فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس
جب يہ خبر پہلی مرتبہ ميڈيا پر رپورٹ کی گئ تھی تو بہت سے امريکی حکومتی عہديداروں نے اس بات کی تحقيق کی تھی اور افغانستان ميں متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کيا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی نصرت جاويد نے بھی اپنے پروگرام "بولتا پاکستان"ميں اس بات کی تصديق کی تھی کہ انھيں پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن نے يہی بتايا تھا کہ انھوں نے اپنی تحقيق سے اس بات کی تصديق کی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔
اس کے علاوہ اين پيٹرسن نے پاکستان ميں ہيومن رائٹس کميشن کے صدر کو تين مرتبہ فون کر کے ان خبروں کی ترديد کی۔ اس بات کی تصديق بھی نصرت جاويد نے اپنے پروگرام ميں کی۔
اس کے بعد اين پيٹرسن نے پاکستان کے تمام اخبارات اور ميڈيا کے اہم اداروں کو ايک خط بھی لکھا جس ميں انھوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی اور قيدی نمبر 650 کے حوالوں سے ميڈيا پر افواہوں کی تردید کی اور يہ واضح کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکی قيد ميں نہيں تھيں۔
رچرڈ باؤچر کی جانب سے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو بھی ديا گيا جو بعد ميں جيو ٹی وی پر بھی نشر ہوا جس ميں انھوں نے واضح الفاظ ميں يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کبھی بھی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔
برطانوی صحافی ايوان ريڈلی نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح طور پر کہا تھا کہ انکے "خيال" کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں اور اس کے بعد انھوں نے ميڈيا کے سامنے اس بات کو اسی طرح بيان کيا جس کو بنياد بنا کر ميڈيا کے کچھ حلقوں نے اس مفروضے کو ايک تصديق شدہ حقيقت بنا کر پيش کيا۔
يہ بات سراسر حقیقت کے منافی ہے۔
آپ اردو کے بہت سے فورمز پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے ميری پوسٹس بھی پڑھ سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے يہی بات کہی تھی کہ ہماری تحقيق کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ جب اس کيس کے بارے ميں مجھ سے مختلف فورمز پر سوالات کيے گئے تھے تو تمام تر تنقید کے باوجود ميں نے شروع ميں اپنی رائے کا اظہار نہيں کيا تھا کيونکہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اس معاملے ميں تحقيق کر رہی تھی اور کوئ بھی رائے دينے سے پہلے ميرے ليے يہ ضروری تھا کہ ميں اصل حقائق کی تصديق کروں۔ ظاہر ہے کہ انٹرنيٹ پر کچھ دوستوں کے ليے رائے قائم کرنے سے پہلے تحقيق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ميں آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی کروانا چاہتا ہوں کہ برطانوی صحافی نے اپنے ايک حاليہ انٹرويو میں يہ بات بھی کہی کہ برطانوی حکومت نے جو معلومات لارڈ نذير احمد کو دی ہيں ان کے مطابق بھی ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔
اب تک اس کيس کے حوالے سے امريکی سفارت کاروں، اہم افسران اور حکومتی اداروں نے جو بيان ديے ہیں ان سب ميں تسلسل اور يکسانيت ہے ليکن ميڈيا پر جو کچھ رپورٹ کيا جا رہا ہے اس ميں ہر روز ايک نئ "حقيقت" بيان کی جا رہی ہے۔ آپ اسی فورم پر ميرے ريمارکس پڑھ سکتے ہيں جن ميں اخباری خبروں کے درميان پائے جانے والے تضادات کا ذکر کيا گيا ہے۔
ڈاکٹر عافيہ کو نہ تو اغوا کيا گيا ، نا وہ جنگی قيدی ہيں اور نہ ہی يرغمال۔ اس کے علاوہ انھيں کسی فوجی عدالت ميں پيش نہيں کيا گيا۔ ان کے خلاف مقدمہ ايک عوامی عدالت ميں چلايا گيا اور انھيں وہ تمام حقوق فراہم کيے گئے جو کسی بھی سول عدالت ميں پيش ہونے والے ملزم کو حاصل ہوتے ہيں۔
ڈاکٹر عافيہ کی شہريت کا ان کے خلاف مقدمے کے فيصلے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی عدالتوں ميں مختلف شہريت رکھنے والے افراد پر مقدمے معمول کی کاروائ کا حصہ ہيں اور انھيں اس کاروائ کے دوران مساوی حقوق حاصل ہوتے ہيں۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ ميڈيا پر چلائ جانے والی مہم، لاتعداد اخباری کالمز اور سياسی بيانات نے اس کيس کو ميڈيا سرکس ميں تبديل کر ديا جہاں حقائق اور شواہد کی بجائے جذباتيت اور غير منطقی گفتگو کو فوقيت دی جاتی رہی۔ حقيقت يہی ہے کہ يہ دو ممالک کے مابين کوئ سياسی يا سفارتی معاملہ نہيں بلکہ ايک فرد کے خلاف قانون شکنی کا مقدمہ تھا۔
يہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ذمہ داری نہيں ہے کہ وہ ايک قانونی مقدمے کے حوالے سے تکنيکی معاملات پر سوالوں کے جواب دے۔ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ ذمہ داری اس کيس سے متعلق وکيلوں کی ہے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں يہ بات پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ امريکہ ميں کسی بھی ملزم کی طرح ڈاکٹر عافيہ کو بھی قانونی معاونت فراہم کی گئ تھی اور ان کے پاس اس بات کا پورا موقع تھا کہ وہ اس کيس کے کسی بھی پہلو کو چيلنج کرنے کے علاوہ اپنی کہانی کی وضاحت پيش کريں۔ ان کے وکيلوں کے پاس گواہوں کو پيش کرنے اور ان کے خلاف پيش کيے جانے والے گواہوں کو چيلنج کرنے کا آپشن بھی موجود تھا۔ ڈاکٹر عافيہ کے پاس واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سے کونسلر کی سطح پر معاونت کے حصول کا آپشن بھی موجود تھا جسے انھوں نے استعمال بھی کيا۔ ان کے مقدمے کی کاروائ ايک عوامی عدالت ميں عالمی ميڈيا کی موجودگی ميں ہوئ۔ اس مقدمے سے متعلق تمام افراد کو قانونی موقع ميسر تھا کہ وہ جيوری کے سامنے اپنا نقطہ نظر پيش کريں۔
کمرہ عدالت سے باہر اس مقدمے کے حوالے سے ايسے افراد کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات اور رائے زنی جنھيں اس مقدمے کے تفصيلات تک رسائ نہيں ہے، محض انفرادی نقطہ نظر يا قياس ہی قرار ديا جا سکتا ہے جس کی قانونی نقطہ نظر سے کوئ وقعت نہيں ہے۔
يہ ايک بنيادی بات ہے کہ اس کيس کے حوالے سے خود ڈاکٹر عافيہ اور ان کی وکيلوں سے زيادہ کسی اور کو دلچسپی نہيں ہو سکتی۔ اس تناظر ميں يہ ايک عقلی دليل ہے کہ ان کی جانب سے اس کيس سے متعلقہ کسی بھی پہلو يا سوال کو نظرانداز نہيں کيا گيا۔ امريکی نظام انصاف کی بنيادی روح کے عين مطابق انھيں اس بات کا ہر ممکن موقع فراہم کيا گيا کہ وہ اپنا کيس پيش کريں ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu