کاشفی
محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
مانگیں نہ ہم بہشت، نہ ہو واں اگر شراب
دوزخ میں ڈال دیجئے، دیجئے مگر شراب
زاہد کے بخت بد کی ہے خوبی، وگرنہ کیوں
چھوڑے کوئی شراب کی اُمید پر شراب
توبہ تو ہم نے کی ہے، پر اب تک یہ حال ہے
پانی بھر آئے منہ میں، دکھا دیں اگر شراب
گویا شراب ہی بھرا عمر کا قدح
موت اُس کی خوب ہے جو پیئے عمر بھر شراب
سمجھا نہیں کہ جیتے ہیں مردے اسی طرح
چھڑکے وگرنہ کیوں وہ مری خاک پہ شراب
ہے لطف زیست یہ کہ وہ بیٹھا ہو روبرو
بکھرے ہوں پھول اِدھر تو دھری ہو اُدھر شراب
بیخود کیا جہاں کو تری چشمِ مست نے
تھی کیسی اس پیالہ میں اے فتنہ گر شراب
چشمِ سیاہ مست، نگہ مست، آپ مست
پیتا ہے دل لگی کو بتِ عشوہ گر شراب
توبہ میں ہم نہ کھائیں گے الزام، کیا ہوا
اک آدھ بار پی گئے گر بھول کر شراب
مجروح بیش و کم سے یہاں کچھ غرض نہیں
سمجھے فتوح غیب ملے جس قدر شراب