شاہد شاہنواز
لائبریرین
مانا کسی کے ہجر میں جلتے چلے گئے
ہم اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے
راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے
وحشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے
رگ رگ میں جتنا خون تھا ان کو پلا دیا
خواہش کے جتنے سانپ تھے پلتے چلے گئے
سر موم کے تھے سب کے دھڑوں پر لگے ہوئے
پتھر کے لوگ چہرے بدلتے چلے گئے
پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے
شاہد کبھی فراز نہ آیا نشیب میں
پھسلے تو اس قدر کہ پھسلتے چلے گئے
برائے نشاندہی اغلاط ۔۔۔ بخدمت
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
ہم اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتے چلے گئے
راتیں کسی کی اشک بہانے میں کٹ گئیں
اور دن کسی کے سوگ میں ڈھلتے چلے گئے
وحشت نے کس مقام پہ تنہا کیا ہمیں
سب ہم سے کتنی دور نکلتے چلے گئے
رگ رگ میں جتنا خون تھا ان کو پلا دیا
خواہش کے جتنے سانپ تھے پلتے چلے گئے
سر موم کے تھے سب کے دھڑوں پر لگے ہوئے
پتھر کے لوگ چہرے بدلتے چلے گئے
پانی میں لوگ ڈھونڈنے نکلے تھے زندگی
تیزاب چھو کے جسم پگھلتے چلے گئے
شاہد کبھی فراز نہ آیا نشیب میں
پھسلے تو اس قدر کہ پھسلتے چلے گئے
برائے نشاندہی اغلاط ۔۔۔ بخدمت
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب