاکھ پاکستانی روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ رکشہ مکمل طور پر آٹومیٹک ہے اور یہ چالیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے فاصلہ طے کر سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں ٹیلنٹ تو بہت ہے لیکن اس کی پذیرائی نہیں کی جاتی۔

بہت اچھی خبر ہے۔ ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
 
انجینئر آغاز وقار احمد کی پانی سے چلنے والی موٹر کٹ سے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ، وفاقی وزیر خورشید شاہ نے بھی گاڑی چلائی۔
قوم کتنی بار پہلے بھی ماموں بن چکی ہے
 

x boy

محفلین
آم ، سیب ، انگور، گندم، مکئی کی روٹی، نہاری ، قورمہ، بریانی، قلاقند، جلیبی، برفی، سوہن حلوہ وغیرہ مسلمانوں کی ایجاد ہے کیا،ہندو، سکھ، کرسچن، بدھسٹ
سب شوق سے کھاتے ہیں
الحمدللہ
تمام کائنات اللہ کا نظام ہے اور ابن آدم کے پشت پر یہ رکھ دی گئی ہے اور زمین کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا گیا ہے محنت کرتا جا اور حاصل کرتا جا،
دنیا میں رہ کر آخرت کی زمین کو باغ و محل بنانا یا کانٹے اور آگ کا گڑھا ، انسان کو اختیار دیا ہے
اور 24 گھنٹے کی ذندگی کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گزار تے ہوئے ساری ذندگی اسی طرح بسر کرنا ہے
اسی میں کامیابی ہے مال کمانا کسب حلال اور اس کے لئے جدوجہد کرنا ، علم دنیاوی اور اخروی حاصل کرنا سب اسی میں شامل
ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جامعات کے طلباء کے اس طرح کے پروجیکٹس فقط دکھانے کے ہوتے ہیں۔۔۔ ڈبہ خالی ہوتا ہے۔ پہلے سے موجود نظام میں موٹر لگا دینا اور سولر پینل سے بیٹریز کو چارج کرنا کوئی بڑا کھیل نہیں دکھتا بظاہر۔ اگر تو ڈی سی موٹرز استعمال کی گئی ہونگی تو انورٹر کی بھی ضرورت نہیں اللہ اللہ خیر سلا۔ گھر پر چارج کرنے کا اوپشن بیکار ہے۔ اگر واقعی ہائبرڈ ہے تو اسے سولر سے ہی چلنا چاہیے اور الیکٹرک اور ایندھن دونوں اوپشن ساتھ ہونے چاہئیں۔۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ایک نجی کمپنی نے اسلام آباد میں ایک سولر ٹیکسی سسٹم متعارف کراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نظام سے نہ صرف سستا ٹرانسپورٹ نظام مہیا ہو گا بلکہ درآمدی بل بھی کم ہوگا۔ گذشتہ ماہ پہلی سولر کمرشل کار متعارف کرانے پر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے والی کمپنی ’’اکونومیا‘‘ کا یہ سسٹم شمسی توانائی سے چلنے والی سستی کاروں پر مشتمل ہے۔
’’دی نیشن‘‘ کو ملنے والی دستاویز کے مطابق حکومت کو کی گئی پیشکش میں کمپنی ہر میٹرو بس سٹیشن پر ٹیکسی سٹینڈز قائم کرے گی جہاں پر کھڑی سولر کاریں مسافروں کو شہر کے مختلف حصوں تک لے جائینگی۔ میٹرو کو شہر کے دیگر حصوں میں ملانے کیلئے 30ٹیکسی سٹینڈز اور انتظار گاہوں کی تجویز رکھی گئی ہے۔
سیکرٹریٹ کلثوم پلازہ، شہید ملت، این آئی سی بلڈنگ، سینچورس، نائنتھ، ایونیو جنکشن، کراچی کمپنی، پشاور موڑ، انڈسٹریل ایریا، آئی جے پی جنکشن، فیض آباد کے علاقوں میں دو، دو سٹیشن ہونگے جبکہ 6ٹیکسی سٹینڈ مستقبل کی ضرورت پوری کرنے کیلئے تجویز کئے گئے ہیں۔
اسلام آباد کے ہر سیکٹر اور مرکز کیلئے بھی ٹیکسی سٹینڈز کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کیلئے 47ٹیکسی سٹینڈز اور انتظار گاہیں بنائی جائیں گی۔
اس پیشکش میں سی ڈی اے سے تمام سٹینڈز پر بجلی کے کنکشن فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے تاکہ وہاں موجود ٹیکسیوں کی بیٹریاں چارج کی جا سکیں۔ کمپنی کے مالک اسلم آزاد نے ’’دی نیشن‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ نظام ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم کرے گا۔ حکومت میٹرو کے ذریعے سستی ٹرانسپورٹ فراہم کر رہی ہے مگر میٹرو پورے شہر کا احاطہ نہیں کریگی۔ اس نظام کے بعد لوگوں کو اپنی کاریں استعمال نہیں کرنا پڑیں گی جس سے پٹرول کی درآمد میں بھی کمی آئے گی، اسلام آباد کے بعد یہ سسٹم دوسرے شہروں میں بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔
 
Top