مانا کسی کے ہجر میں جلتے چلے گئے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مانا کسی کے ہجر میں جلتے چلے گئے
ہم اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے

راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے

وحشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے

رگ رگ میں جتنا خون تھا ان کو پلا دیا
خواہش کے جتنے سانپ تھے پلتے چلے گئے

سر موم کے تھے سب کے دھڑوں پر لگے ہوئے
پتھر کے لوگ چہرے بدلتے چلے گئے

پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے

شاہد کبھی فراز نہ آیا نشیب میں
پھسلے تو اس قدر کہ پھسلتے چلے گئے

برائے نشاندہی اغلاط ۔۔۔ بخدمت

محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 

الف عین

لائبریرین
راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے
یہ کس کا ذکر ہے، اگر شاعر کا خود کا ہے، تو یہاں ’کسی کے لئے اشک بہانا ہونا چاہئے تھا۔

حشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے
÷÷میں کہتا و شاید دوسرا مصرع یوں کہتا
س ہم سے دور دور نکلتے چلے گئے

یہ شعر سمجھ میں ہی نہیں آ سکا۔

پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خوبیوں کی طرف سفرجاری رکھئے، اغلاط نکلتی چلی جائیں گی۔
مطلعے کو اس طرح کیا ہے:
جب آتشِ فراق میں جلتے چلے گئے
ہم اُس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے ۔۔۔

راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے
یہ کس کا ذکر ہے، اگر شاعر کا خود کا ہے، تو یہاں ’کسی کے لئے اشک بہانا ہونا چاہئے تھا۔
۔۔۔ شاعر کا ذکر نہیں ہے ۔۔۔
حشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے
÷÷میں کہتا و شاید دوسرا مصرع یوں کہتا
س ہم سے دور دور نکلتے چلے گئے
۔۔۔اس سے شعر بہتر ہوتا ہے، آپ کا مصرع لے لیتا ہوں۔۔

یہ شعر سمجھ میں ہی نہیں آ سکا۔
پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے

۔۔۔پانی کی جگہ زہر دیا جارہا ہے۔۔
 
مانا کسی کے ہجر میں جلتے چلے گئے
ہم اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے

راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے

وحشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے

رگ رگ میں جتنا خون تھا ان کو پلا دیا
خواہش کے جتنے سانپ تھے پلتے چلے گئے

سر موم کے تھے سب کے دھڑوں پر لگے ہوئے
پتھر کے لوگ چہرے بدلتے چلے گئے

پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے

شاہد کبھی فراز نہ آیا نشیب میں
پھسلے تو اس قدر کہ پھسلتے چلے گئے

برائے نشاندہی اغلاط ۔۔۔ بخدمت

محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
لگی آگ دھیرے سے بڑھتی گئی
کہ دل رفتہ رفتہ مرا جل گیا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مطلعے کو اس طرح کیا ہے:
جب آتشِ فراق میں جلتے چلے گئے
ہم اُس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے ۔۔۔

۔
مطلعے کا مصرع اولیٰ بدلنے کے بعد مصرع ثانی سے غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی طرف دھیان نہیں گیا۔۔۔۔
ہم اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے ۔۔۔اس کی جگہ یوں کریں تو؟
جب آتش فراق میں جلتے چلے گئے
ہم تیرے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے
 
Top