مانتا ہوں کسی کو نہ بھایا ہوں میں ۔۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مانتا ہوں کسی کو نہ بھایا ہوں میں
تیری چشمِ حسیں میں سمایا ہوں میں

دو گھڑی تجھ سے مل کے چلا جاؤں گا
دل کی اک بات کہنے کو آیا ہوں میں

راستہ تو مرے گھر کو جانے کا تھا
تیرے در تک اسے کھینچ لایا ہوں میں

میں دکھی ہو گیا دیکھ کر تیرے غم
تو جو ہنسنے لگا، مسکرایا ہوں میں

دل بڑا ہے مگر ہاتھ خالی سے ہیں
مثلِ ابرِ رواں سب پہ چھایا ہوں میں

سامنے ہوں مگر تو نہیں دیکھتا
آدمی ہوں، دھواں ہوں کہ سایہ ہوں میں

مجھ کو تکلیف دیتی ہے اک بات بس
آج اپنوں میں شاہدؔ پرایا ہوں میں

برائے توجہ محترم
الف عین
فلسفی
 

فلسفی

محفلین
بھائی پیشگی معذرت کے ساتھ چند گذارشات ہیں۔ آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی استاد محترم کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

مانتا ہوں کسی کو نہ بھایا ہوں میں
تیری چشمِ حسیں میں سمایا ہوں میں
مطلع دو لخت محسوس ہورہا ہے۔ ردیف میں "ہوں" کا محض "ہُ" تقطیع ہونا ۔۔۔ شاید اچھا نہیں۔

دو گھڑی تجھ سے مل کے چلا جاؤں گا
دل کی اک بات کہنے کو آیا ہوں میں
دوسرا مصرعے میں روانی متاثر ہے۔ الفاظ بدل کے دیکھیے۔

راستہ تو مرے گھر کو جانے کا تھا
تیرے در تک اسے کھینچ لایا ہوں میں
پہلے مصرعے میں "تو" دو حرفی فصیح نہیں لگتا۔ شاید تنافر کی کیفیت بھی ہے۔ الفاظ بدل کر دیکھیے۔

میں دکھی ہو گیا دیکھ کر تیرے غم
تو جو ہنسنے لگا، مسکرایا ہوں میں
"تیرا غم دیکھ کر میں دکھی ہو گیا" --- شاید زیادہ رواں ہے۔ یا "تیرے غم نے مجھے غم زدہ کر دیا"
اسی طرح "تُو جو خوش ہے تو اب مسکرایا ہوں میں" یا "تیرے ہنسنے پر اب مسکرایا ہوں میں"
دل بڑا ہے مگر ہاتھ خالی سے ہیں
مثلِ ابرِ رواں سب پہ چھایا ہوں میں
"خالی سے ہیں" سمجھ نہیں آیا۔ دوسرے مصرعے سے ربط بھی سمجھ نہیں آیا۔
سامنے ہوں مگر تو نہیں دیکھتا
آدمی ہوں، دھواں ہوں کہ سایہ ہوں میں
بہت خوب۔
مجھ کو تکلیف دیتی ہے اک بات بس
آج اپنوں میں شاہدؔ پرایا ہوں میں
ٹھیک۔
 

الف عین

لائبریرین
ردیف قابل قبول ہے، میں کیونکہ طویل کھنچ رہا ہے اس لیے ہُ کا سقم چھپ جاتا ہے
دو گھڑی تجھ سے مل کے چلا جاؤں گا
دل کی اک بات کہنے کو آیا ہوں میں
... تجھ سے مل کر... بہتر ہے

راستہ تو مرے گھر کو جانے کا تھا
... . تنافر دور کیا جا سکتا ہے
راہ تو جانے والی تھی یہ میرے گھر
یا اس طرح کا

دل بڑا ہے مگر ہاتھ خالی سے ہیں
'سے' واقعی اچھا نہیں
دل بڑا ہے مگر ہاتھ خالی مرے
کر دو

میں دکھی ہو گیا دیکھ کر تیرے غم
تو جو ہنسنے لگا، مسکرایا ہوں میں
... تیرے غم دیکھ کر
رواں ہو گا، باقی میرے خیال میں درست ہے
 

عرفان سعید

محفلین
شاید تنافر کی کیفیت بھی ہے۔ الفاظ بدل کر دیکھیے۔
فلسفی بھائی، معائبِ سخن کی اصطلاحات سے بالکل ناواقف ہوں۔ اس لیے ایک طالب علمانہ سوال ہے کہ یہاں "تنافر" سے کیا مراد ہے؟ تھوڑی سی وضاحت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی، معائبِ سخن کی اصطلاحات سے بالکل ناواقف ہوں۔ اس لیے ایک طالب علمانہ سوال ہے کہ یہاں "تنافر" سے کیا مراد ہے؟ تھوڑی سی وضاحت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔

بھیا کیوں مذاق کر رہے ہو، آپ تو کلاس میں مجھ سے سینئر ہو، خیر جو استادوں سے سنا اور سمجھا اس کے حساب سے اس مصرعے میں "ت" آپس میں ٹکرا رہا ہے

راستہ تو مرے گھر کو جانے کا تھا

"راستہ تو" میں تنافر محسوس ہوتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
خیر جو استادوں سے سنا اور سمجھا اس کے حساب سے اس مصرعے میں "ت" آپس میں ٹکرا رہا ہے
"راستہ تو" میں تنافر محسوس ہوتا ہے
عیبِ تنافر دیکھنے کے لیے میں اب تک صرف املاء پر ہی غور کرتا تھا۔
یہاں یہ الجھن اس لیے پیدا ہوئی کہ "راستہ" فاعلن تقطیع ہو رہا ہے اور 'راستہ' اور 'تو' دونوں کی 'ت' کے درمیان 'ہ' وارد ہو رہا ہے۔
ایسی صورت میں بھی کیا اسے تنافر ہی شمار کیا جائے گا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یبِ تنافر دیکھنے کے لیے میں اب تک صرف املاء پر ہی غور کرتا تھا۔
یہاں یہ الجھن اس لیے پیدا ہوئی کہ "راستہ" فاعلن تقطیع ہو رہا ہے اور 'راستہ' اور 'تو' دونوں کی 'ت' کے درمیان 'ہ' وارد ہو رہا ہے۔
ایسی صورت میں بھی کیا اسے تنافر ہی شمار کیا جائے گا؟

تنافر کا عیب بنیادی طور پر زبان میں (در اصل شعر میں ) نطق یعنی الفاظ کی صوتی ادائیگی میں حائل ہونے والے ثقالت کے تاثر پر منحصر ہو تا ہے ۔ یہ نہ صرف ایک ہی حروف کی متواتر تکرار پر لاگو ہوتا ہے بلکہ ان مشابہ حروف پر بھی لاگو ہوتا ہے جو نطق میں مشابہ ہو تے ہیں مثلاََ ح اور ہ یا س اور ز یا پھر ظ ض وغیرہ ۔ ان حروف کو قریب المخرج کہا جاتا ہے ۔ (قرآنی تجوید میں بھی ان کے بولنے میں خاص قواعد (الفاظ کے حصوں کو مدغم کرنا ) جو بہترین انداز سے پڑھنے میں استعمال ہوتے ہیں ) ۔
مذکورہ مثال میں تنافر محض اس وقت ہو سکتا تھا جب آپ کو بحر پابندی میں راستہ کی ہ کو سپریس کرنا پڑتا۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شعر میں بعض حالات میں ایک ہی حرف کی مسلسل تکرار (یعنی تنافر کا بظاہر وقوع ) ہوتے ہوئے بھی یہ عیب نہیں ہوتا کیوں کہ اس لفظ کو صوتی ادائیگی میں ادغام کے تحت مشدد کر کے پڑھنے میں بحر کی اصلی و حقیقی روانی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔
 

فلسفی

محفلین
عیبِ تنافر دیکھنے کے لیے میں اب تک صرف املاء پر ہی غور کرتا تھا۔
یہاں یہ الجھن اس لیے پیدا ہوئی کہ "راستہ" فاعلن تقطیع ہو رہا ہے اور 'راستہ' اور 'تو' دونوں کی 'ت' کے درمیان 'ہ' وارد ہو رہا ہے۔
ایسی صورت میں بھی کیا اسے تنافر ہی شمار کیا جائے گا؟

تنافر کا عیب بنیادی طور پر زبان میں (در اصل شعر میں ) نطق یعنی الفاظ کی صوتی ادائیگی میں حائل ہونے والے ثقالت کے تاثر پر منحصر ہو تا ہے ۔ یہ نہ صرف ایک ہی حروف کی متواتر تکرار پر لاگو ہوتا ہے بلکہ ان مشابہ حروف پر بھی لاگو ہوتا ہے جو نطق میں مشابہ ہو تے ہیں مثلاََ ح اور ہ یا س اور ز یا پھر ظ ض وغیرہ ۔ ان حروف کو قریب المخرج کہا جاتا ہے ۔ (قرآنی تجوید میں بھی ان کے بولنے میں خاص قواعد (الفاظ کے حصوں کو مدغم کرنا ) جو بہترین انداز سے پڑھنے میں استعمال ہوتے ہیں ) ۔
مذکورہ مثال میں تنافر محض اس وقت ہو سکتا تھا جب آپ کو بحر پابندی میں راستہ کی ہ کو سپریس کرنا پڑتا۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شعر میں بعض حالات میں ایک ہی حرف کی مسلسل تکرار (یعنی تنافر کا بظاہر وقوع ) ہوتے ہوئے بھی یہ عیب نہیں ہوتا کیوں کہ اس لفظ کو صوتی ادائیگی میں ادغام کے تحت مشدد کر کے پڑھنے میں بحر کی اصلی و حقیقی روانی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔

تکنیکی لحاظ سے بلاشبہ آپ حضرات مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ میں تو ایک عام قاری کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ "راستہ تو" میں "تہ تو" پڑھنے اور بولنے کے لحاظ سے کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
بہت شکریہ عاطف بھائی!
قرآنی تجوید میں بھی ان کے بولنے میں خاص قواعد (الفاظ کے حصوں کو مدغم کرنا ) جو بہترین انداز سے پڑھنے میں استعمال ہوتے ہیں ) ۔
یہ بہت دلچسپ بات بتائی!
اس کی کوئی مثال اگر فوری میسر ہو تو عنایت فرمائیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت شکریہ عاطف بھائی!
یہ بہت دلچسپ بات بتائی!
اس کی کوئی مثال اگر فوری میسر ہو تو عنایت فرمائیں۔
فأردت أن أعيبها
خضر علیہ السلام نے کہا کہ " میں نے ارادہ کیا کہ اس کو خراب کردوں" (کہف)
أردت ۔ یہاں دیکھیئے ارد ت میں ت ضمیر کے لیے ہے ۔ دال اور تے دونوں قریب المخرج حروف ہیں ان کا مخرج زبان کی نوک اور اوپر والے دو دانت ( ثنایا علیا) ہیں ۔
اب اس کی قراءت پر آئیں تو اس کو حقیققت میں اَرَتُّ پڑھا جاتا ہے یعنی دال کو نظر اندا ز کر کے ت کو مشدد کر دیا جاتا ہے یہ قرائت میں عام ہے اور ایسی اور بہت مثالیں ملیں گی ۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
فأردت أن أعيبها
خضر علیہ السلام نے کہا کہ " میں نے ارادہ کیا کہ اس کو خراب کردوں" (کہف)
أردت ۔ یہاں دیکھیئے ارد ت میں ضمیر کے لیے ہے ۔ دال اور تے دونوں قریب المخرج حروف ہیں ان کا مخرج زبان کی نوک اور اوپر والے دو دانت ( ثنایا علیا) ہیں ۔
اب اس کی قراءت پر آئیں تو اس کو حقیققت میں اَرَتُّ پڑھا جاتا ہے یعنی دال کو نظر اندا ز کر کے ت کو مشدد کر دیا جاتا ہے یہ قرائت میں عام ہے اور ایسی اور بہت مثالیں ملیں گی ۔
بہت شکریہ!
آپ نے توجہ دلائی تو بہت سے مقامات اب ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ نے توجہ دلائی تو بہت سے مقامات اب ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔
اسے یوں آسانی سے بیان کر سکتے ہیں کہ اگر کسی ساکن حرف کے بعد اس حرف کا کوئی قریب المخرج حرف آجائے (یا وہ حرف خود آجائے ) تو ساکن کو حذف کر کے متحرک کو مشدد کر کے پڑھ لیا جاتا ہے۔
اگر آپ نون ساکن اور تنوین (دو زبر وغیرہ) کے قاعدے دیکھیں تو آپ کو بے شمار جگہ نون بالکل غائب ہوتا اور ساتھ ہی لام اور ر مشدد ہوتا نظر آئے گا۔
آپ دیکھیں کہ نون اور لام و رے کا مخرج بھی ایک ہی ہے ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب تک جو صورت سمجھ میں آئی ہے ۔۔۔ وہ یہ ہے ۔۔۔

مانتا ہوں کسی کو نہ بھایا ہوں میں
تیری چشمِ حسیں میں سمایا ہوں میں

دو گھڑی تجھ سے مل کر چلا جاؤں گا
دل کی اک بات کہنے کو آیا ہوں میں

راہ تو جانے والی تھی یہ میرے گھر
تیرے در تک اسے کھینچ لایا ہوں میں

میں دکھی ہو گیا تیرے غم دیکھ کر
تو جو ہنسنے لگا، مسکرایا ہوں میں

دل بڑا ہے مگر ہاتھ خالی مرے
مثلِ ابرِ رواں سب پہ چھایا ہوں میں

سامنے ہوں مگر تو نہیں دیکھتا
آدمی ہوں، دھواں ہوں کہ سایہ ہوں میں

مجھ کو تکلیف دیتی ہے اک بات بس
آج اپنوں میں شاہدؔ پرایا ہوں میں

یہاں برادرم فلسفی کے مطابق مطلع ابھی تک دو لخت ہی ہے ۔۔۔ کچھ وقت کے بعد دوبارہ اس پر غور کرتا ہوں کہ کیا کیا جاسکتا ہے!
 
Top