مالی سال10-2009کے لئے بلوچستان کا بجٹ پیش کردیا گیا

زین

لائبریرین
کوئٹہ :
مالی سال10-2009کے لئے بلوچستان کا 74ارب24کروڑ70لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15فیصد اضافہ اور4212نئی آسامیوںکا اعلان کیا گیا ہے‘بجٹ میں8ارب 33کروڑ24لاکھ سے زائد خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جس کو کم کرنے کے لئے وفاقی حکومت 6ارب روپے امداد فراہم کرے گی ‘بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا‘ترقیاتی منصوبوں کے لئے 18ارب53کروڑ60لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں5ارب 17کروڑ45لاکھ کی بیرونی پراجیکٹ امداد بھی شامل ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 53ارب8کروڑ12لاکھ74ہزار روپے ‘ آمدنی کا مجموعی تخمینہ 59ارب 5کروڑ41لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو نے ہفتہ کو اسپیکر محمد اسلم بھوتانی کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 10-2009 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال10-2009کے مجوزہ صوبائی بجٹ کا مجموعی حجم74ارب24کروڑ70لاکھ روپے ہے ۔اس میں صوبائی ترقیاتی بجٹ 18ارب 53کروڑ 60لاکھ روپے کا ہے ۔جس میں 5ارب 17کروڑ 45لاکھ کی بیرونی پراجیکٹ امداد بھی شامل ہے ۔جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 53ارب 8کروڑ 12لاکھ 74ہزار روپے کا ہے ،آمدنی کا مجموعی تخمینہ 59ارب 5کروڑ 41لاکھ روپے ہے ،ان میں صوبائی وسائل سے حاصل آمدنی 3ارب 64کروڑ 56لاکھ 65ہزار روپے ہے ۔جبکہ وفاقی محاصل سے حاصل رقم کا تخمینہ 55ارب 40کروڑ 84لاکھ 36ہزار روپے ہے ۔صوبائی وسائل سے حاصل آمدنی کی تفصیلات کے مطابق محصولاتی آمدنی 1ارب 13کروڑ 26لاکھ 71ہزار روپے جبکہ غیر محصولاتی آمدنی 2ارب 51کروڑ 29لاکھ 94ہزار روپے ہے ۔وفاق سے براہ راست منتقلیاں 12ارب 22کروڑ 79لاکھ 99ہزار روپے ،گرانٹس یا امداد 13ارب 97کروڑ 55لاکھ روپے ،قابل تقسیم ٹیکسوں میں حصہ 29ارب 20کروڑ 49لاکھ 37ہزار روپے ہے ۔اس طرح صوبے کی کل آمدنی کا تخمینہ 65ارب 91کروڑ 40لاکھ روپے ہے۔یوں بجٹ 2009-10کا خسارہ 8ارب 33کروڑ 24لاکھ 86ہزار روپے کا ہے ۔وفاقی حکومت نے تین ارب بجٹری سپورٹ اور 3ارب عوامی نمائندوں کا ترقیاتی پروگرام /پی آر پی کا اعلان کر رکھا ہے ۔اس سے بجٹ کا خسارہ کم ہو کر 2ارب 33کروڑ 24لاکھ 86ہزار روپے رہ جائے گا ۔جسے صوبائی وسائل سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ روزگار کے سہولیات مہیا کرنے کے لئے اگلے سال4212آسامیاں پیدا کی جارہی ہیں ،انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے سال کے لئے ٹیکس فری بجٹ دیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اگلے سال کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے 50ارب روپے مختص کرنے کا حکم دیا ہے،رواں مالی سال کے بقایا 21ارب روپے بھی اگلے سال میں جاری کئے جائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ اقتصادی مندی اور امن و امان پر اٹھنے والے زائد اخراجات کے باوجود صوبائی حکومت نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں کوئی کٹوتی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ کم از کم پنشن150روپے سے بڑھا کر1000اور 300سے بڑھا کر2000روپے کیا گیا ہے اس فیصلے سے سرکاری خزانے پر400ملین روپے کا مزید بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس کا اعلان کیا ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں اس سال تقریباً ایک ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں ‘پنجگور ، نوشکی اور کوہلو میں تین کیڈٹ کالجز بہت جلد کام شروع کردیں گے ‘اگلے سال سے 76ملین کی لاگت سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اسکالر شپ کا اجراءکیا جارہا ہے جس کے تحت 240ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے طلباءکو وضائف دیئے جائیں گے ‘109 پرائمری اسکولوں کو مڈل کا درجہ اور 108مڈل اسکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دینے ‘4انٹر کالجز کو ڈگری کالج دیا جائےگا‘111نئے اسکول جبکہ 14نئے انٹر کالجز قائم کئے جائیں گے‘پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی گرانٹ 150ملین روپے سے بڑھا کو 200ملین روپے کردی گئی ‘صحت کے 19جاری اور71نا مکمل منصوبوں کی تکمیل کے لئے324.01ملین مختص کئے گئے ‘شعبہ زراعت کے مختلف منصوبوں کے لئے295.386ملین کی رقم دی گئی ہے ‘ صوبے کے تمام دیہی آبادی کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لئے 264.072ملین کی نئی اسکیموں کا اجراءاور 25.740 ملین کی لاگت سے 13گزشتہ نا مکمل اسکیمات کی تکمیل ہوئی ہے ، اگلے سال سے صوبے کے دور دراز علاقوں کے شہید بے نظیر بھٹو واٹر سپلائی سکیم کا آغاز کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اسکیم کے تحت بلوچستان میں100ڈیم تعمیر ہوں گے۔ اس سال کوئٹہ میں اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے لئے 100ایکڑ زمین محکمہ کو الاٹ کردی گئی ہے جبکہ 550ملین کی لاگت سے نوجوانوں کے لئے ایک مکمل ٹرینگ سینٹر کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا گیا ، انہوں نے کہا کہ خوراک کی مد میں سالانہ600 ملین کی سبسڈی کی رقم اگلے سال سے 600ملین سے بڑھا کر ایک ارب کی جارہی ہے ‘سڑکوں کی تعمیر کے لئے 4817.718ملین کی لاگت سے 196اسکیمات پر جاری ہیں ‘کوئٹہ میں ٹریفک جام کا مسئلہ حل کرنے کے لئے شہر میں کوئلہ پھاٹک اور سریاب میں دو فلائی اوورزتعمیر کیے جانے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی بحالی پر اب تک 2.13ارب روپے خرچ ہوئے ہیں ،وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مالی سال کے دوران68.225ملین روپے دہشتگردی کے متاثرین میں تقسیم کئے جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سیاسی افہام و تفہیم کے لئے ناراض بھائیوں سے مذاکرات کئے جارہے ہیں ‘ صوبائی حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں اب تک126افراد کے بارے میں پتا لگایا جاچکا ہے ۔وزیرخزانہ میر عاصم کرد گیلونے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ موجودہ حکومت کو مالی بحران گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملا،مخلوط حکومت نے محمد اسلم خان رئیسانی کی قیادت میں اپنے پہلے بجٹ کے فوراً بعد صوبہ کی مجموعی مالی ، انتظامی اور امن وامان کی صورتحال پر توجہ مرکز کی،انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی صورت حال کو بد حال پایا حکومتی عملداری اور انتظامی مشینری تقریباً غیر فعال ہوچکی تھی ۔ بلوچستان کو21ارب روپے کی خطیر رقیم اوور ڈرافٹ کا سامنا تھا جو کہ بڑھتا ہی جارہا تھا اور جس کی ادائیگی میں صوبہ کے ناکافی وسائل کا ایک بڑا حصہ ادا کرنا پڑرہا تھا۔اس سے نہ صرف ہمارے ترقیاتی اخراجات پر برا اثر پڑرہا تھا بلکہ جاری اخراجات بھی متاثر ہورہے تھے۔امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی، سابقہ ادوار کی حکومتی عدم دلچسپی، اندرونی بے چینی، بیرونی اور علاقائی خلفشار اور حکومتی مشینری کو غیر مستحکم کررہے تھے۔ حکومتی عمل داری میں روز افزوں کمی واقع ہورہی تھی۔نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی حکومت نے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کی بجائے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں ایک دوہری حکومت حکمت عملی واضع کی جس کے طمابق ایک طرف کمزور اقتصادی صورتحال کو سنبھالا اور دوسری جانب حکومت سے اختلافات رکھنے والی ناراض سیاسی قوتوں سے با معنی مفاہمت کے عمل کا آغازکیا۔ صوبائی حکومت کو درپیش مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی استحکام کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ مانتے ہوئے جناب وزیراعلیٰ نے اوور ڈرافٹ کو آسان قرضہ میں بدلنے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔ وہ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت سے متواتر رابطہ میں رہے۔اسی مقصد کے لئے وہ گورنر اسٹیٹ بنک کے پاس کراچی تشریف لے گئے۔ اس کے نتیجہ میں گورنر صاحبہ کی کوئٹہ آمد پر اوور ڈرافٹ کو آسان قرضہ میں بدلنے کے معاہدہ کو حتمی شکل دی گئی۔ اسٹیٹ بنک نے بلوچستان کے لئے مہیا ویز اینڈ مینز(ways and meas) کی سہولت کو1.7ارب سے بڑھا کر 2.5ارب کردیا۔ یوں صوبہ کے لئے کچھ مالی گنجائش پیدا ہوئی۔اوور ڈرافٹ کا آسان قرضہ میں تبدیلی کی سہولت کے باوجود ہمیں اس واجب الادا رقم پر ماہانہ350ملین روپے ادا کرنے پڑرہے تھے جو کہ ہمارے محدود وسائل پر ایک بھاری بوجھ تھا۔اس دوران آپ کی حکومت اس کمر توڑ مالی بوجھ سے نجات کے لئے کوشاں رہی ۔عاصم کرد گیلو نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر انہوں نے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے صوبہ کی مالی مشکلات ان کے سامنے پیش کیں اور ان سے ذاتی توجہ کی درخواست کی ۔ صدر نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مشیر برائے مالیات جناب شوکت عزیز کی مشاورت سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اوورڈرافٹ کی17.4ارب کی رقم چھ ماہ تک منجمد رہنے کے بعد ادائیگی وفاقی حکومت کے ذمے ہوگی۔یہ تعاون صدر مملکت اور جناب وزیراعظم کی جانب سے ہمارے لئے ایک بیش قیمت تحفہ تھا۔ جس سے ہمیں ایک بڑھتے ہوئے نا قابل برداشت مالی بوجھ سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ اور اب ہم اس قابل ہیں کہ اوور ڈرافٹ کی مد میں ادا کئے جانے والے350ملین کی رقم اس عوام کی بہبود پر خرچ کرسکیں ۔سیاسی افہام و تفہیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب تک صوبہ میں سیاسی افہام و تفہیم کا ماحول نہ ہو کوئی کام روانی سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ معاشی و اقتصادی امور پر بھر پور توجہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت سب کو ساتھ لے کر چلے۔ ناروا حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارے کچھ دوست یا تو زیر حراست تھے یا ان پر صوبے میں اور صوبے کے باہر مقدمات بنائے گئے تھے ۔ نواب محمد اسلم رئیسانی نے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی متعلقہ محکموں کو ہدایت جاری کی کہ ان معاملات کی چھان بین کی جائے اور اہم رہنماﺅں کیءرہائی کے قانون کے مطابق انتظامات کئے جائیں۔ہم نے اپنے نالاں بھائیوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے جو اقدامات کئے، ان میں قید سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی کارکنان کی رہائی اور ان کے خلاف درج مقدمات کی واپسی،امن عامہ کے قانون کے تحت نظر بند سیاسی کارکنان کی رہائی، کوئٹہ شہر اور صوبہ کے دیگر مقامات سے فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہے ۔ لاپتہ افراد کے اہم ترین مسئلے کو ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر اٹھایا ۔ جس کے نتیجے میں اب تک126افراد کے بارے میں پتا لگایا جاچکا ہے اور دیگر کے بارے میں ہماری انتھک کوششیں جاری ہیں۔ عاصم کرد گیلو نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت جلد اس کوشش میں کامیاب ہوجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی اور اپنی کابینہ کے بھر پور تعاون سے ناراض سیاسی قیادت کو گفت و شنید پر آمادہ کرنے کے لئے رابطوں کا آغاز کیا ۔کیونکہ ہم سب کا ایک ہی مقصد یعنی بلوچستان کی بہتری اور روشن مستقبل ہے۔ہمیں امید ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوں گے۔وفاقی مالی معاونت کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے اقتصادی مستقبل کا دارو مدار بلوچستان پر ہے ۔ ایک ترقی یافتہ بلوچستان ہی پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری ان ہی کوششوں کے نتیجے میں وزیراعظم نے اگلے سال کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لئے 50ارب روپے مختص کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔علاوہ ازیں رواں مالی سال کے بقایا 21ارب روپے بھی اگلے سال میں جاری کئے جائیں گے۔ یہ احساس ایک خوش حال مستقبل کی نوید ہے جس سے ترقی کے عمل کو فروغ ملے انہوں نے کہا کہ عالمی اقتصادی مندی سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے یوں اس مندی کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سب کچھ درست نہیں رہا ہے تاہم اقتصادی مندی اور امن و امان پر اٹھنے والے زائد اخراجات کے باوجود نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں قائم صوبائی حکومت نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں کوئی کٹوتی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ اس جمہوری حکومت کے لئے عوامی امنگوں پر پورا اترنا یوں آسان نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی شدید قلت ہے ہمارے معاشرتی و اقتصادی اشارات ملک میں نچلی ترین سطح پر ہیں ویسے بھی گزشتہ 62سالوں سے جو خلا پیدا ہوتا آرہا ہے اسے پُر کرنا آسان نہیں ۔ صرف آبادی کی بنیاد پر ملکی وسائل کی تقسیم سے معاملات بہتر انداز میں حل نہیں ہوسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت کا دوسرے سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جناب محمد اسلم خان رئیسانی کی قیادت میں قائم اس حکومت نے اپنے طے شدہ اہداف کے حصول میں پوری جان فشانی سے کوشش کی ہے۔اس حکومت کی ذمہ داریوں میں عوامی بہبود سر فہرست ہے ۔ ہم عوامی امنگوں سے بخوبی آگاہ ہیں جن میں اہم روزگار کے مواقع، غربت کا خاتمہ، زراعت و امور حیوانات کی ترقی،صحت، تعلیم اور پینے کا صاف پانی کی فراہمی شامل ہیں ، ان تمام مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم پوری طرح کوشاں ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم اپنے صوبے کی محصولات بڑھانے اور اخراجات کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کررہے ہیں تاکہ بچت سے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں ۔ اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھنے کے نتیجے میں اس سال ہم نے جاری اخراجات میں1.47بلین روپے کی بچت کی ہے ۔ یہ بچت اس کے باوجود ہے کہ اس سال سرکاری مشینری میں دو نئے محکموں اور چھ ڈویژنل کمشنروں کے دفاتر کا اضافہ ہوا ہے ۔ مزید یہ کہ اس سال صوبے اپنے محصولات کا ہدف3.47بلین روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہو اہے۔قومی ادارہ احتساب (نیب) کے برآمد شدہ رقم سے صوبہ کا حصہ170.385ملین روپے وصول کیے گئے ہیں۔مختلف سرکاری محکموں کے غیر فعال پرائیوٹ بنک اکاﺅنٹ میں پڑے3ارب روپوں کا سراغ لگایا گیا ہے ۔ اور یہ رقم صوبائی حکومت کو منتقل کی جارہی ہے۔اس ایک مضبوط، موثراور عوام میں مقبول قانون پر عمل درآمد کروانے والی فورس وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ امن عامہ، تحفظ جان و مال اور آبرو کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے لیویز فورس کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ لیویز کا پولیس میں انضمام میں زمینی حقائق کے بر خلاف تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس فیصلے سے امن وامان کے حالات بہتر ہوں گے اور سرمایہ کار بلوچستان میں اعتماد بحال ہوگا۔ اسی طرح گڈ گورنس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے طے شدہ فوائد کے حامل ڈویژنل کمشنرز کو بھی بحال کیا ہے ۔ اس سے نہ صرف نگرانی اور رابطے بہتر ہوں گے بلکہ فوری اور موثر فیصلہ سازی میں بھی مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ضلعی حکومتی نظام سے پہلے رائج نظام میں ضلع کا سربراہ امن و امان اور دیگر امور کے لئے ذمہ دار ہوتا تھا۔ ضلعی حکومتی نظام سے ضلعی سربراہ کے تمام اختیارات بشمول مجسٹریٹ کے اختیارات کے تقسیم ہوگئے ہیں ۔ اس سے انتظامی امور میں خلل واقع ہوا ہے ۔ ان مشکلات سے نمٹنے، بہتر نظم و نسق اور عوامی مسائل کے فوری حل کے لئے ہم نے ایگزیکٹیو مجسٹریسی کے نظام کو بحال کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو سفارشات پیش کردی ہیں۔ اسی طرح پولیس آرڈر 2002میں پائے جانے والے کمزوریاں دور کرنے اور اس آڈر میں اشد ضروری ترامیم کے لئے بھی سفارش کی گئی ہے ۔ہم نے بڑی توجہ اور محنت کے بعد تیار کردہ مقامی حکومتوں سے متعلق اپنی تجاویز اور سفارشات حکومت کو پیش کردی ہیں۔ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے متعلق اپنے موقف سے ہم نے وفاقی حکومت کو آگاہ رکھا ہوا ہے ۔ ہماری خواہش ہے کہ وسائل کی تقسیم کا پیمانہ آبادی کے علاوہ جغرافیائی رقبہ، پسماندگی ، ترقی کی سطح ، خدمات بہم پہنچانے پر آنے والی لاگت اور محصولات کی وصولی میں حصہ بھی ہوں ۔
 
Top