ماں ! تیرے نام۔

ایم اے راجا

محفلین
تمام اہلیانِ محفل واہلِ سخن کو السلام علیکم۔
بہت عرسے بعد کچھ کہنے کی ہمت ہوئی ہے، سو ماں کے لیئے کچھ کہنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، اصلاح اور آرا کیلیئے پیشِ خدمت ہے۔


زندگی کو دوام تجھ سے ہے
میرا سب احترام تجھ سے ہے

گھر میں جو ہے وہ خوشبو تیری ہے
میرا عشقِ تمام تجھ سے ہے

رات دن ہے خیال اک تیرا
صبح تجھسے یہ شام تجھ سے ہے

دھوپ میں سائباں، دعا تیری
درد و غم کو لگام تجھ سے ہے

بات کرنا سکھا دیا تو نے
آج جو ہے مقام، تجھ سے ہے

شوق میرا ، رہے تری خدمت
ماں مری میرا نام تجھ سے ہے

سانس میری ، تری امانت ہے
زیست کا سب نظام تجھ سے ہے

جانِ راجا نثار تجھ پر ماں
زندہ تیرا غلام تجھ سے ہے
 

الف عین

لائبریرین
بس انتظار کرو ابھی دیکھوں گا راجا۔
لیکن اس درمیان خود ہی تقطیع کرو،کچھ مصرع بحر سے خارج ہیں۔ بحر کے افاعیل ہیں
فاعلاتن مفاعلن فعلن
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم مجھے افسوس ہیکہ مجھ سے غلطی ہو گئی، اصل میں میں نے لیپ ٹاپ پر ٹائپ کی تھی اور لائٹ تھی نہیں ٹائپنگ کی شدید غلطیاں ہو گئیں اور پھر میں نے چیک بھی نہیں کیا دوبارہ، میں درست کیئے دیتا ہوں، مزید آپ کی نظرِ کرم کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ارے بھائی کیا بات ہے، کیا اصلاح کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا ہے یا پھر یہ دھاگہ صرف ہمیں ہی نظر آتا ہے، باقی اہلِ سخن کی نظروں سے اوجھل ہے، وارث بھائی آپ آئے شکریہ کا بٹن دبایا اور چلے گئے کچھ تو کہتے جنابِ من۔
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب ہوئی نا بات!!
گھر میں جو ہے وہ خوشبو تیری ہے
میرا عشقِ تمام تجھ سے ہے
۔۔۔ پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے۔
مثلا
وہ جو خوشبو ہے گھر میں، تیری ہے

رات دن ہے خیال اک تیرا
صبح تجھ سے یہ شام تجھ سے ہے
۔۔ رات دن بس خیال ہے تیرا
بہتر مصرع ہے

بات کرنا سکھا دیا تو نے
آج جو ہے مقام، تجھ سے ہے
۔۔ پہلے مصرع میں ماضی بعید کا کچھ قرینہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً
بات کرنا سکھایا تھا تو نے

شوق میرا ، رہے تری خدمت
ماں مری میرا نام تجھ سے ہے
۔۔۔ شوق کیوں، اس کو کچھ اور لفظ کہو، جیسے
میرا مذہب رہے تری خدمت
۔۔۔ اور دوسرا مصرع بھی بدل دو، ماں مِری کو ماں مَری بھی پڑھا جا سکتا ہے
میری ماں، میرا نام۔۔۔۔

جانِ راجا نثار تجھ پر ماں
زندہ تیرا غلام تجھ سے ہے
مقطع مجھے پسند نہیں آیا، کچھ اور کہو۔
باقی اشعار درست ہیں بلکہ اچھے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ استادِ محترم۔
میں نے آپکے نشاندہی شدہ اشعار کو کچھ یوں تبدیل کیا ہے، آپکا کیا فرماتے ہیں؟

1۔ ہاں اب ہوئی نا بات!!
گھر میں جو ہے وہ خوشبو تیری ہے
میرا عشقِ تمام تجھ سے ہے
۔۔۔ پہلے مصرع میں بہتری کی گنجائش ہے۔
مثلا
وہ جو خوشبو ہے گھر میں، تیری ہے

مہکا مہکا ہے گھر تری خوشبو سے یا گھر ہے مہکا ہوا تری خوشبو سے
میر ا عشقِ تمام تجھ سے


رات دن ہے خیال اک تیرا
صبح تجھ سے یہ شام تجھ سے ہے
۔۔ رات دن بس خیال ہے تیرا
بہتر مصرع ہے

اگر اسکو یوں کیا جائے تو؟

رات دن ہے خیال بس تیرا
صبح تجھسے یہ شام تجھ سے ہے


بات کرنا سکھا دیا تو نے
آج جو ہے مقام، تجھ سے ہے
۔۔ پہلے مصرع میں ماضی بعید کا کچھ قرینہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً
بات کرنا سکھایا تھا تو نے

سر میں نے یو ہی کہا تھا مگر پھر سوچا کے “سکھایا“ کا “الف“ “ ی“ کے بعد گرنا شاید جائز نہیں، پلیز رہنمائی کریں کہ کیا یہ جائز ہے؟

شوق میرا ، رہے تری خدمت
ماں مری میرا نام تجھ سے ہے
۔۔۔ شوق کیوں، اس کو کچھ اور لفظ کہو، جیسے
میرا مذہب رہے تری خدمت
۔۔۔ اور دوسرا مصرع بھی بدل دو، ماں مِری کو ماں مَری بھی پڑھا جا سکتا ہے
میری ماں، میرا نام۔۔۔۔

سر اگر اس شعر کو یوں کر دیا جائے تو؟

دین میرا ہو تیری ہی خدمت یا دین میرا رہے تری خدمت
میری ماں! میرا نام تجھ سے ہے



باقی سر مقطع مجھے ابھی نہیں مل رہا، اسکے لیئے کچھ سوچتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مہکا مہکا ہے گھر تری خوشبو سے
یا
گھر ہے مہکا ہوا تری خوشبو سے
تو بحر سے خارج مصرعے ہیں!!

رات دن ہے خیال بس تیرا
درست تو ہے لیکن مجھے میرا مجوزہ مصرع ہی زیادہ رواں لگ رہا ہے۔

بات کرنا سکھایا تھا تو نے
میں الف کا گرنا جائز ہے، تم کو شک کیوں ہوا؟

دین میرا ہو تیری ہی خدمت
یا
دین میرا رہے تری خدمت
میں دوسرا مصرع زیادہ رواں ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ محترم استاد۔ اصل میں مجھے سکھایا میں شک ہوا کہ، ی کے بعد ا کا گرانا جائز نہیں کیا ہم ی کے بعد بھی الف کو ہر جگہ گرا سکتے ہیں؟

آپکے مصرعے میں نے شامل کر لیئے ہیں،مہکا مہکا میں واقعی میں اتنا مہک گیا کہ یہ خیال ہی نہ رہا کہ مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ بہت شکریہ استادِ محترم۔
 

ایم اے راجا

محفلین
زندگی کو دوام تجھ سے ہے
میرا سب احترام تجھ سے ہے

یہ جو خوشبو ہے گھر میں، تیری ہے
میرا عشقِ تمام تجھ سے ہے

رات دن بس خیال ہے تیرا
صبح تجھ سے یہ شام تجھ سے ہے

دھوپ میں سائباں، دعا تیری
درد و غم کو لگام تجھ سے ہے

بات کرنا سکھایا تھا تو نے
آج جو ہے مقام، تجھ سے ہے

دین میرا رہے تری خدمت
میری ماں میرا نام تجھ سے ہے

سانس میری ، تری امانت ہے
زیست کا سب نظام تجھ سے ہے

جانِ راجا نثار تجھ پر ماں
زندہ تیرا غلام تجھ سے ہے
 

الف عین

لائبریرین
میں تو بھئی عملی آدمی ہوں، تھیوری کے حساب سے کہاں کہاں گرانا جائز ہے، وہ وارث کو علم ہو گا۔
ہاں۔ ’یہ جو خوشبو‘ درست بلکہ بہتر ہے۔
مقطع پر میں ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں۔
احباب کا کیا خیال ہے؟
 

مغزل

محفلین
عروضی حوالے سے تو بات ہوہی چکی، نفسِ مضمون پر کوئی بات (کم از کم میری جانب سے) نہیں کی جاسکتی ہے ، یہ ایک شاعر کا اپنی ماں سے اظہارِ عقیدت ہے ۔ جس میں کسی کو دخل نہیں ، بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ماں کے حوالے سےمتاخرین اور متوسطین کاکلام پڑھیں تاکہ کلام میں عقیدت ، پیرایہ اظہار اور رنگ میں قدرت حاصل ہوسکے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 

محمد وارث

لائبریرین
معذرت چاہتا ہوں راجا صاحب کہ کچھ "غیر ضروری" مصروفیات نے گھیرا ہوا ہے۔

مغل صاحب نے بہت اچھی بات کہی ہے۔

والسلام

شکریہ، سر رہے وارث صاحب تو ان سے درخواست ہے پلیز یہاں آئیں اور اپنی قیمتی رائے سسے نوازیں۔ شکریہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رات دن بس خیال ہے تیرا
صبح تجھسے یہ شام تجھ سے ہے

راجا صاحب تجھسے کو "تجھ سے" لکھیں تو زیادہ اچھا ہے۔
آپ کی اکثر تحاریر میں "ہے کہ" کو "ہیکہ" لکھا دیکھا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عروضی حوالے سے تو بات ہوہی چکی، نفسِ مضمون پر کوئی بات (کم از کم میری جانب سے) نہیں کی جاسکتی ہے ، یہ ایک شاعر کا اپنی ماں سے اظہارِ عقیدت ہے ۔ جس میں کسی کو دخل نہیں ، بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ماں کے حوالے سےمتاخرین اور متوستین کاکلام پڑھیں تاکہ کلام میں عقیدت ، پیرایہ اظہار اور رنگ میں قدرت حاصل ہوسکے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
مغل بھائی متوستین کیا ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث صاحب، مغل صاحب اور نظامی صاحب بہت شکریہ میرے ناقص علم میں اضافہ فرمانے کا۔
جی نظامی صاحب آپ نے درست فرمایا، میں (ہے کہ) کو (ہیکہ) لکھ دیتا ہوں اور (تجھ سے) کو تجھسے لکھا ہے، میں یہ ایک مصرعے کی دوسرے مصرعے سے طوالت کو گھٹانے کیلیئے لکھتا ہوں، محتم اگر آپ یہ فرما دیتے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو یقینا بندے کے علم میں اضافہ ہوتا، اسلیئے بندہ گزارش کرتا ہے، شکریہ۔
 

مدرس

محفلین
سبحان اللہ کیا اچھی بات ہے سیکھنا سکھانا جاری ہے
ماں تو بس ماں ہے سارے جذبات ماں کے آگے ہیچ ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
وارث صاحب، مغل صاحب اور نظامی صاحب بہت شکریہ میرے ناقص علم میں اضافہ فرمانے کا۔
جی نظامی صاحب آپ نے درست فرمایا، میں (ہے کہ) کو (ہیکہ) لکھ دیتا ہوں اور (تجھ سے) کو تجھسے لکھا ہے، میں یہ ایک مصرعے کی دوسرے مصرعے سے طوالت کو گھٹانے کیلیئے لکھتا ہوں، محتم اگر آپ یہ فرما دیتے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو یقینا بندے کے علم میں اضافہ ہوتا، اسلیئے بندہ گزارش کرتا ہے، شکریہ۔
راجا صاحب آپ نے پوچھا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ جب شعراء اس طرح لکھیں گے تو عوام الناس کے ذہنوں میں اس سے یہ مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ "ہیکہ" یا "تجھسے" لکھنا بھی معیار ہے۔
 
Top