مانگنے کا سلیقہ ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
اللہ عزوجل سے مانگنے کا یہ انداز بھی کیسا نرالا ہے۔۔۔

امام اصمعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
”ایک عرب دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے اللہ ! یہ تیرے حبیب ہیں، میں تیرا بندہ ہوں اور شیطان تیرا دشمن ہے۔ اگر تو مجھے معاف فرما دے تو تیرا حبیب خوش ہو گا، تیرا بندہ کامیاب ہو جائے گا اور تیرا دشمن غمگین ہو گا۔ مولا! اگر تو نے میری بخشش نہ فرمائی تو تیرا حبیب غمگین ہو گا، تیرا بندہ ناکام ہو جائے گا اور تیرا دشمن خوش ہو گا۔ الٰہی! تیری شان اس سے بلند ہے کہ تو اپنے حبیب کو غمگین کر دے ، اپنے بندے کو ناکام اور اپنے دشمن کو خوش کر دے۔۔۔ اے اللہ ! معزز عربوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان میں سے کوئی سردار فوت ہو جاتا ہے تو وہ اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ یہ تمام جہانوں کے سردار ہیں، لہٰذا ان کی قبر پر مجھے آزاد کر دے۔اصمی کہتے ہیں کہ میں نے اس بدوی سے کہا : اے عرب ! تیرے اندازِ سوال کی بنا پر تجھے معاف کر دیا گیا ہے۔“
(وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفي للسمھودي:214/4)

 
جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی
شکرِ خدا نوید نجات و ظفر کی ہے
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

سبحان اللہ کیا کہنے۔ سائل کا عقیدہ کچھ یوں ہے

مانگیں گے مانگے جائيں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
 
آخری تدوین:
Top