سید عمران
محفلین
اگر آپ کہتے ہیں کہ میں ہوں ہی ایسا،کوئی مجھے کچھ نہ سمجھائے، مجھے اپنی مرضی کرنے دے اور یہ کہ میں کسی کے کہنے سے تبدیل نہیں ہوں گا تو جان لیجیے کہ آپ کا حال خراب اور مستقبل برباد ہورہا ہے، آپ بھری دنیا میں تنہا اور اکیلے ہونے والے ہیں۔ ہر لمحہ بدلتی دنیا میں آپ کی کامیابی اسی میں ہے کہ آپ اس کے مثبت ڈھنگ اپنائیں۔ تبدیلی ابتدا میں تو تکلیف دہ اور دشوار ثابت ہوسکتی ہے لیکن اس کے نتائج دیرپا اور مثبت نکلیں گے۔ کوئی نیا کام شروع کرنے، نیا رشتہ بنانے یا پرانے رشتے کو نیا رنگ دینے کے بعد آپ زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
جب آپ یہ بات سمجھ گئے تو اس بات کو بھی جان لیجیے کہ یہ دنیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کے لیے نہیں بنی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں فرماتے ہیں کہ اگر تم نے خود اپنی حالت بدلنے کی نہیں ٹھانی اور اس کے لیے جد و جہد نہیں کی تو یاد رکھو میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کی مدد نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ قسمت بنانے یا بگاڑنے کا کچھ نہ کچھ اختیار اللہ نے ہمارے اپنے ہاتھ میں بھی دیا ہے۔ تو کیوں نہ ہر بات قسمت پر ڈالنے کی بجائے اپنے اس اختیار کو استعمال کریں جس کا اللہ ہمیں حکم دے رہے ہیں۔
ہر وقت سست رہنا، ماضی کی غلطیوں پر پریشان رہنا، مستقبل بہتر بنانے کے لیے اپنے کو نااہل سمجھنا اور خودبخود کچھ بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہنا آپ کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔ زندگی کو ایک نئے معنی دینا، بہتر مقصد کی تلاش کرنا اور اس کے لیے مصروف رہنا انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
ماضی میں جو اچھا ہوا اس پر خدا کا شکر ادا کیجیے اور جو برا ہوا اسے بہتر بنانے کے لیے کمر کس لیجیے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے ’’زندگی تین دن کی ہے، ایک دن وہ جو ماضی بن گیا، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے، ایک دن وہ جو مستقبل ہے، آنے والا دن ہے، اس کا کسی کو کچھ نہیں پتا کہ اس دن کیا ہونے والا ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ اس دن کو پہنچنے تک زندگی یاوری کرتی ہے یا نہیں،اور ایک دن آج کا ہے، بس اس کو غنیمت جان لو۔‘‘ یعنی جو آج کرنا ہے اسے کل پر نہ چھوڑو۔
ماضی کی جو چیز بہتر کرنا ہمارے اختیار میں نہیں اس پر افسوس کرکے پریشان نہ ہوں،پریشان ہونے سے مسائل تو حل نہ ہوں گے، ہاں آپ کی صحت اور قوت گھلتی رہے گی۔ اگر یہی قوت آپ ان چیزوں پر استعمال کریں جن پر آپ قابو پاسکتے ہیں تو زندگی زیادہ آسان ہو جائے گی۔دیکھا جائے تو ماضی کی غلطیاں آپ کو بہتر بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے جو سیکھنے کو ملتا ہے وہ آپ کی ذہنی نشو و نما کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔لہٰذا ان غلطیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر آگے کی طرف قدم نہ بڑھانا عقل مندی نہیں ہے ۔ اگر ماضی میں آپ کے ساتھ کچھ برا ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ چناں چہ ماضی میں جینا چھوڑیں اور مستقبل کے لیے حال میں جینا شروع کریں، بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ماضی کی غلطیوں سے کسی حد تک لطف اندوز ہونا بھی سیکھ لیں۔
خلاصہ یہ کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے ایسے منصوبے بنائیں جن میں ماضی کے نقصانات کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔بہترین منصوبہ بندی کی روایات ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتی ہیں کہ آپ نے ساری زندگی کس قدر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ گزاری اور اپنے قول و فعل سے امت کو اس کی ترغیب بھی دی۔
مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ایک مزے دار کام کریں،دو فہرستیں بنائیں، پہلی میں ایک طرف سوچ سوچ کر اپنی خامیاں لکھیں اور دوسری طرف اپنی خوبیاں۔ اب اپنی خامیوں کے عیب دور کر کرکے اسے خوبیوں والی فہرست میں ڈالتے جائیں۔ آخر میں آپ کو ایک خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑے گا جب آپ پر انکشاف ہوگا کہ قدرت نے کئی خوبیوں تو آپ کو خود دی ہیں جبکہ کئی خامیوں کو خوبیاں بنانے کا ہنر بھی دیا ہے۔ یوں اپنی خوبیوں کا ایک مجموعہ آپ کی نظروں کے سامنے آجائے گا۔
اب اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری فہرست بنائیں اور اس میں اپنے مستقبل کے منصوبے کی ممکنہ خامیوں اور خوبیوں کی فہرست بنائیں،پھر ممکنہ ناکامیوں کی خامیوں کو دور کرکرکے انہیں کامیابیوں والے خانے میں لکھتے جائیں۔آخر میں اس فہرست سے ایسے کاموں کو ترتیب وار نمبر دیں جو آپ آسانی سے کرسکتے ہوں، اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک ایک کر کے شروع کرتے جائیں۔اس سادہ سی ترکیب پر عمل کرنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ زندگی جو پہلے بے ترتیب، بکھری ہوئی اور ناخوشگوار تھی آہستہ آہستہ خوشگوار ہوتی جارہی ہے۔
تو آج کے بعد سے رونا بسورنا اور اپنی سستی و کاہلی کا الزام قسمت کو دینا بند کریں اور زندگی کا آغاز ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ کریں۔ دنیا کی کامیابیاں محنت اور مثبت رویے کا مظاہرہ کرنے والے کے قدم چومنے کو ہر وقت تیار ہیں!!!
جب آپ یہ بات سمجھ گئے تو اس بات کو بھی جان لیجیے کہ یہ دنیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کے لیے نہیں بنی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں فرماتے ہیں کہ اگر تم نے خود اپنی حالت بدلنے کی نہیں ٹھانی اور اس کے لیے جد و جہد نہیں کی تو یاد رکھو میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کی مدد نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ قسمت بنانے یا بگاڑنے کا کچھ نہ کچھ اختیار اللہ نے ہمارے اپنے ہاتھ میں بھی دیا ہے۔ تو کیوں نہ ہر بات قسمت پر ڈالنے کی بجائے اپنے اس اختیار کو استعمال کریں جس کا اللہ ہمیں حکم دے رہے ہیں۔
ہر وقت سست رہنا، ماضی کی غلطیوں پر پریشان رہنا، مستقبل بہتر بنانے کے لیے اپنے کو نااہل سمجھنا اور خودبخود کچھ بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہنا آپ کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔ زندگی کو ایک نئے معنی دینا، بہتر مقصد کی تلاش کرنا اور اس کے لیے مصروف رہنا انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
ماضی میں جو اچھا ہوا اس پر خدا کا شکر ادا کیجیے اور جو برا ہوا اسے بہتر بنانے کے لیے کمر کس لیجیے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے ’’زندگی تین دن کی ہے، ایک دن وہ جو ماضی بن گیا، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے، ایک دن وہ جو مستقبل ہے، آنے والا دن ہے، اس کا کسی کو کچھ نہیں پتا کہ اس دن کیا ہونے والا ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ اس دن کو پہنچنے تک زندگی یاوری کرتی ہے یا نہیں،اور ایک دن آج کا ہے، بس اس کو غنیمت جان لو۔‘‘ یعنی جو آج کرنا ہے اسے کل پر نہ چھوڑو۔
ماضی کی جو چیز بہتر کرنا ہمارے اختیار میں نہیں اس پر افسوس کرکے پریشان نہ ہوں،پریشان ہونے سے مسائل تو حل نہ ہوں گے، ہاں آپ کی صحت اور قوت گھلتی رہے گی۔ اگر یہی قوت آپ ان چیزوں پر استعمال کریں جن پر آپ قابو پاسکتے ہیں تو زندگی زیادہ آسان ہو جائے گی۔دیکھا جائے تو ماضی کی غلطیاں آپ کو بہتر بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے جو سیکھنے کو ملتا ہے وہ آپ کی ذہنی نشو و نما کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔لہٰذا ان غلطیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر آگے کی طرف قدم نہ بڑھانا عقل مندی نہیں ہے ۔ اگر ماضی میں آپ کے ساتھ کچھ برا ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ چناں چہ ماضی میں جینا چھوڑیں اور مستقبل کے لیے حال میں جینا شروع کریں، بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ماضی کی غلطیوں سے کسی حد تک لطف اندوز ہونا بھی سیکھ لیں۔
خلاصہ یہ کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے ایسے منصوبے بنائیں جن میں ماضی کے نقصانات کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔بہترین منصوبہ بندی کی روایات ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتی ہیں کہ آپ نے ساری زندگی کس قدر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ گزاری اور اپنے قول و فعل سے امت کو اس کی ترغیب بھی دی۔
مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ایک مزے دار کام کریں،دو فہرستیں بنائیں، پہلی میں ایک طرف سوچ سوچ کر اپنی خامیاں لکھیں اور دوسری طرف اپنی خوبیاں۔ اب اپنی خامیوں کے عیب دور کر کرکے اسے خوبیوں والی فہرست میں ڈالتے جائیں۔ آخر میں آپ کو ایک خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑے گا جب آپ پر انکشاف ہوگا کہ قدرت نے کئی خوبیوں تو آپ کو خود دی ہیں جبکہ کئی خامیوں کو خوبیاں بنانے کا ہنر بھی دیا ہے۔ یوں اپنی خوبیوں کا ایک مجموعہ آپ کی نظروں کے سامنے آجائے گا۔
اب اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری فہرست بنائیں اور اس میں اپنے مستقبل کے منصوبے کی ممکنہ خامیوں اور خوبیوں کی فہرست بنائیں،پھر ممکنہ ناکامیوں کی خامیوں کو دور کرکرکے انہیں کامیابیوں والے خانے میں لکھتے جائیں۔آخر میں اس فہرست سے ایسے کاموں کو ترتیب وار نمبر دیں جو آپ آسانی سے کرسکتے ہوں، اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک ایک کر کے شروع کرتے جائیں۔اس سادہ سی ترکیب پر عمل کرنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ زندگی جو پہلے بے ترتیب، بکھری ہوئی اور ناخوشگوار تھی آہستہ آہستہ خوشگوار ہوتی جارہی ہے۔
تو آج کے بعد سے رونا بسورنا اور اپنی سستی و کاہلی کا الزام قسمت کو دینا بند کریں اور زندگی کا آغاز ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ کریں۔ دنیا کی کامیابیاں محنت اور مثبت رویے کا مظاہرہ کرنے والے کے قدم چومنے کو ہر وقت تیار ہیں!!!