محمد علم اللہ
محفلین
کس طرح امانت نہ رہوں غم سے میں دل گیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
(امانت لکھنوی)
انسان کے ذہن پر کچھ ایسے نقوش بن جاتے ہیں، جو کبھی نہیں مٹتے۔ ان ہی میں سے ایک ماسٹر اے ڈی کریم کا نقش بھی ہے، جن سے وابستہ میرے بچپن کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہیں۔ 21 اگست 2017ء کو یہ اطلاع ملی کہ ماسٹر اللہ داد کریم جنہیں ہم ماسٹر اے ڈی کریم کے نام سے جانتے تھے کا انتقال ہو گیا۔ یہ اطلاع میرے گاؤں کے نام سے موجود فیس بک پیج پر ایک ساتھی کے ذریعہ ملی تو ماسٹر صاحب سے وابستہ کئی یادیں عود کر آئیں۔ انتقال کی خبر ملنے کے بعد ہی سوچا تھا کہ ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں اور باتوں کو رقم کروں گا۔ لیکن ادھر کچھ ایسی مصروفیات اور ذہنی خلجان میں مبتلا رہا کہ چاہ کر بھی کچھ نہ لکھ سکا۔ پھر پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر بھی کچھ لکھنے کا خیال آیا، لیکن عید الاضحی اور دیگر روزانہ کے معمولات میں اس قدر مصروف رہا کہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ آج ایک مرتبہ پھر فیس بک پیج پر موجود اس خبر کو دیکھا توماسٹر صاحب سے متعلق کئی باتیں یاد آئیں اور میں یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا۔
ماسٹر صاحب کو جب میں یاد کرتا ہوں، تو مجھے جگنو، تتلی اور بیر بہوٹی یاد آتے ہیں؛ دراصل ماسٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ جگنو کیا ہوتا ہے، تتلی کسے کہتے ہیں اور بیر بہوٹی کیا شئے ہے۔ ان کے پڑھانے کا انداز نرالا اور سب سے الگ تھا۔ ابھی جب میں ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں کوضبط تحریر کرنے بیٹھا ہوں تو میری نظروں کے سامنے پندرہ سولہ سال قبل گاؤں کے اسکول درس گاہ اسلامی اٹکی کا منظرنامہ سامنے ہے، جس نے کئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ہی خلوص، محبت، الفت اور تہذیب و شایستگی کا پاٹھ پڑھایا ہے۔ ماسٹر صاحب اس انمول ادارے کے ایسے جاں نثار تھے، جنھوں نے انتہائی کم اجرت کے باوجود اسے اپنے خون جگر سے سینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بہار شریف کے دور افتادہ علاقے سے آ کر خود کو اس ادارہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ماسٹر صاحب درس گاہ کے عقبی حصے میں قائم کمرے میں رہتے تھے۔ ان کا اپنا انداز اور اسٹائل تھا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے؛ دو پلی کج کلاہ ان کی شان تھی۔ وہ اونچے درجے کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے، کچھ کلاس چھوٹے بچوں کی بھی لیتے اور وہ کلاس ہم بچوں کے لئے عذاب جاں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اس زمانے میں جن اساتذہ کے مر نے کی دعائیں کیں ان میں ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن ماسٹر صاحب کو ہماری دعاوں کے صدقے نہ مرنا تھا اور نہ مرے، وہ تو اپنی طبعی موت مرے۔ انھوں نے شاید ہی کبھی کلاس آنے میں تاخیر کی ہو۔
سارے بچے ماسٹر صاحب سے بے حد خوف کھاتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر صاحب مارتے بہت تھے۔ ان سے خوف کا یہ عالم تھا کہ گھر پر بھی شرارت کرنے پر والدین یا سرپرست ماسٹر صاحب سے شکایت کی دھمکی دیتے تو بچہ سہم ساجاتا، مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب صرف غصیلے اور مارنے ہی والے تھے؛ ماسٹر صاحب اچھے بھی تھے اور سبق یاد کرنے والے بچوں کو شفقت و محبت سے نوازتے اور انھیں انعام بھی دیتے تھے؛ ہم ماسٹر صاحب کی ان دونوں ہی خصوصیات سے خوب فیض یاب ہوئے، مار بھی کھائی اور کئی مرتبہ چاکلیٹ، اٹھنی اور ایک دو مرتبہ ایک آدھ روپے بھی وصول کیے۔
مجھے یاد پڑتا ہے ماسٹر صاحب جہاں رہتے تھے اس سے ذرا آگے پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کیاریوں کے بیچوں بیچ مچان لگا کر کدو، کریلے، کھیرا اور ککڑی وغیرہ کے پودے لگائے گئے تھے، جنھیں ماسٹر صاحب ہی نے بچوں سے لگوایا تھا۔ یہ ماحولیات کے کلاس کا حصہ تھا، جس میں بچوں نے اپنے ہاتھوں سے کیاریاں بنائی تھیں۔ اینٹوں سے اسے گھیرا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پھول کھلے تھے؛ ان پھولوں میں رات کی رانی کے علاوہ گل بہار، چنبیلی، بیلا، موتیا، چمپا، نرگس، گیندا اور گلاب کے پھول تھے جو ہمیشہ پوری فضا کو معطر رکھتے۔ اس قدر خوش نما منظر ہونے کے باوجود ہم بچے رات کی رانی کے پھول کے قریب نہیں جاتے تھے، کیوں کہ بچوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ رات کی رانی میں جنات بسیرا کرتے ہیں اور ماسٹر صاحب کی ان جناتوں سے دوستی ہے۔ ماسٹر صاحب اپنی چھڑی بھی اسی رات کی رانی کی جھاڑیوں میں چھپا کر رکھا کرتے۔ جب کلاس آتے تو اپنی چھڑی کو آستین میں چھپا لیتے تاکہ بچے ڈریں نہیں۔ چھڑی کو وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ ماسٹر صاحب چھڑیوں سے صرف انسانوں کے بچوں ہی کی دھنائی نہیں کرتے ہیں بلکہ جناتوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں اور جنات بھی ان سے خوف کھاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب چھڑی کو مضبوطی کے لیے تیل پلاتے تھے، جس کی وجہ سے چھڑی میں ایک عجب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔
یوں تو درس گاہ کے سبھی اساتذہ مخلص، بے ریا اور شفیق تھے لیکن ماسٹر صاحب کا انداز ان میں سب سے جدا تھا؛ اسی لیے وہ مارتو خان یعنی بہت زیادہ مارنے والا، گسیڑو یعنی بہت زیادہ غصے والا، ظالم، قصائی اور نہ جانے کن کن ناموں سے مشہور تھے۔ جن القابات سے ہم بچے ماسٹر صاحب کو جانتے ماسٹر صاحب اس کے بالکل برعکس ہم بچوں کو پھول ہی کے لقب سے نوازتے۔ کسی کو گلاب، کسی کو چنبیلی، کسی کو چمپا، کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ۔ کسی نے بہت اچھا کام کیا تو اسے گلاب کہہ دیا۔ کسی نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا، یا ہوم ورک نہ کیا تو ماسٹر صاحب اسے گڑھل کا پھول کہتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک لڑکی تھی، پڑھنے میں بہت کم زور؛ وہ کبھی بھی ہوم ورک مکمل کر کے نہیں لاتی تھی؛ ماسٹر صاحب اس کو بہت سمجھاتے، مارتے ڈانٹتے مگر اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں گھستا، ماسٹر صاحب نے اس کا نام گڑھل رکھ دیا۔ گڑھل پھول کے بارے میں وہ بتاتے کہ یہ بے گن کا پھول ہے جو خوب صورت تو ہے مگر اس میں کوئی خوش بو نہیں، اور وہ پھول ہی کیا جس میں خوش بو نہ ہو۔ ماسٹر صاحب ہم بچوں کو خوب صورت پھول کے ساتھ ساتھ بوئے خوش بودار یعنی مہک دار پھول بننے کی بھی ترغیب دیتے اور کہتے؛ جس طرح سے اچھے پھول کو لوگ دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں اور اس کی کشش لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے، انسان کو بھی ویسا ہی بننا چاہیے۔ ایک لڑکا گول مٹول اور موٹا تازہ تھا ماسٹر صاحب اسے گیندے کا پھول کہتے، ایک لڑکی بہت شرمیلی تھی، اس کا نام ماسٹر صاحب نے چھوئی موئی رکھا ہوا تھا۔ ایک لڑکی کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ماسٹر صاحب اسے سورج مکھی کہتے۔ ایک لڑکی دبلی پتلی تھی بالکل سوئی کی طرح ماسٹر صاحب اس کو سرو کہتے اور پھر یہ کس طرح دیو قامت ہوتا ہے اس کی کہانی بتاتے۔
مجھے امید ہے کہ کلیوں، کیاریوں اور پھولوں کا شوقین، نا تراشیدہ پتھروں کو زندگی بھر تراش کر خوب صورت روپ دینے کی کوشش کرنے والا وہ صورت گر ویسے ہی خوب صورت، پر بہار، تر و تازہ اور خوش بووں سے معطر باغوں میں آرام کی نیند سو رہا ہوگا۔
طلبا کے علاوہ اساتذہ بھی ماسٹر صاحب کا بڑا احترام کرتے؛ ماسٹر صاحب ایک فوجی جوان کی طرح ہمیشہ فٹ رہتے اور بچوں کو بھی اسی طرح چاق چوبند رہنے کی تلقین کرتے۔ ماسٹر صاحب بہت با رعب دکھائی دیتے؛ ان کی کلاس چھوڑنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ بچے کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے۔ انھیں غیر حاضری یا کلاس میں موجود ہونے کے باوجود پڑھائی میں توجہ نہ دینا، بالکل بھی پسند نہ تھا۔ وہ ایک چیز کو کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتے، کبھی کبھی غصے بھی ہو جاتے۔ جسے وہ ’محبت‘ کا نام دیا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی اس مخصوص’شفقت و محبت‘ کا شکار میں بھی ہوا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے شاید درجہ دوم یا سوم تھا، ٹھیک طرح سے یاد نہیں، ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے کہ پتا نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔ انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے یا جگانے کے لیے کہا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جیسے بچے اسی انتظار میں بیٹھے تھے، تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ ماسٹر صاحب نے سبھی لڑکوں کو بلایا اور ان کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا ”میں نے اتنا زور سے مارنے کے لیے تھوڑا ہی کہا تھا، میں نے تو محض جگانے کو کہا تھا۔ “
ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ بچوں کی ایمان داری کو آزمانے کے لیے سر راہ کچھ روپے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جا کر لقطہ کی پیٹی، ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی اپنی جیب میں رکھ لیا تو اس کی خیر نہیں؛ ایمان داری دکھانے پر ماسٹر صاحب بچوں کو شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔
ماسٹر اللہ داد کریم ہر فن مولا تھے یعنی ریاضی، جغرافیہ، اردو، تاریخ، سوشل سائنس، اسلامیات سبھی کچھ پڑھاتے مگر بنیادی طور پر وہ انگریزی کے استاد تھے؛ شکل صورت سے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے نظر آتے۔ سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں کی برسات کر دیتے۔ ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریوں کا علاج بس چھڑی ہی سے ممکن تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے درس گاہ میں ہم سارے بچے کلاسیں شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔ دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے کے بعد آداب سکھائے جاتے مثلاً کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے، چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے، سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ، جمائی کے وقت الٹا ہاتھ منہ پر رکھنا ہے، کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے، کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے، سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور دائیں طرف سے لوٹنا ہے وغیرہ۔ یہ سب باتیں ماسٹر صاحب بڑے ہی دل نشیں انداز میں بتاتے۔ صفیں سیدھی کرنے کا طریقہ اور دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا سلیقہ بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے۔ صف ذرا بھی ٹیڑھی ہوئی تو بس وہ تنبیہ الغافلین ہی کا سہارا لیتے۔ ناخن چیک کرتے اور بڑھے ہوئے ہونے پر اسی چھڑی سے ناخنوں پر کُٹائی (ضرب کاری) ہوتی۔ ماسٹر صاحب اپنا قلم، کان کے اوپری حصے پر کھونس کر رکھتے۔ اگر کبھی چھڑی بھول گئے تو قلم کا بھی سہارا لیتے اور سزا کے طور پر قلم انگلیوں کے بیچ رکھ کر اتنے زور سے دباتے کہ بچے بلبلا اٹھتے۔ ماسٹر صاحب کو چچا غالب کی طرح آم بڑے پسند تھے؛ ماسٹر صاحب آم کو بھوجن گھسیڑ کہتے۔ جو بچے ان کے نشانے پہ رہتے، وہ انھیں غصے سے ”ایڈیا“ کہا کرتے تھے۔ جب ماسٹر صاحب کو اس کی خبر ہو جاتی تو وہ دبے پاوں کلاس میں داخل ہوتے اور اس بچے کو پکڑ کر کہتے، ’’کیا کہا تھا تم نے؟ ایڈیا آ رہا ہے۔ لو ایڈیا آ گیا“۔ اور پھر کسی نئے آئیڈیا یا مشکل سبق میں اس کو گرفتار کر لیتے اور مجرم بے چارہ سوچتا ہی رہ جاتا۔
ماسٹر صاحب کی کچھ عادتیں بڑی عجیب سی تھیں، آج انھیں یاد کرتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ان کے انداز تربیت پر مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔ امتحان کے دنوں میں ماسٹر صاحب امتحان ہال میں طلبہ کو کچھ نہیں کہتے بس اخبار پڑھنے میں مصروف ہوجاتے، مگر نقل کرنے والوں کو بہت آسانی سے پکڑ لیتے۔ ان کا انداز ہی نرالا تھا، جس اخبار کے مطالعے میں بظاہر وہ غرق دکھائی دیتے اس میں ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے شگاف کر دیتے اور انھیں شگافوں سے طلبہ پر نظر رکھتے، جب کہ طلبہ یہ سمجھتے کہ ماسٹر صاحب تو اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
ماسٹر صاحب بچوں سے باقاعدگی سے دریافت کرتے کہ کس نے نماز نہیں ادا کی ہے، نگرانی کے لیے ہر محلے کے ایک ایک دو دو لڑکوں کو ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ دیتے کہ دیکھنا فلاں مسجد میں آیا تھا، یا نہیں؛ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ سانٹھ گانٹھ (Setting) بھی کر لیتے، لیکن پتا نہیں کیسے ماسٹر صاحب کو اندازہ ہو جاتا تھا اور پھر ہماری درگت بنتی تھی؛ نماز نہ پڑھنے پر الگ اور جھوٹ بولنے پر الگ۔
ماسٹر صاحب کتاب پڑھاتے تو کبھی کبھی متن کی قرات بھی کراتے تھے، اس میں ح، ہ، ق، ک، س، ش وغیرہ پر بڑی باریک نظر رکھتے۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کیے رہتے ایسا لگتا جیسے سو رہے ہیں مگر جیسے ہی غلطی ہوتی صرف ٹوکتے ہی نہیں بلکہ دوبارہ، سہ بارہ اس کو درست کراتے۔ آزمایش کے لیے چاک یا پنسل دور پھینک دیتے اور کہتے اسے اٹھا لاؤ اور ایک دو، تین، چار گنتے ہوئے جاؤ اور گنتے ہوئے واپس آو؛ اس درمیان بچے کو گنتی سے زیادہ اپنی غلطی کے اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی کہ گنتی ختم ہوتے ہی ماسٹر صاحب وہی الفاظ پھر دہرانے کو کہتے اور غلطی ہونے پر دھنائی کرتے۔ جغرافیہ کی کلاس میں بحرالکاہل، بحرمنجمد شمالی، بحر اوقیانوس، اور اس طرح کے بھاری بھرکم الفاظ یاد نہ رکھنے پرنہ جانے کتنے طلبہ کی شامت آتی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے عجیب کیفیت سے دو چار ہوں؛ ماسٹر صاحب ہم لوگوں کو اسپورٹس بھی سکھاتے اور ہفتے میں ایک آدھ دن ورزش بھی کراتے۔ کبھی کبھی وہ کلاس کی چہار دیواری سے باہر نکال کر میدان میں لے جاتے اور وہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھاتے۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا، جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر ماسٹر صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں، برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔
آج میں ایک مرتبہ پھر گاؤں آیا ہوں اور آتے ہی اسکول کی طرف رخ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سو خاموشی چھائی ہے، ماسٹر صاحب کے کوارٹر کا دروازہ بند ہے۔ کنوئیں کا منڈیر جہاں ماسٹر صاحب بیٹھ کر وضو کرتے تھے خالی خالی سا ہے۔ بچے اپنے اپنے درجوں میں پڑھائی میں مشغول ہیں لیکن پھول کی کیاریاں، مچان اور اس میں اگے ہوئے سبز پتے کدو، ککڑی، کھیرا اور پھول اور سبزیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ جہاں ہم لوگ ترانہ اور دعائیں پڑھا کرتے تھے وہ لان بھی خالی پڑا ہے، مجھے لگا ماسٹر صاحب وہیں کرسی پر کونے میں بیٹھے ہیں، میری نگاہ کونے پر طرف گئی وہاں بے ترتیب اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں موجود وہ چارپائی بھی خالی ہے، جس پر ماسٹر صاحب لیٹا کرتے تھے۔ میں چند لمحے وہاں رکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ابھی ماسٹر صاحب کچھ بولیں گے؛ اپنا کرتا اور ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے کچھ پوچھیں گے۔ ”پڑھائی تو ٹھیک چل رہی ہے ناں؟ کھانے پینے کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ مجھے امید ہے تم ہم سب کا نام روشن کروگے، ہمیں تم پر فخر ہے۔ “ اور میں صرف جی جی کرتے ہوئے، شرم سے گڑا جارہا ہوں؛ اپنی کم مائیگی اور نا ہنجاری پر شرمندہ، خدا تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں، خدایا! عزت رکھ لیجیو! کاش میں الفت و محبت اور امید کی لو لگائے ہوئے ان بزرگوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر پاوں۔ میرے اندر مزید وہاں رکنے کی ہمت نہیں ہے اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول سے باہر نکل آیا ہوں۔
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
(امانت لکھنوی)
انسان کے ذہن پر کچھ ایسے نقوش بن جاتے ہیں، جو کبھی نہیں مٹتے۔ ان ہی میں سے ایک ماسٹر اے ڈی کریم کا نقش بھی ہے، جن سے وابستہ میرے بچپن کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہیں۔ 21 اگست 2017ء کو یہ اطلاع ملی کہ ماسٹر اللہ داد کریم جنہیں ہم ماسٹر اے ڈی کریم کے نام سے جانتے تھے کا انتقال ہو گیا۔ یہ اطلاع میرے گاؤں کے نام سے موجود فیس بک پیج پر ایک ساتھی کے ذریعہ ملی تو ماسٹر صاحب سے وابستہ کئی یادیں عود کر آئیں۔ انتقال کی خبر ملنے کے بعد ہی سوچا تھا کہ ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں اور باتوں کو رقم کروں گا۔ لیکن ادھر کچھ ایسی مصروفیات اور ذہنی خلجان میں مبتلا رہا کہ چاہ کر بھی کچھ نہ لکھ سکا۔ پھر پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر بھی کچھ لکھنے کا خیال آیا، لیکن عید الاضحی اور دیگر روزانہ کے معمولات میں اس قدر مصروف رہا کہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ آج ایک مرتبہ پھر فیس بک پیج پر موجود اس خبر کو دیکھا توماسٹر صاحب سے متعلق کئی باتیں یاد آئیں اور میں یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا۔
ماسٹر صاحب کو جب میں یاد کرتا ہوں، تو مجھے جگنو، تتلی اور بیر بہوٹی یاد آتے ہیں؛ دراصل ماسٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ جگنو کیا ہوتا ہے، تتلی کسے کہتے ہیں اور بیر بہوٹی کیا شئے ہے۔ ان کے پڑھانے کا انداز نرالا اور سب سے الگ تھا۔ ابھی جب میں ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں کوضبط تحریر کرنے بیٹھا ہوں تو میری نظروں کے سامنے پندرہ سولہ سال قبل گاؤں کے اسکول درس گاہ اسلامی اٹکی کا منظرنامہ سامنے ہے، جس نے کئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ہی خلوص، محبت، الفت اور تہذیب و شایستگی کا پاٹھ پڑھایا ہے۔ ماسٹر صاحب اس انمول ادارے کے ایسے جاں نثار تھے، جنھوں نے انتہائی کم اجرت کے باوجود اسے اپنے خون جگر سے سینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بہار شریف کے دور افتادہ علاقے سے آ کر خود کو اس ادارہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ماسٹر صاحب درس گاہ کے عقبی حصے میں قائم کمرے میں رہتے تھے۔ ان کا اپنا انداز اور اسٹائل تھا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے؛ دو پلی کج کلاہ ان کی شان تھی۔ وہ اونچے درجے کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے، کچھ کلاس چھوٹے بچوں کی بھی لیتے اور وہ کلاس ہم بچوں کے لئے عذاب جاں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اس زمانے میں جن اساتذہ کے مر نے کی دعائیں کیں ان میں ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن ماسٹر صاحب کو ہماری دعاوں کے صدقے نہ مرنا تھا اور نہ مرے، وہ تو اپنی طبعی موت مرے۔ انھوں نے شاید ہی کبھی کلاس آنے میں تاخیر کی ہو۔
سارے بچے ماسٹر صاحب سے بے حد خوف کھاتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر صاحب مارتے بہت تھے۔ ان سے خوف کا یہ عالم تھا کہ گھر پر بھی شرارت کرنے پر والدین یا سرپرست ماسٹر صاحب سے شکایت کی دھمکی دیتے تو بچہ سہم ساجاتا، مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب صرف غصیلے اور مارنے ہی والے تھے؛ ماسٹر صاحب اچھے بھی تھے اور سبق یاد کرنے والے بچوں کو شفقت و محبت سے نوازتے اور انھیں انعام بھی دیتے تھے؛ ہم ماسٹر صاحب کی ان دونوں ہی خصوصیات سے خوب فیض یاب ہوئے، مار بھی کھائی اور کئی مرتبہ چاکلیٹ، اٹھنی اور ایک دو مرتبہ ایک آدھ روپے بھی وصول کیے۔
مجھے یاد پڑتا ہے ماسٹر صاحب جہاں رہتے تھے اس سے ذرا آگے پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کیاریوں کے بیچوں بیچ مچان لگا کر کدو، کریلے، کھیرا اور ککڑی وغیرہ کے پودے لگائے گئے تھے، جنھیں ماسٹر صاحب ہی نے بچوں سے لگوایا تھا۔ یہ ماحولیات کے کلاس کا حصہ تھا، جس میں بچوں نے اپنے ہاتھوں سے کیاریاں بنائی تھیں۔ اینٹوں سے اسے گھیرا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پھول کھلے تھے؛ ان پھولوں میں رات کی رانی کے علاوہ گل بہار، چنبیلی، بیلا، موتیا، چمپا، نرگس، گیندا اور گلاب کے پھول تھے جو ہمیشہ پوری فضا کو معطر رکھتے۔ اس قدر خوش نما منظر ہونے کے باوجود ہم بچے رات کی رانی کے پھول کے قریب نہیں جاتے تھے، کیوں کہ بچوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ رات کی رانی میں جنات بسیرا کرتے ہیں اور ماسٹر صاحب کی ان جناتوں سے دوستی ہے۔ ماسٹر صاحب اپنی چھڑی بھی اسی رات کی رانی کی جھاڑیوں میں چھپا کر رکھا کرتے۔ جب کلاس آتے تو اپنی چھڑی کو آستین میں چھپا لیتے تاکہ بچے ڈریں نہیں۔ چھڑی کو وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ ماسٹر صاحب چھڑیوں سے صرف انسانوں کے بچوں ہی کی دھنائی نہیں کرتے ہیں بلکہ جناتوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں اور جنات بھی ان سے خوف کھاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب چھڑی کو مضبوطی کے لیے تیل پلاتے تھے، جس کی وجہ سے چھڑی میں ایک عجب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔
یوں تو درس گاہ کے سبھی اساتذہ مخلص، بے ریا اور شفیق تھے لیکن ماسٹر صاحب کا انداز ان میں سب سے جدا تھا؛ اسی لیے وہ مارتو خان یعنی بہت زیادہ مارنے والا، گسیڑو یعنی بہت زیادہ غصے والا، ظالم، قصائی اور نہ جانے کن کن ناموں سے مشہور تھے۔ جن القابات سے ہم بچے ماسٹر صاحب کو جانتے ماسٹر صاحب اس کے بالکل برعکس ہم بچوں کو پھول ہی کے لقب سے نوازتے۔ کسی کو گلاب، کسی کو چنبیلی، کسی کو چمپا، کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ۔ کسی نے بہت اچھا کام کیا تو اسے گلاب کہہ دیا۔ کسی نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا، یا ہوم ورک نہ کیا تو ماسٹر صاحب اسے گڑھل کا پھول کہتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک لڑکی تھی، پڑھنے میں بہت کم زور؛ وہ کبھی بھی ہوم ورک مکمل کر کے نہیں لاتی تھی؛ ماسٹر صاحب اس کو بہت سمجھاتے، مارتے ڈانٹتے مگر اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں گھستا، ماسٹر صاحب نے اس کا نام گڑھل رکھ دیا۔ گڑھل پھول کے بارے میں وہ بتاتے کہ یہ بے گن کا پھول ہے جو خوب صورت تو ہے مگر اس میں کوئی خوش بو نہیں، اور وہ پھول ہی کیا جس میں خوش بو نہ ہو۔ ماسٹر صاحب ہم بچوں کو خوب صورت پھول کے ساتھ ساتھ بوئے خوش بودار یعنی مہک دار پھول بننے کی بھی ترغیب دیتے اور کہتے؛ جس طرح سے اچھے پھول کو لوگ دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں اور اس کی کشش لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے، انسان کو بھی ویسا ہی بننا چاہیے۔ ایک لڑکا گول مٹول اور موٹا تازہ تھا ماسٹر صاحب اسے گیندے کا پھول کہتے، ایک لڑکی بہت شرمیلی تھی، اس کا نام ماسٹر صاحب نے چھوئی موئی رکھا ہوا تھا۔ ایک لڑکی کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ماسٹر صاحب اسے سورج مکھی کہتے۔ ایک لڑکی دبلی پتلی تھی بالکل سوئی کی طرح ماسٹر صاحب اس کو سرو کہتے اور پھر یہ کس طرح دیو قامت ہوتا ہے اس کی کہانی بتاتے۔
مجھے امید ہے کہ کلیوں، کیاریوں اور پھولوں کا شوقین، نا تراشیدہ پتھروں کو زندگی بھر تراش کر خوب صورت روپ دینے کی کوشش کرنے والا وہ صورت گر ویسے ہی خوب صورت، پر بہار، تر و تازہ اور خوش بووں سے معطر باغوں میں آرام کی نیند سو رہا ہوگا۔
طلبا کے علاوہ اساتذہ بھی ماسٹر صاحب کا بڑا احترام کرتے؛ ماسٹر صاحب ایک فوجی جوان کی طرح ہمیشہ فٹ رہتے اور بچوں کو بھی اسی طرح چاق چوبند رہنے کی تلقین کرتے۔ ماسٹر صاحب بہت با رعب دکھائی دیتے؛ ان کی کلاس چھوڑنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ بچے کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے۔ انھیں غیر حاضری یا کلاس میں موجود ہونے کے باوجود پڑھائی میں توجہ نہ دینا، بالکل بھی پسند نہ تھا۔ وہ ایک چیز کو کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتے، کبھی کبھی غصے بھی ہو جاتے۔ جسے وہ ’محبت‘ کا نام دیا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی اس مخصوص’شفقت و محبت‘ کا شکار میں بھی ہوا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے شاید درجہ دوم یا سوم تھا، ٹھیک طرح سے یاد نہیں، ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے کہ پتا نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔ انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے یا جگانے کے لیے کہا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جیسے بچے اسی انتظار میں بیٹھے تھے، تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ ماسٹر صاحب نے سبھی لڑکوں کو بلایا اور ان کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا ”میں نے اتنا زور سے مارنے کے لیے تھوڑا ہی کہا تھا، میں نے تو محض جگانے کو کہا تھا۔ “
ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ بچوں کی ایمان داری کو آزمانے کے لیے سر راہ کچھ روپے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جا کر لقطہ کی پیٹی، ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی اپنی جیب میں رکھ لیا تو اس کی خیر نہیں؛ ایمان داری دکھانے پر ماسٹر صاحب بچوں کو شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔
ماسٹر اللہ داد کریم ہر فن مولا تھے یعنی ریاضی، جغرافیہ، اردو، تاریخ، سوشل سائنس، اسلامیات سبھی کچھ پڑھاتے مگر بنیادی طور پر وہ انگریزی کے استاد تھے؛ شکل صورت سے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے نظر آتے۔ سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں کی برسات کر دیتے۔ ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریوں کا علاج بس چھڑی ہی سے ممکن تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے درس گاہ میں ہم سارے بچے کلاسیں شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔ دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے کے بعد آداب سکھائے جاتے مثلاً کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے، چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے، سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ، جمائی کے وقت الٹا ہاتھ منہ پر رکھنا ہے، کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے، کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے، سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور دائیں طرف سے لوٹنا ہے وغیرہ۔ یہ سب باتیں ماسٹر صاحب بڑے ہی دل نشیں انداز میں بتاتے۔ صفیں سیدھی کرنے کا طریقہ اور دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا سلیقہ بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے۔ صف ذرا بھی ٹیڑھی ہوئی تو بس وہ تنبیہ الغافلین ہی کا سہارا لیتے۔ ناخن چیک کرتے اور بڑھے ہوئے ہونے پر اسی چھڑی سے ناخنوں پر کُٹائی (ضرب کاری) ہوتی۔ ماسٹر صاحب اپنا قلم، کان کے اوپری حصے پر کھونس کر رکھتے۔ اگر کبھی چھڑی بھول گئے تو قلم کا بھی سہارا لیتے اور سزا کے طور پر قلم انگلیوں کے بیچ رکھ کر اتنے زور سے دباتے کہ بچے بلبلا اٹھتے۔ ماسٹر صاحب کو چچا غالب کی طرح آم بڑے پسند تھے؛ ماسٹر صاحب آم کو بھوجن گھسیڑ کہتے۔ جو بچے ان کے نشانے پہ رہتے، وہ انھیں غصے سے ”ایڈیا“ کہا کرتے تھے۔ جب ماسٹر صاحب کو اس کی خبر ہو جاتی تو وہ دبے پاوں کلاس میں داخل ہوتے اور اس بچے کو پکڑ کر کہتے، ’’کیا کہا تھا تم نے؟ ایڈیا آ رہا ہے۔ لو ایڈیا آ گیا“۔ اور پھر کسی نئے آئیڈیا یا مشکل سبق میں اس کو گرفتار کر لیتے اور مجرم بے چارہ سوچتا ہی رہ جاتا۔
ماسٹر صاحب کی کچھ عادتیں بڑی عجیب سی تھیں، آج انھیں یاد کرتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ان کے انداز تربیت پر مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔ امتحان کے دنوں میں ماسٹر صاحب امتحان ہال میں طلبہ کو کچھ نہیں کہتے بس اخبار پڑھنے میں مصروف ہوجاتے، مگر نقل کرنے والوں کو بہت آسانی سے پکڑ لیتے۔ ان کا انداز ہی نرالا تھا، جس اخبار کے مطالعے میں بظاہر وہ غرق دکھائی دیتے اس میں ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے شگاف کر دیتے اور انھیں شگافوں سے طلبہ پر نظر رکھتے، جب کہ طلبہ یہ سمجھتے کہ ماسٹر صاحب تو اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
ماسٹر صاحب بچوں سے باقاعدگی سے دریافت کرتے کہ کس نے نماز نہیں ادا کی ہے، نگرانی کے لیے ہر محلے کے ایک ایک دو دو لڑکوں کو ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ دیتے کہ دیکھنا فلاں مسجد میں آیا تھا، یا نہیں؛ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ سانٹھ گانٹھ (Setting) بھی کر لیتے، لیکن پتا نہیں کیسے ماسٹر صاحب کو اندازہ ہو جاتا تھا اور پھر ہماری درگت بنتی تھی؛ نماز نہ پڑھنے پر الگ اور جھوٹ بولنے پر الگ۔
ماسٹر صاحب کتاب پڑھاتے تو کبھی کبھی متن کی قرات بھی کراتے تھے، اس میں ح، ہ، ق، ک، س، ش وغیرہ پر بڑی باریک نظر رکھتے۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کیے رہتے ایسا لگتا جیسے سو رہے ہیں مگر جیسے ہی غلطی ہوتی صرف ٹوکتے ہی نہیں بلکہ دوبارہ، سہ بارہ اس کو درست کراتے۔ آزمایش کے لیے چاک یا پنسل دور پھینک دیتے اور کہتے اسے اٹھا لاؤ اور ایک دو، تین، چار گنتے ہوئے جاؤ اور گنتے ہوئے واپس آو؛ اس درمیان بچے کو گنتی سے زیادہ اپنی غلطی کے اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی کہ گنتی ختم ہوتے ہی ماسٹر صاحب وہی الفاظ پھر دہرانے کو کہتے اور غلطی ہونے پر دھنائی کرتے۔ جغرافیہ کی کلاس میں بحرالکاہل، بحرمنجمد شمالی، بحر اوقیانوس، اور اس طرح کے بھاری بھرکم الفاظ یاد نہ رکھنے پرنہ جانے کتنے طلبہ کی شامت آتی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے عجیب کیفیت سے دو چار ہوں؛ ماسٹر صاحب ہم لوگوں کو اسپورٹس بھی سکھاتے اور ہفتے میں ایک آدھ دن ورزش بھی کراتے۔ کبھی کبھی وہ کلاس کی چہار دیواری سے باہر نکال کر میدان میں لے جاتے اور وہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھاتے۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا، جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر ماسٹر صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں، برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔
آج میں ایک مرتبہ پھر گاؤں آیا ہوں اور آتے ہی اسکول کی طرف رخ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سو خاموشی چھائی ہے، ماسٹر صاحب کے کوارٹر کا دروازہ بند ہے۔ کنوئیں کا منڈیر جہاں ماسٹر صاحب بیٹھ کر وضو کرتے تھے خالی خالی سا ہے۔ بچے اپنے اپنے درجوں میں پڑھائی میں مشغول ہیں لیکن پھول کی کیاریاں، مچان اور اس میں اگے ہوئے سبز پتے کدو، ککڑی، کھیرا اور پھول اور سبزیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ جہاں ہم لوگ ترانہ اور دعائیں پڑھا کرتے تھے وہ لان بھی خالی پڑا ہے، مجھے لگا ماسٹر صاحب وہیں کرسی پر کونے میں بیٹھے ہیں، میری نگاہ کونے پر طرف گئی وہاں بے ترتیب اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں موجود وہ چارپائی بھی خالی ہے، جس پر ماسٹر صاحب لیٹا کرتے تھے۔ میں چند لمحے وہاں رکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ابھی ماسٹر صاحب کچھ بولیں گے؛ اپنا کرتا اور ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے کچھ پوچھیں گے۔ ”پڑھائی تو ٹھیک چل رہی ہے ناں؟ کھانے پینے کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ مجھے امید ہے تم ہم سب کا نام روشن کروگے، ہمیں تم پر فخر ہے۔ “ اور میں صرف جی جی کرتے ہوئے، شرم سے گڑا جارہا ہوں؛ اپنی کم مائیگی اور نا ہنجاری پر شرمندہ، خدا تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں، خدایا! عزت رکھ لیجیو! کاش میں الفت و محبت اور امید کی لو لگائے ہوئے ان بزرگوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر پاوں۔ میرے اندر مزید وہاں رکنے کی ہمت نہیں ہے اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول سے باہر نکل آیا ہوں۔