ماروی میمن کا کارڈ آف آنر؟

صائمہ شاہ

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔



http://www.facebook.com/USDOTUrdu


عراق کی موجودہ صورتحال کی تمام ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے آپ نے کیسے یہ بیان جاری کر دیا امریکن انویشن کے بعد سے اب تک اس ملک کا جو حشر ہوا ہے اسکا ذمہ دار اور کوئی نہیں امریکہ کے سوا
 

arifkarim

معطل
11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔
ستمبر2001 "حادثے"کاصدام سے کیا تعلق بھلا؟ عراق میں القائدہ تو امریکہ کی عراق کیخلاف جارحیت کے بعد 2003 میں ر د عمل کے طور پر سامنے آئی تھی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Tanzim_Qaidat_al-Jihad_fi_Bilad_al-Rafidayn#Origins

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔
عراق جنگ کی حمایت میں اکٹھے کئے گئے تمام" اثبوت" جھوٹے تھے اور امریکی ادارے اس سے بخوبی آگاہ بھی تھے اسکے باوجود وہ امریکی پبلک کو بیوقوف بناتے رہے اور وہاں کے لوگ اس جھوٹ کے بہکاوے میں آکر الو بنے رہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Curveball_(informant)

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔
ہیں؟ یہ کیا منطق ہوئی؟ عراق ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے! اگریہودی اسرائیل اپنے جوہری و مہلک تنصیبات اقوام متحدہ کو دکھانا نہیں چاہتا تو وہ عالمی امن کیلئے خطرہ نہیں لیکن اگر یہی حرکت مسلمان ملک عراق یا ایران کرے تو خطرہ ہے۔ اس دوغلی، فسادی اور مکارانہ امریکی خارجہ پالیسی کو اب بندہ گالیاں نہ دے تو کیا کرے؟

عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔
آپکو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کیسے مل گئی؟ آپسے زیادہ امریکی خارجہ پالیسی کے بارہ میں ایک عام شہری جانتا ہے:
The U.S. invasion of Iraq in 2003, which Britain notably supported, was a strategic disaster. Contrary to speculation at the time, Saddam Hussein’s secular Ba’athist regime prevented Al Qaeda from operating out of Iraq. Iraq had also been supported by the West before the 1991 Gulf War as a counterbalance against the revolutionary Islamic Republic during the Iran-Iraq War. The U.S.-led invasion changed all of that.​

The Iraq War toppled Saddam, destabilized the country, and led to a wave of sectarian bloodshed. It also made Iraq a safe haven and recruiting ground for Al Qaeda affiliates. Al Qaeda in Iraq, ISIS’s forerunner, was founded in April 2004. AQI conducted brutal attacks on Shia civilians and mosques in hopes of sparking a broader sectarian conflict. Iran naturally supported Shia militias, who fought extremists like AQI, both to expand its influence in Iraq and protect its Shia comrades. Iran cultivated ties with the Maliki government as well. Over the long term, Iran tried to seize the opportunity to turn Iraq from a strategic counterweight into a strategic ally. The U.S. didn’t do much to stop it.

When the U.S. helped to establish Iraq’s government, it consistently supported Maliki, even going so far as toassist in Maliki’s persecution of dissidents and civil society activists. The U.S. was probably more instrumental than Iran in cementing Maliki’s power in Iraq. Maliki alienated Sunnis in Iraq by cracking down on his opponents and pursuing discriminatory policies in government and the armed forces. When Maliki’s troops stormed Sunni protest camps in 2013, they were armed with U.S.-made weapons. By the time the U.S. and Western Europe finally decided Maliki was enough of a liability to push out of government, fertile ground already existed for an ISIS-led Sunni insurgency in Western Iraq.
غلط! جارج بش اور ان کی حکومت کے اہلکار کی نااہلی، بیوقوفی اور جھوٹ پر یقین کرنا اصل بات تھی۔
جارج بش جب اسرائیل نواز درباریوں کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا سربراہ مقرر کر دیں گے تو اور کیا نتیجہ نکلے گا؟
http://mondoweiss.net/2012/01/neoconservative-responsibility-for-the-iraq-war
 

arifkarim

معطل
عراق کی موجودہ صورتحال کی تمام ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے آپ نے کیسے یہ بیان جاری کر دیا امریکن انویشن کے بعد سے اب تک اس ملک کا جو حشر ہوا ہے اسکا ذمہ دار اور کوئی نہیں امریکہ کے سوا
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ملنے والی ماہوار تنخواہ کے چیک پر لکھا ہوا تھا۔ :grin:
 

عثمان

محفلین
یقیناً بڑے بڑے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹس میں بیٹھ کر امریکی حکومت کے سابقہ و حالیوں جھوٹوں پر پردہ ڈالنا یا طرفداری کرنا ایک "جائز" کام ہے ۔ :)
کیا حکومتی اداروں کے ترجمان اور لابیسٹ "ناجائز" کام کرتے ہیں ؟
کیا کسی ملزم کا وکیل "ناجائز" کام کرتا ہے ؟
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اورسابقہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔

عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

نہایت کمزور توجیہات ہیں
اگر اقوام عالم کی برابری ہوتی تو
بین الاقوامی قوانین کے تحت امریکہ کے بلاوجہ عراق پر حملے کے بعد امریکہ کے خلاف معاشی پابندیاں لگنی چاہیئں
مگر طاقتور کے خلاف کوئی قانون کام نہیں آتا
 

Fawad -

محفلین
یقیناً بڑے بڑے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹس میں بیٹھ کر امریکی حکومت کے سابقہ و حالیوں جھوٹوں پر پردہ ڈالنا یا طرفداری کرنا ایک "جائز" کام ہے ۔ :)


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے صرف ان زمينی حقائق، واقعات اور مخصوص تناظر کی نشاندہی کی تھی جس کی بنياد پر اس بحث کا آغاز ہوا جس کے نتيجے ميں صدام حسين کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ کا حتمی اور اجتماعی فيصلہ کيا گيا۔ کسی بھی امريکی عہديدار کی جانب سے عراق پر حملے کے حوالے سے تحفظات اور تنقيد کے ضمن ميں کسی بھی بيان يا رپورٹ کا حوالہ اس وقت تک نا مکمل اور يکطرفہ رہے گا جب تک آپ دوسرے نقطہ نظر کو بھی واضح نہ کريں۔ اور يہ مخالف نقطہ نظر اور سوچ اس وقت کے معروضی حالات ميں کسی بھی صورت ميں اقليتی سوچ نہيں تھی۔

ميں پھر اپنے اسی نقطہ نظر کا اعادہ کروں گا کہ اس وقت مختلف اينٹيلی ايجنس اداروں کی جانب سے جو معلومات فراہم کی گئ تھيں ان کی بنياد پر مکمل بحث کی گئ تھی۔ بحث کی بنيادی اساس اور تعريف ہی يہ ہے کہ متعلقہ موضوع کے خلاف بھی بہت ساری آوازيں اور دلائل موجود ہوتے ہيں ليکن حتمی فيصلہ اس وقت کی مجموعی سوچ اور کئ ماہ تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے نمايندوں کے درميان باہمی صلح مشورے اور ملاقاتوں کے بعد کيا گيا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

arifkarim

معطل
ميں نے صرف ان زمينی حقائق، واقعات اور مخصوص تناظر کی نشاندہی کی تھی جس کی بنياد پر اس بحث کا آغاز ہوا جس کے نتيجے ميں صدام حسين کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ کا حتمی اور اجتماعی فيصلہ کيا گيا۔ کسی بھی امريکی عہديدار کی جانب سے عراق پر حملے کے حوالے سے تحفظات اور تنقيد کے ضمن ميں کسی بھی بيان يا رپورٹ کا حوالہ اس وقت تک نا مکمل اور يکطرفہ رہے گا جب تک آپ دوسرے نقطہ نظر کو بھی واضح نہ کريں۔ اور يہ مخالف نقطہ نظر اور سوچ اس وقت کے معروضی حالات ميں کسی بھی صورت ميں اقليتی سوچ نہيں تھی۔

ميں پھر اپنے اسی نقطہ نظر کا اعادہ کروں گا کہ اس وقت مختلف اينٹيلی ايجنس اداروں کی جانب سے جو معلومات فراہم کی گئ تھيں ان کی بنياد پر مکمل بحث کی گئ تھی۔ بحث کی بنيادی اساس اور تعريف ہی يہ ہے کہ متعلقہ موضوع کے خلاف بھی بہت ساری آوازيں اور دلائل موجود ہوتے ہيں ليکن حتمی فيصلہ اس وقت کی مجموعی سوچ اور کئ ماہ تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے نمايندوں کے درميان باہمی صلح مشورے اور ملاقاتوں کے بعد کيا گيا تھا۔

تو کیا امریکی آفیشلز نے عراق حملے کی تلافی بحیثیت قوم کردی؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس

جب يہ خبر پہلی مرتبہ ميڈيا پر رپورٹ کی گئ تھی تو بہت سے امريکی حکومتی عہديداروں نے اس بات کی تحقيق کی تھی اور افغانستان ميں متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کيا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی نصرت جاويد نے بھی اپنے پروگرام "بولتا پاکستان"ميں اس بات کی تصديق کی تھی کہ انھيں پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن نے يہی بتايا تھا کہ انھوں نے اپنی تحقيق سے اس بات کی تصديق کی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اس کے علاوہ اين پيٹرسن نے پاکستان ميں ہيومن رائٹس کميشن کے صدر کو تين مرتبہ فون کر کے ان خبروں کی ترديد کی۔ اس بات کی تصديق بھی نصرت جاويد نے اپنے پروگرام ميں کی۔

اس کے بعد اين پيٹرسن نے پاکستان کے تمام اخبارات اور ميڈيا کے اہم اداروں کو ايک خط بھی لکھا جس ميں انھوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی اور قيدی نمبر 650 کے حوالوں سے ميڈيا پر افواہوں کی تردید کی اور يہ واضح کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکی قيد ميں نہيں تھيں۔

رچرڈ باؤچر کی جانب سے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو بھی ديا گيا جو بعد ميں جيو ٹی وی پر بھی نشر ہوا جس ميں انھوں نے واضح الفاظ ميں يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کبھی بھی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

برطانوی صحافی ايوان ريڈلی نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح طور پر کہا تھا کہ انکے "خيال" کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں اور اس کے بعد انھوں نے ميڈيا کے سامنے اس بات کو اسی طرح بيان کيا جس کو بنياد بنا کر ميڈيا کے کچھ حلقوں نے اس مفروضے کو ايک تصديق شدہ حقيقت بنا کر پيش کيا۔

يہ بات سراسر حقیقت کے منافی ہے۔

آپ اردو کے بہت سے فورمز پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے ميری پوسٹس بھی پڑھ سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے يہی بات کہی تھی کہ ہماری تحقيق کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ جب اس کيس کے بارے ميں مجھ سے مختلف فورمز پر سوالات کيے گئے تھے تو تمام تر تنقید کے باوجود ميں نے شروع ميں اپنی رائے کا اظہار نہيں کيا تھا کيونکہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اس معاملے ميں تحقيق کر رہی تھی اور کوئ بھی رائے دينے سے پہلے ميرے ليے يہ ضروری تھا کہ ميں اصل حقائق کی تصديق کروں۔ ظاہر ہے کہ انٹرنيٹ پر کچھ دوستوں کے ليے رائے قائم کرنے سے پہلے تحقيق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ميں آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی کروانا چاہتا ہوں کہ برطانوی صحافی نے اپنے ايک حاليہ انٹرويو میں يہ بات بھی کہی کہ برطانوی حکومت نے جو معلومات لارڈ نذير احمد کو دی ہيں ان کے مطابق بھی ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

اب تک اس کيس کے حوالے سے امريکی سفارت کاروں، اہم افسران اور حکومتی اداروں نے جو بيان ديے ہیں ان سب ميں تسلسل اور يکسانيت ہے ليکن ميڈيا پر جو کچھ رپورٹ کيا جا رہا ہے اس ميں ہر روز ايک نئ "حقيقت" بيان کی جا رہی ہے۔ آپ اسی فورم پر ميرے ريمارکس پڑھ سکتے ہيں جن ميں اخباری خبروں کے درميان پائے جانے والے تضادات کا ذکر کيا گيا ہے۔

ڈاکٹر عافيہ کو نہ تو اغوا کيا گيا ، نا وہ جنگی قيدی ہيں اور نہ ہی يرغمال۔ اس کے علاوہ انھيں کسی فوجی عدالت ميں پيش نہيں کيا گيا۔ ان کے خلاف مقدمہ ايک عوامی عدالت ميں چلايا گيا اور انھيں وہ تمام حقوق فراہم کيے گئے جو کسی بھی سول عدالت ميں پيش ہونے والے ملزم کو حاصل ہوتے ہيں۔

ڈاکٹر عافيہ کی شہريت کا ان کے خلاف مقدمے کے فيصلے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی عدالتوں ميں مختلف شہريت رکھنے والے افراد پر مقدمے معمول کی کاروائ کا حصہ ہيں اور انھيں اس کاروائ کے دوران مساوی حقوق حاصل ہوتے ہيں۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ميڈيا پر چلائ جانے والی مہم، لاتعداد اخباری کالمز اور سياسی بيانات نے اس کيس کو ميڈيا سرکس ميں تبديل کر ديا جہاں حقائق اور شواہد کی بجائے جذباتيت اور غير منطقی گفتگو کو فوقيت دی جاتی رہی۔ حقيقت يہی ہے کہ يہ دو ممالک کے مابين کوئ سياسی يا سفارتی معاملہ نہيں بلکہ ايک فرد کے خلاف قانون شکنی کا مقدمہ تھا۔

يہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ذمہ داری نہيں ہے کہ وہ ايک قانونی مقدمے کے حوالے سے تکنيکی معاملات پر سوالوں کے جواب دے۔ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ ذمہ داری اس کيس سے متعلق وکيلوں کی ہے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں يہ بات پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ امريکہ ميں کسی بھی ملزم کی طرح ڈاکٹر عافيہ کو بھی قانونی معاونت فراہم کی گئ تھی اور ان کے پاس اس بات کا پورا موقع تھا کہ وہ اس کيس کے کسی بھی پہلو کو چيلنج کرنے کے علاوہ اپنی کہانی کی وضاحت پيش کريں۔ ان کے وکيلوں کے پاس گواہوں کو پيش کرنے اور ان کے خلاف پيش کيے جانے والے گواہوں کو چيلنج کرنے کا آپشن بھی موجود تھا۔ ڈاکٹر عافيہ کے پاس واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سے کونسلر کی سطح پر معاونت کے حصول کا آپشن بھی موجود تھا جسے انھوں نے استعمال بھی کيا۔ ان کے مقدمے کی کاروائ ايک عوامی عدالت ميں عالمی ميڈيا کی موجودگی ميں ہوئ۔ اس مقدمے سے متعلق تمام افراد کو قانونی موقع ميسر تھا کہ وہ جيوری کے سامنے اپنا نقطہ نظر پيش کريں۔

کمرہ عدالت سے باہر اس مقدمے کے حوالے سے ايسے افراد کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات اور رائے زنی جنھيں اس مقدمے کے تفصيلات تک رسائ نہيں ہے، محض انفرادی نقطہ نظر يا قياس ہی قرار ديا جا سکتا ہے جس کی قانونی نقطہ نظر سے کوئ وقعت نہيں ہے۔

يہ ايک بنيادی بات ہے کہ اس کيس کے حوالے سے خود ڈاکٹر عافيہ اور ان کی وکيلوں سے زيادہ کسی اور کو دلچسپی نہيں ہو سکتی۔ اس تناظر ميں يہ ايک عقلی دليل ہے کہ ان کی جانب سے اس کيس سے متعلقہ کسی بھی پہلو يا سوال کو نظرانداز نہيں کيا گيا۔ امريکی نظام انصاف کی بنيادی روح کے عين مطابق انھيں اس بات کا ہر ممکن موقع فراہم کيا گيا کہ وہ اپنا کيس پيش کريں ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

arifkarim

معطل
يہ ايک بنيادی بات ہے کہ اس کيس کے حوالے سے خود ڈاکٹر عافيہ اور ان کی وکيلوں سے زيادہ کسی اور کو دلچسپی نہيں ہو سکتی۔ اس تناظر ميں يہ ايک عقلی دليل ہے کہ ان کی جانب سے اس کيس سے متعلقہ کسی بھی پہلو يا سوال کو نظرانداز نہيں کيا گيا۔ امريکی نظام انصاف کی بنيادی روح کے عين مطابق انھيں اس بات کا ہر ممکن موقع فراہم کيا گيا کہ وہ اپنا کيس پيش کريں ۔
تو پھر اسرائیلی عوام کو جاسوس جوناتھن پولارڈ کے کیس سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Jonathan_Pollard
 
Top