مالی کے شہر 'تمبکتو' پر ایک اجمالی نگاہ

حسان خان

لائبریرین
یہ ساری تصاویر دی گارجین اخبار میں شائع ہوئی ہیں اور ان کے عکاس شَون اسمتھ ہیں۔ انہیں یہاں پیش کرنے کا مقصد اس شہر اور اس شہر کی زندگی کا تعارف دینا ہے نہ کہ کسی حقِ طبع و نشر کی تنقیص۔ تمام تصاویر مندرجہ ذیل ربط سے لی گئی ہیں۔
http://www.theguardian.com/cities/g...n-the-edge-of-existence-in-pictures?CMP=fb_gu

تمبکتو کی مٹی سے ساختہ جینگری بیر مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد کا منظر۔ یہ مسجد بادشاہ موسیٰ اول کے حکم سے ۱۳۲۷ء میں تعمیر ہوئی تھی۔
47cdadf6-38f1-4c6b-874e-06190f7dffe3-1020x680.jpeg


تمبکتو کا ورودی راستہ۔۔ یہاں نقل و حمل زیادہ تر خروں کے توسط سے ہوتی ہے اور آبادی کے بارے میں گمان ہے کہ وہ پندرہ ہزار نفور سے نیچے جا چکی ہے۔
019b5194-d47a-4d92-8bd2-3d2f43e0ffdc-1020x680.jpeg


جینگری بیر مسجد کا ۷۶ سالہ موذن صبح کی اذان دینے کے بعد۔۔۔
fa822202-29cd-41e1-9021-11c8a51f3602-1020x680.jpeg


شہر کی حدود کے باہر کھلی فضا میں واقع مذبح خانے میں شرکتِ قصاباں کا ۶۸ سالہ سربراہ
452960bf-8195-4508-9d48-ef43b37398db-1020x680.jpeg


تمبکتو سے دریائے نائجر تک بارہ میل لمبی شکستہ حال سڑک کے ذریعے پہنچنے میں آدھا گھنٹا لگتا ہے۔ یہاں عالمی غذائی لائحۂ عمل (ورلڈ فوڈ پروگرام) کی بوریاں دریا کے راستے ضرورت مندوں کو پہنچانے کے لیے کشتی میں لادی جا رہی ہے۔
60dbee4b-443d-4a11-8d00-4a1e187af4d4-1020x680.jpeg


جینگری بیر مسجد کا موذن مسجد کے ایک داخلی دروازے کے سامنے کھڑا ہے۔
9730ab80-06ce-4db4-a390-5876c2c530d9-1020x680.jpeg


شہر کے وسط میں اقوامِ متحدہ پولیس پیدل گشت کرتے ہوئے۔۔۔ فرانس کی جنوری ۲۰۱۳ء میں فوجی مداخلت کے بعد، اقوامِ متحدہ نے بھی یہاں اپنے دس ہزار فوجی مستقر کیے ہیں۔
6df1ccbf-c4c4-4558-91c1-fb156b5f7785-1020x680.jpeg


تمبکتو کا مذبح خانہ۔۔
7175b765-93aa-4487-b475-39e2064edc88-1020x680.jpeg


تمبکتو میں مساجد اور پرانی عمارات پانی سے آمیختہ مٹی سے بنائی جاتی ہیں جسے 'بانکو' کہا جاتا ہے۔ عمارت سازی کی اس روش کو یونسیکو نے عالمی میراث کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔
f29be58f-0acd-4fa4-8ec5-4c90db452793-1020x680.jpeg


یہ پینتیس سالہ عورت اپنے گھر کی بنیادی کفیل ہے۔ یہ برف اور مشروبات بناتی ہے اور کپڑے اور ملبوسات فروخت کرتی ہے۔
6f0205f0-2e98-4a51-ad7a-bf3da59d3698-1020x680.jpeg


رضاکار مسجد کے قریب سے کچرا ہٹا رہے ہیں۔ شہر کا زیادہ تر کچرا صحرا میں پھینکا جاتا ہے۔
a9c567ec-f2b7-4e83-8a97-66774f2dbc45-1020x680.jpeg
۔

شہر کے واحد باشگاہِ شبانہ (نائٹ کلب) کا ڈی جے آواز کا معائنہ کر رہا ہے۔
d9c7c44f-afd7-4c9c-8c98-f2d338af4f39-1020x680.jpeg

ایک بچہ شہر کے مضافات میں باقی ماندہ کنوئیں سے پانی لے کر جا رہا ہے۔
5fc98b72-1a7b-41a7-8026-961cb17f5a37-1020x680.jpeg


ایک آدمی 'بانکو' مٹی کے لیے کھدائی کرتے رہنے کے بعد سستاتے ہوئے۔۔۔
f22aea36-70ab-403d-b90e-8d65522947fa-1020x680.jpeg


جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرمیوں میں درجۂ حرارت کے زیادہ رہنے کی وجہ سے شہر کے لوگ اکثر نصفِ شب تک باہر باہم وقت گزارتے ہیں۔
c2ddec75-5a72-485b-9198-11725752a993-1020x680.jpeg


مرحوم کرنل قذافی کا ایک دہائی قبل خریدا ہوا ہوٹل۔۔۔ سابق لیبیائی رہنما نے ۲۰۰۶ء میں تمبکتو میں دریائے نائجر تک نہر کھدوائی تھی۔
25b29687-55aa-4cde-9a78-9f4ec7e63457-1020x680.jpeg


دریائے نائجر کے کنارے مچھلیوں کے پکڑے جانے کا انتظار ہو رہا ہے۔
8d698f1a-a08c-4ff1-8853-823b7f7f9569-1020x680.jpeg


شہر کا مقامی تاریخ دان
418a6184-b0a4-4113-927a-b0331965d0f8-1020x612.jpeg


40540fb3-1cf4-4cca-ae79-81b3c7e022c6-1020x680.jpeg


ایک پرانے ٹرک میں لوگ، سامان اور مویشی ٹھونس کر تمبتکو لے جائے جا رہے ہیں۔
5e2d3ff7-864f-482b-9d4b-1aba0ea910d2-1020x680.jpeg


رمضان کے ابتدائی دنوں میں کچھ بچے مویشیوں کے سینگ پہن کر کھیل رہے ہیں۔
8d70ff51-cfdc-492f-adc9-e37c3f17ee8b-1020x680.jpeg


جینگری بیر مسجد کے سامنے سے دو بچے گذر رہے ہیں۔ اس مسجد کی سالانہ مرمت کے لیے بیس لوگ درکار ہوتے ہیں۔
a0b7a9b8-1324-474a-9b51-883fabcb331d-1020x680.jpeg


اقوامِ متحدہ پولیس کے جوان خر کشیدہ اسباب جاتے دیکھ رہے ہیں۔
3f076732-fa4b-4056-9c63-0ece7a3b2a42-1020x680.jpeg


تمبکتو کے قرآنی مدرسے کا استاد چوبی تختی پر بچوں کے پڑھنے کے لیے مقدس کتاب کی کچھ آیات لکھ رہا ہے۔
9e44324f-96ab-4b13-81ee-4f219468a5b4-1020x680.jpeg


اقوامِ متحدہ کی بکتربند گاڑی دریائے نائجر پر گشت کے بعد شہر کی حدود میں واپس داخل ہو رہی ہے۔
691853fe-161a-4b07-9d42-a153c002c0a5-1020x680.jpeg


ایک بچہ کچے گوشت کو مذبح خانے سے بازار پہنچا رہا ہے جبکہ دوسرا بچہ کرسٹیانو رونالڈو کی قمیص پہنے اور ہاتھ میں ایک بڑی چھری لیے پیچھے چل رہا ہے۔
27678ac7-8d66-4f7e-b1bc-522f21b67165-1020x680.jpeg


گلوکار اور رقاص تکراری مشق کرتے ہوئے۔۔۔
c573a54d-f011-4d75-8658-cfa4deb97e96-1020x680.jpeg


عمارتِ بلدیہ کے سامنے مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے۔۔۔
fde525af-091a-4a3c-a714-5fc8c0f2d7d9-1020x680.jpeg


جینگری بیر مسجد ریتی طوفان (سینڈ اسٹارم) کے دوران۔۔۔ صحرا آہستہ آہستہ شہر کی شمالی حدود تک پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے شہری زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
bbbc1245-a2a5-4242-adf8-890ff752fbba-1020x680.jpeg


ختم شد!
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
بہت شکریہ حسان بھائی
ایک بات کوئی واضح کردے کہ افریقن عورتیں غربت میں بھی بہت موٹی ہوتی ہیں
جبکہ مرد نارمل کیا وجہ ہے؟
 
حسان خان بھائی کی انتہائی اہم دریافت

لیجیے ہم بھی بی بی سی سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں

’’ٹمبکٹو کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک پراسرار، رومانوی اور دیومالائی مقام کا تصور آ جاتا ہے۔

بہت سوں کا تو یہ خیال تھا کہ شاید یہ کسی جغرافیائی مقام نہیں بلکہ کوئی داستانوی نام ہے۔

اسی بارے میں
متعلقہ عنوانات
لیکن آج کل خبروں میں ٹمبکٹو کا نام تواتر سے آنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پہلی بار یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ افریقی ملک مالی کا اینٹ پتھر سے بنا ہوا شہر ہے جہاں ہماری آپ ہی کی طرح کے انسان رہتے ہیں۔

آکسفرڈ ڈکشنری میں ٹمبکٹو کا مطلب لکھا ہوا ہے ایسی جگہ جو بے حد دور افتادہ، دشوار گزار اور دنیا کے دوسرے کونے پر آباد ہو۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے، ’ارے بھائی، دو ماہ سے تمھارا کوئی اتا پتا نہیں، کہیں ٹمبکٹو تو نہیں چلے گئے تھے؟‘

انگریزی زبان میں یہ لفظ انیسویں صدی میں ان معنی میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد سے الفریڈ ٹینی سن، ڈی ایچ لارنس اور اگاتھا کرسٹی جیسے مشاہیر نے اسے اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹمبکٹو کا یہ مطلب کیسے پیدا ہو گیا کیوں کہ دنیا میں اس سے بھی زیادہ دور افتادہ اور دشوار گزار جگہیں موجود ہیں؟

ٹمبکٹو شہر کو 12ویں صدی میں طوارق قوم نے آباد کیا تھا۔ یہ شہر سونے اور نمک کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے سنگم پر واقع تھا، اس لیے کچھ ہی عرصے کے بعد یہ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا اور تمام علاقے کا سب سے مالدار اور اہم شہر بن گیا۔

اس شہر کی ثروت مندی کے قصے جب یورپ پہنچے تو وہاں کے مہم جوؤں اس تک پہنچنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔

تاہم ٹمبکٹو چوں کہ صحرائے اعظم صحارا کے اندر واقع تھا اس لیے بہت سی مہماتی ٹیمیں یہاں تک پہنچنے میں ناکام رہیں اور صحرا میں بھٹک کر رہ گئیں۔

ٹمبکٹو: پراسراریت کی وجوہات
  • ٹمبکٹو صدیوں تک یورپ کی پہنچ سے باہر رہا
  • اس کی دولت کے قصے دور دور تک مشہور تھے
  • آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ٹمبکٹو تک پہنچنا آسان نہیں
  • لفظ ٹمبکٹو کی صوتیات ہی ایسی ہیں کہ جس سے ذہن میں ایک عجیب و غریب مقام کا تصور پیدا ہوتا ہے
آکسفرڈ یونیورسٹی کے ایڈیٹر رچرڈ شپیرو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یورپی 1830 میں ٹمبکٹو پہنچے۔ اس سے پہلے یورپ میں صرف اس شہر کا تذکرہ صرف ان مہم جو ٹیموں کے حوالے سے ہوتا تھا جو وہاں پہنچنے میں ناکام رہیں:

’1820 میں لوگ کہتے تھے کہ یہ طرابلس سے 60 دنوں کی مسافت پر واقع ہے جس میں سے چھ دن ایسے آتے ہیں جب پانی دستیاب نہیں ہوتا۔‘

شپیرو کہتے ہیں کہ انگریزوں کا خیال تھا کہ ٹمبکٹو سے انھیں ایسی مال و دولت ملے گی جیسے سپین کو جنوبی امریکہ میں حاصل ہوئی تھی۔ تاہم وہ صدیوں کی کوششوں کے باوجود وہاں پہنچنے میں ناکام رہے اس لیے اس شہر کا مطلب ہی کسی ناقابلِ حصول جگہ کے مترادف ہو گیا۔

ٹمبکٹو وسطی افریقہ میں اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں پر جامعہ سنکوری کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی قائم تھی جہاں دور دراز سے طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔

یہاں کی 60 کتب خانوں میں سات لاکھ سے زائد صدیوں پرانی کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں تاریخی عمارات ہیں جن کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یونیسکو نے ٹمبکٹو کو عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔

2012 کے شروع میں مبینہ طور پر القاعدہ سے وابستہ انصار داعین گروہ نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد کئی تاریخی زیارت گاہوں کو مسمار کر دیا تھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ شریعت چھ انچ سے زیادہ ابھری ہوئی قبروں کی اجازت نہیں دیتی۔

منگل کے روز مالی میں فرانس کی سربراہی میں مسلمان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے والی افواج نے ٹمبکٹو کا محاصرے کے بعد شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔‘‘

وقت اشاعت: منگل 29 جنوری 2013 ,‭ 12:52 GMT 17:52 PST
ربط
 
آخری تدوین:

فرخ

محفلین
بہت خوب، اور بہت معلوماتی۔۔۔ بہت اچھی سیر کروا دی آپ نے ۔۔۔ ہمیشہ خوش رہئیے۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
بہت معلوماتی۔۔۔ آپ دونوں کا شکریہ۔۔۔۔ مزید کا انتظار رہے گا۔۔۔۔
تصویروں سے بہت زیادہ غربت ٹپک رہی ہے۔۔۔۔
 
صاحبو! نہ کمال ہمارا نہ تحریر ہماری۔ وہ تو حسان بھائی نے تمبکتو کی تصویریں لگا کر کمال کیا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں یہ وہی ٹمبکٹو تو نہیں جسے ہم ایک پراسرار اور دور دراز کی جگہ سمجھتے تھے۔ گوگل کیا تو بی بی سی کے الفاظ نے ہمیں اور بھی چونکا دیا۔

’’ٹمبکٹو کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک پراسرار، رومانوی اور دیومالائی مقام کا تصور آ جاتا ہے۔
بہت سوں کا تو یہ خیال تھا کہ شاید یہ کسی جغرافیائی مقام نہیں بلکہ کوئی داستانوی نام ہے۔‘‘

یعنی یہ تو بقول شاعر وہی بات ہوئی
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے​
پورا مضمون پڑھ جائیے اور سوچتے رہ جائیے کہ یہ تو ہمارا بھی تصور تھا ٹمبکٹو کے بارے میں۔ کیا کہتے ہیں احباب و اربابِ اختیار؟
 

arifkarim

معطل
برصغیر کی طرح اس کو بھی یورپی ممالک نے لوٹا، یہاں بھی کچھ لوگ برصغیر کی طرح ہونگے۔
برطانیہ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد بہت سے قدیم ممالک کی معیشتیں ویسے ہی لُٹ گئیں تھیں کہ انسانوں کی جگہ اب مشین نے لے لی تھی۔ اسکام کیلئے کسی سازش کا ہونا ضروری نہیں۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/صنعتی_انقلاب
 
Top