خاورچودھری
محفلین
”ماں !میں تھک گیا ہوں“
خاورچودھری
اُردو اَدب خصوصاً نثری ادب میں داستان گوئی ،رپورتاژنگاری ،سفرنامہ نگاری کے ساتھ ساتھ آپ بیتیاں لکھنے کاچلن بھی عام ہے۔اگرچہ اس صنف کی طرف آنے والوں کی تعداد کم ہے مگرپھر بھی اُردو اَدب کو اس حوالے سے”غریب “ نہیں کہا جا سکتا۔قدرت اللہ شہاب کی”شہاب نامہ“ ہو یاممتازمفتی کی ”علی پور کاایلی“ اور ”الکھ نگری“یاپھرجوش ملیح آبادی کی ” یادوں کی برات“سبھی نے اُردوکے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ان آپ بیتیوں میں بہ یک وقت دو لہریں اُٹھتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ایک لہرجس کاتعلق انسان کی داخلی زندگی سے ہے اوردوسری موج جوخارجی زندگی کو محیط ہے۔ان درون و بیرن لہروں سے جوفضا قائم ہوتی ہے وہ ان تحریروں کوآپ بیتی کارُخ بھی دیتی ہے اور جگ بیتی کا بھی۔یہی وہ خوبی ہے جوان کتابوں کودوام بخش رہی ہے۔اتناعرصہ گزرجانے کے باوجودان آپ بیتیوں کوپڑھنے اورپڑھتے رہنے کی خواہش بیدار ہے۔آخرالذکرآپ بیتی پرکئی ایک اعتراضات کے باوجوداس کے پڑھنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ذاتی پسند و ناپسند کوایک طرف رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس آپ بیتی نے بھی اُردو ادب کوکسی حدتک مالامال کیا ہے۔
آپ بیتی لکھنابجائے خود بہت مشکل کام ہے۔اپنی ذات کاہرہر گوشہ ظاہرکرنااگرناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔کون ایسا ہوگا جواپنے سیاہ وسفید کو پوری ایمانداری کے ساتھ کاغذ کے سینے پر اُتارکرچوراہے میں نمایش کے لیے رکھ سکے؟ایسا یقینا ناممکن ہے ۔کیوں کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہ ہر حال اپنے آپ کوبچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔مبادا کہیں کوئی جملہ زباں سے سرک جائے اورپھرعمربھرکاروگ ہو جائے۔اپنی ناآسودہ خواہشات،منفی رویوں، لایعنیوں اوربے دماغیوں کو احاطہ ٴ تحریر میں لانا تو ہے ہی مشکل، دوسروں کی خوبیوں اور خرابیوں کو پوری ایمانداری سے کاغذ پرمنتقل کرنا بھی کچھ کم صبر آزما نہیں۔تعریف میں کہیں دو لفظ زیادہ لکھ دیے تواقرباپروری کا الزام اوراگرتنقیص کے کچھ لفظ ظاہر ہوجائیں تو بخل اور کینہ کا بہتان لگ جاتا ہے۔گویا اس صنف کا لکھنے والا پلِ صراط کامسافرہوتا ہے۔اس مشکل مسافرت کے لیے تیار ہونا کارِ محال ہی تو ہے مگرپھر بھی بعض لوگ اس سفر کو طے کرنا کا حوصلہ رکھتے ہیں۔وقار بن الٰہی بھی انھی جی داروں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے نصف صدی کا ادبی سفرطے کرنے کے بعداس مشکل کا م کا بیڑا اُٹھایااورکمال مہارت سے اسے تکمیلیت کے منصب تک پہنچایا۔وقاربن الٰہی نے اپنی آپ بیتی کو ایک اور جہت سے یوں ہم کنار کیا کہ اسے”ماں، میں تھک گیا ہوں“ کا عنوان دے دیا۔ یہ عنوان بجائے خود بہت سی پرتیں اوربوقلمونیاں رکھتا ہے۔جس قدرمٹھاس اورخودسپردگی اس عنوان سے ظاہر ہے وہ کم کم کسی کا نصیب ہوتی ہے۔کوکھ سے جننے والی ماں ہی ہر مشکل میں سہارا نظرآتی ہے اورجب بھی کبھی غم کی شدت سوا ہوجاتی ہے توماں ہی کو پکارا جاتا ہے اور یہ عمل ہمیشہ اپنی پوری بے ساختگی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا کہہ اُٹھتا ہے:
مائے نی میں کنوں آکھاں
ماں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنادُکھ بیان بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔وہی توایک ہستی ہے جواولاد کی ساری مصیبتوں اورزخموں کو اپناسمجھتی ہے،اولادکے سیاہ و سفید کو ڈھانپتی ہے۔یہ عنوان ہی ہے جو اس کتاب کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
” ماں ، میں تھک گیا ہوں“ ایک ایسے شخص کی آپ بیتی ہے جس نے اس سرزمین کودوحصوں میں بٹتے اورپھر تقسیم کے عمل سے نکل آنے والے خون کی ندیوں کو جاری دیکھا۔زخموں پرپھاہارکھنے کے عمل کوجانا،سمجھا اورپھراپنی قوت اورحیثیت کے مطابق کھرنڈآئے زخموں کی نگہداشت کی۔یہی سبب ہے کہ یہ آپ بیتی دوسری خودنوشتوں سے قدرے مختلف ہے۔سراسرذات ہی کااظہار نہیں بلکہ مٹی کی مہک اورمٹی پرچلنے والوں کی تصویریں بھی نمایاں ہیں۔آدمی کو گزرے ہوئے برسوں کے چہروں سے گردہٹانا نہیں پڑتی بلکہ ہرہرمنظرخود بہ خود واضح ہوتا جاتا ہے۔ہماری قومی زندگی کی المناکیوں،خود پرستیوں،خودغرضیوں اور ہوس پرستیوں کی تمام ترداستانیں ایک ایک کر کے سنائی دیتی ہیں۔چھیناجھپٹی،ماردھاڑاوربے رحمی سے بھرپوریہ کہانیاں سوچنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں،دیکھنے والوں کو بہت کچھ دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔کوئی صاحبِ دماغ ہویادیدہٴ بینارکھتا ہوتوسمجھ جائے کہ ہمارے ساتھ کیابیتی اور کیا بیت سکتی ہے۔ بہ ہر حال آپ بیتی،جگ بیتی بھی ہوتی ہے۔ہمارے ماضی،حال اور مستقبل کے عکس اس آپ بیتی میں موجود ہیں۔
مصنف کے والدانگریزفوج کے ملازم تھے اورجنگ عظیم میں جاپانیوں کے قیدی بنے۔یہی وہ دور ہے جس کابیان وقاربن الٰہی نے اس خوبی سے کیا ہے کہ وہ رنگ پوری کتاب پر حاوی ہے۔بچپنے کی شرارتیں،ماحول،ترجیحات اورخاندان سے جُڑت اور پیوستگی کا اظہار اس قرینے اورسلیقے سے ہوا ہے کہ پڑھنے والا اپنے بچپن کی گلیوں میں اُترے بنا رہ ہی نہیں پاتا۔ایک ایک واقعہ اور ایک ایک بات، ایک کے بعد ایک اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ محسوس ہوتاہے کہ تمام مناظراپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں جیسے۔بغیرملمع کاری کے لکھے گئے یہ واقعات اتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ آدمی پوری کتاب پڑھے بنارہ نہیں سکتا۔اپنے بچپن کے ساتھیوں،اسکول اورکالج کے اساتذہ اوراپنی مصروفیات کاتذکرہ کرتے وقت مصنف نے خوبیوں اورخرابیوں کوبھی ساتھ ساتھ گنوایا ہے۔اگرماسٹرگلو کا تذکرہ کیا ہے تو اس طرح کہ آج کے گلووٴں کے چہروں پر سے بھی نقاب اُترجاتا ہے۔پروفیسرعثمان کاتذکرہ کیا ہے توآج کے لوگ بھی سامنے آجاتے ہیں۔
والدکی فوج میں ملازمت کافایدہ یوں ہوا کہ کئی ایک علاقے گھومنے اورکئی ایک تعلیمی اداروں میں پڑھنے کاموقع مصنف کوملاجویقینابہت سے مشاہدات اور تجربات سے ہم کنارکرگیا۔اُن تجربوں اورمشاہدوں کوبھی خوبی سے بیان کیا گیا۔البتہ دو حوالوں سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ قدآور اساتذہ، نامور دوستوں اور تعلق داروں کاتذکرہ بس تذکرے کے لیے ہی کیا گیا۔یقینامصنف نے اس ضمن میں کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ورنہ ڈاکٹرعبداللہ،قدرت اللہ شہاب اور ممتازمفتی سمیت کئی ایک مشاہیر کے ساتھ ملاقاتوں کااحوال کئی سوصفحات کومحیط ہوسکتا تھا۔تاہم منشایاد سے اپنے تعلق کو قدرے سے تفصیل سے بیان کیا۔ دوسرا یہ کہ کالج کی زندگی اورجوانی کے دنوں کوصرف فلمی میگزین کے شوق تک محدودرکھ کر بیان کیا گیااوراُس زمانے کاجوخاصہ ہوتا ہے اُسے کمال مہارت سے چھپا لیا۔کتاب کے آخر میں جا کر کہیں اعتراف کیا گیا کہ ” ہاں ! عشق بھی ہوا تھا مگرماں کے سامنے ایک نہ چلی اور وہ بِن دیکھی لڑکی بیاہ کر لے آئیں۔“یہ تذکرہ بھی یہیں تک ہے۔دیگرخودنوشتوں کی طرح ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “کے مصنف نے اس طرف توجہ کم دی ہے، البتہ صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر دوست کی داستانِ عشق بیان کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔اگرچہ یہ ضروری تو نہیں لیکن رائج خودنوشتوں کے سامنے یہاں یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ مصنف نے شریک زندگی کے لیے ” کُھرچن “ کا لفظ استعمال کر کے ایک وسیع تر فلسفے کو بیان کیا ہے۔ یہ لفظ معنوی اعتبار سے اس قدر امیر ہے کہ کوئی اوراس کابدل ہو ہی نہیں سکتا اور اس لفظ سے جو کام لیا گیا ہے شاید ہی کسی اور نے لیا ہو۔
کتاب کا زیادہ حصہ ملازمت کی کار گزاری پرمشتمل ہے ۔ مختلف کالجوں میں پڑھانے اور پھر وزارت تعلیم میں کئی عہدوں پر فرائض انجام دیتے ہوئے جن حالات اورلوگوں کا سامنا ہوا انھیں قلم بند کر کے مصنف نے وہ حالات قاری کو پڑھنے کے لیے دیے ہیں جو عمومی طور پر بیان نہیں کیے جاتے۔ رفقائے کار کی آپس میں کھینچا تانی، وزارتوں میں لا یعنیوں پر وقت لگانا، قومی سرمایے کو تعیشات اور فضول کاموں پر ضائع کرنا، کاغذی منصوبے بنانا اور بناتے ہی رہنا ، غیر ملکی قرضوں سے ذاتی سہولیات کا سامان خریدنا، بندر بانٹ ، سکالر شپ کے نام پر اقربا پروری اور بونے لوگوں کو نامزد کرنا، نظامِ تعلیم میں ہزارہا خرابیوں کی اصلاح چھوڑ کر نئی نئی پالیسیاں بنانا،بوٹی مافیا میں خود اداروں کا شریک ہونا،قومی اخراجات پر لاحاصل غیر ملکی دورے کرنا،بے معنی و بے مقصد سیمی نارز اور واک کرنا، این جی اوز اور نیم سرکاری اداروں میں بیٹھ کر قوم کے لیے ملنے والی رقوم کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنا ایسے ہی واقعات ہیں جنھیں عام طور پر نہیں لکھا جاتا۔ خصوصاً وہ لوگ نہیں لکھتے جو ان اداروں یا واقعات کے کسی طرح بھی قریب رہے ہوں۔ بھائی بندوں کی پردہ داری کے اس رواج کو مصنف نے توڑنے کی خوش کن کوشش کی ہے۔ تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس جمع تفریق اور جوت طاق کے عمل سے گزرتے ہوئے قاری کو یقیناتھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ان باتوں کا بیان اس انداز سے کیا گیا ہے کہ قاری کی دل چسپی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تھکاوٹ کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اُس مقام تک پہنچ جاتا جہاں مصنف نے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کا چشمہ لگا رکھا ہے۔ پھر قاری خوب سیر ہو کر اپنی پیاس بجھاتا ہے اور تازہ دم ہوکر کتاب کے اختتامیہ کی جانب بڑھنے لگتا ہے ۔ مصنف کمال مہارت سے وزارتی اور دیگر امور کی کارگزاری سے نکال کر ”ماں“ کے تذکرے پر لے آتا ہے۔ یہی نقطہ ٴ عروج ہے۔ماں کے بیان اور سلوک کی جوتصویر مصنف کھینچ کر ہمارے سامنے لاتا ہے ،اُسے اَمرکردیتا ہے۔ماں سے جڑی ہوئی تمام محبتیں اور خوش سلیقگی اس خوبی سے بیان کی گئی ہے کہ بار بار یہ حصہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہی نہیں بلکہ عورت(دادی،ماں،بہن،بیوی ،بیٹی اورساس)سے متعلق مصنف کا انداز تحریر اپنے اندر وارفتگی کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے آپ کو قلم کے سپرد کردیا ہے اور خودسپردگی کے اس عالم میں دریا کی روانی کی طرح بہے چلے جا رہا ہے۔جس قدر شیرینی اورلوچ اس حصے میں ہی باقی حصوں میں وہ مقدار قدرے کم ہے۔گویا ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “کا ماحصل یہیں ہے۔ عورت کی تکریم کا جذبہ یہاں عام لوگوں کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بوڑھے دادا ،والد،بھائیوں اور بیٹے کا تذکرہ بھی کمال محبت سے کیا گیا ہے۔
” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ ہوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں سفرنامے کا لطف بھی دَر آیا ہے۔ مصنف نے دورانِ تعلیم یا پھر ملازمت کے عرصے میں جن جن علاقوں اورممالک کے دورے کیے وہاں کی ایسی منظرکشی کی کہ وہ تمام مناظر قاری کی آنکھوں میں خود بہ خود اُترجاتے ہیں۔ خصوصاً چین میں گزارے گئے دو سالوں کا احاطہ انتہائی خوش سلیقگی سے کیا گیا ہے۔اسی طرح شمالی علاقوں کے اسفار بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہیں۔ دیگر ممالک اور شہروں کے اسفار کی قلمی تصاویر بھی خوبی اور احتیاط سے اُتاری گئی ہیں۔ گویا ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ بہ یک وقت آپ بیتی اور سفر نامہ ہے۔ ایک اور قابلِ بیان بات یہ ہے کہ مصنف کے اندر ٹھہراوٴ ہے اور یہی ٹھہراوٴ تحریر میں واضح نظر آتا ہے۔کسی بھی مرحلے پر اعتدال کی حدوں سے نکلنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ نمایاں خوبیاں میں سے ایک خوبی یہ ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلے قدم سے آخری قدم تک تمام سفر کے دوران شکر گزاری کا راستہ اختیار کیا۔ جتنی بھی ترقی کی منازل طے کیں انھیں مالک کا کرم قرار دیا اور کہیں کوئی بھول چوک ہوئی اسے اپنی خطا سمجھا۔ یہ رویہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان رکھنے والوں کا ہی ہو سکتا ہے۔ ورنہ تو یہی کہتے سنا ہے ” آج میں جس مقام پر ہوں اس کے لیے میں نے سخت محنت کی ہے “۔
بلا خوفِ تردید میں کہہ سکتا ہوں کہ ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ اُردو اَدب میں گراں قدر اضافہ ہے اور(خصوصاً)نئے لکھنے والوں کے لیے سمت نما بھی۔کیوں کہ یہ کتاب مصنف کے تجربات و مشاہدات تو ظاہرکرتی ہی ہے مگرزندگی کے لیے راستوں کا تعین بھی کر جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کوئی کتاب مطالعے کے بعدکچھ دے جائے تواُسے انعام ہی سمجھنا چاہیے۔بہت کم کتابیں ہوتی ہیں جو کچھ دے کر جاتی ہیں۔
خاورچودھری
اُردو اَدب خصوصاً نثری ادب میں داستان گوئی ،رپورتاژنگاری ،سفرنامہ نگاری کے ساتھ ساتھ آپ بیتیاں لکھنے کاچلن بھی عام ہے۔اگرچہ اس صنف کی طرف آنے والوں کی تعداد کم ہے مگرپھر بھی اُردو اَدب کو اس حوالے سے”غریب “ نہیں کہا جا سکتا۔قدرت اللہ شہاب کی”شہاب نامہ“ ہو یاممتازمفتی کی ”علی پور کاایلی“ اور ”الکھ نگری“یاپھرجوش ملیح آبادی کی ” یادوں کی برات“سبھی نے اُردوکے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ان آپ بیتیوں میں بہ یک وقت دو لہریں اُٹھتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ایک لہرجس کاتعلق انسان کی داخلی زندگی سے ہے اوردوسری موج جوخارجی زندگی کو محیط ہے۔ان درون و بیرن لہروں سے جوفضا قائم ہوتی ہے وہ ان تحریروں کوآپ بیتی کارُخ بھی دیتی ہے اور جگ بیتی کا بھی۔یہی وہ خوبی ہے جوان کتابوں کودوام بخش رہی ہے۔اتناعرصہ گزرجانے کے باوجودان آپ بیتیوں کوپڑھنے اورپڑھتے رہنے کی خواہش بیدار ہے۔آخرالذکرآپ بیتی پرکئی ایک اعتراضات کے باوجوداس کے پڑھنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ذاتی پسند و ناپسند کوایک طرف رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس آپ بیتی نے بھی اُردو ادب کوکسی حدتک مالامال کیا ہے۔
آپ بیتی لکھنابجائے خود بہت مشکل کام ہے۔اپنی ذات کاہرہر گوشہ ظاہرکرنااگرناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔کون ایسا ہوگا جواپنے سیاہ وسفید کو پوری ایمانداری کے ساتھ کاغذ کے سینے پر اُتارکرچوراہے میں نمایش کے لیے رکھ سکے؟ایسا یقینا ناممکن ہے ۔کیوں کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہ ہر حال اپنے آپ کوبچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔مبادا کہیں کوئی جملہ زباں سے سرک جائے اورپھرعمربھرکاروگ ہو جائے۔اپنی ناآسودہ خواہشات،منفی رویوں، لایعنیوں اوربے دماغیوں کو احاطہ ٴ تحریر میں لانا تو ہے ہی مشکل، دوسروں کی خوبیوں اور خرابیوں کو پوری ایمانداری سے کاغذ پرمنتقل کرنا بھی کچھ کم صبر آزما نہیں۔تعریف میں کہیں دو لفظ زیادہ لکھ دیے تواقرباپروری کا الزام اوراگرتنقیص کے کچھ لفظ ظاہر ہوجائیں تو بخل اور کینہ کا بہتان لگ جاتا ہے۔گویا اس صنف کا لکھنے والا پلِ صراط کامسافرہوتا ہے۔اس مشکل مسافرت کے لیے تیار ہونا کارِ محال ہی تو ہے مگرپھر بھی بعض لوگ اس سفر کو طے کرنا کا حوصلہ رکھتے ہیں۔وقار بن الٰہی بھی انھی جی داروں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے نصف صدی کا ادبی سفرطے کرنے کے بعداس مشکل کا م کا بیڑا اُٹھایااورکمال مہارت سے اسے تکمیلیت کے منصب تک پہنچایا۔وقاربن الٰہی نے اپنی آپ بیتی کو ایک اور جہت سے یوں ہم کنار کیا کہ اسے”ماں، میں تھک گیا ہوں“ کا عنوان دے دیا۔ یہ عنوان بجائے خود بہت سی پرتیں اوربوقلمونیاں رکھتا ہے۔جس قدرمٹھاس اورخودسپردگی اس عنوان سے ظاہر ہے وہ کم کم کسی کا نصیب ہوتی ہے۔کوکھ سے جننے والی ماں ہی ہر مشکل میں سہارا نظرآتی ہے اورجب بھی کبھی غم کی شدت سوا ہوجاتی ہے توماں ہی کو پکارا جاتا ہے اور یہ عمل ہمیشہ اپنی پوری بے ساختگی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا کہہ اُٹھتا ہے:
مائے نی میں کنوں آکھاں
ماں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنادُکھ بیان بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔وہی توایک ہستی ہے جواولاد کی ساری مصیبتوں اورزخموں کو اپناسمجھتی ہے،اولادکے سیاہ و سفید کو ڈھانپتی ہے۔یہ عنوان ہی ہے جو اس کتاب کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
” ماں ، میں تھک گیا ہوں“ ایک ایسے شخص کی آپ بیتی ہے جس نے اس سرزمین کودوحصوں میں بٹتے اورپھر تقسیم کے عمل سے نکل آنے والے خون کی ندیوں کو جاری دیکھا۔زخموں پرپھاہارکھنے کے عمل کوجانا،سمجھا اورپھراپنی قوت اورحیثیت کے مطابق کھرنڈآئے زخموں کی نگہداشت کی۔یہی سبب ہے کہ یہ آپ بیتی دوسری خودنوشتوں سے قدرے مختلف ہے۔سراسرذات ہی کااظہار نہیں بلکہ مٹی کی مہک اورمٹی پرچلنے والوں کی تصویریں بھی نمایاں ہیں۔آدمی کو گزرے ہوئے برسوں کے چہروں سے گردہٹانا نہیں پڑتی بلکہ ہرہرمنظرخود بہ خود واضح ہوتا جاتا ہے۔ہماری قومی زندگی کی المناکیوں،خود پرستیوں،خودغرضیوں اور ہوس پرستیوں کی تمام ترداستانیں ایک ایک کر کے سنائی دیتی ہیں۔چھیناجھپٹی،ماردھاڑاوربے رحمی سے بھرپوریہ کہانیاں سوچنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں،دیکھنے والوں کو بہت کچھ دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔کوئی صاحبِ دماغ ہویادیدہٴ بینارکھتا ہوتوسمجھ جائے کہ ہمارے ساتھ کیابیتی اور کیا بیت سکتی ہے۔ بہ ہر حال آپ بیتی،جگ بیتی بھی ہوتی ہے۔ہمارے ماضی،حال اور مستقبل کے عکس اس آپ بیتی میں موجود ہیں۔
مصنف کے والدانگریزفوج کے ملازم تھے اورجنگ عظیم میں جاپانیوں کے قیدی بنے۔یہی وہ دور ہے جس کابیان وقاربن الٰہی نے اس خوبی سے کیا ہے کہ وہ رنگ پوری کتاب پر حاوی ہے۔بچپنے کی شرارتیں،ماحول،ترجیحات اورخاندان سے جُڑت اور پیوستگی کا اظہار اس قرینے اورسلیقے سے ہوا ہے کہ پڑھنے والا اپنے بچپن کی گلیوں میں اُترے بنا رہ ہی نہیں پاتا۔ایک ایک واقعہ اور ایک ایک بات، ایک کے بعد ایک اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ محسوس ہوتاہے کہ تمام مناظراپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں جیسے۔بغیرملمع کاری کے لکھے گئے یہ واقعات اتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ آدمی پوری کتاب پڑھے بنارہ نہیں سکتا۔اپنے بچپن کے ساتھیوں،اسکول اورکالج کے اساتذہ اوراپنی مصروفیات کاتذکرہ کرتے وقت مصنف نے خوبیوں اورخرابیوں کوبھی ساتھ ساتھ گنوایا ہے۔اگرماسٹرگلو کا تذکرہ کیا ہے تو اس طرح کہ آج کے گلووٴں کے چہروں پر سے بھی نقاب اُترجاتا ہے۔پروفیسرعثمان کاتذکرہ کیا ہے توآج کے لوگ بھی سامنے آجاتے ہیں۔
والدکی فوج میں ملازمت کافایدہ یوں ہوا کہ کئی ایک علاقے گھومنے اورکئی ایک تعلیمی اداروں میں پڑھنے کاموقع مصنف کوملاجویقینابہت سے مشاہدات اور تجربات سے ہم کنارکرگیا۔اُن تجربوں اورمشاہدوں کوبھی خوبی سے بیان کیا گیا۔البتہ دو حوالوں سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ قدآور اساتذہ، نامور دوستوں اور تعلق داروں کاتذکرہ بس تذکرے کے لیے ہی کیا گیا۔یقینامصنف نے اس ضمن میں کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ورنہ ڈاکٹرعبداللہ،قدرت اللہ شہاب اور ممتازمفتی سمیت کئی ایک مشاہیر کے ساتھ ملاقاتوں کااحوال کئی سوصفحات کومحیط ہوسکتا تھا۔تاہم منشایاد سے اپنے تعلق کو قدرے سے تفصیل سے بیان کیا۔ دوسرا یہ کہ کالج کی زندگی اورجوانی کے دنوں کوصرف فلمی میگزین کے شوق تک محدودرکھ کر بیان کیا گیااوراُس زمانے کاجوخاصہ ہوتا ہے اُسے کمال مہارت سے چھپا لیا۔کتاب کے آخر میں جا کر کہیں اعتراف کیا گیا کہ ” ہاں ! عشق بھی ہوا تھا مگرماں کے سامنے ایک نہ چلی اور وہ بِن دیکھی لڑکی بیاہ کر لے آئیں۔“یہ تذکرہ بھی یہیں تک ہے۔دیگرخودنوشتوں کی طرح ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “کے مصنف نے اس طرف توجہ کم دی ہے، البتہ صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر دوست کی داستانِ عشق بیان کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔اگرچہ یہ ضروری تو نہیں لیکن رائج خودنوشتوں کے سامنے یہاں یہ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ مصنف نے شریک زندگی کے لیے ” کُھرچن “ کا لفظ استعمال کر کے ایک وسیع تر فلسفے کو بیان کیا ہے۔ یہ لفظ معنوی اعتبار سے اس قدر امیر ہے کہ کوئی اوراس کابدل ہو ہی نہیں سکتا اور اس لفظ سے جو کام لیا گیا ہے شاید ہی کسی اور نے لیا ہو۔
کتاب کا زیادہ حصہ ملازمت کی کار گزاری پرمشتمل ہے ۔ مختلف کالجوں میں پڑھانے اور پھر وزارت تعلیم میں کئی عہدوں پر فرائض انجام دیتے ہوئے جن حالات اورلوگوں کا سامنا ہوا انھیں قلم بند کر کے مصنف نے وہ حالات قاری کو پڑھنے کے لیے دیے ہیں جو عمومی طور پر بیان نہیں کیے جاتے۔ رفقائے کار کی آپس میں کھینچا تانی، وزارتوں میں لا یعنیوں پر وقت لگانا، قومی سرمایے کو تعیشات اور فضول کاموں پر ضائع کرنا، کاغذی منصوبے بنانا اور بناتے ہی رہنا ، غیر ملکی قرضوں سے ذاتی سہولیات کا سامان خریدنا، بندر بانٹ ، سکالر شپ کے نام پر اقربا پروری اور بونے لوگوں کو نامزد کرنا، نظامِ تعلیم میں ہزارہا خرابیوں کی اصلاح چھوڑ کر نئی نئی پالیسیاں بنانا،بوٹی مافیا میں خود اداروں کا شریک ہونا،قومی اخراجات پر لاحاصل غیر ملکی دورے کرنا،بے معنی و بے مقصد سیمی نارز اور واک کرنا، این جی اوز اور نیم سرکاری اداروں میں بیٹھ کر قوم کے لیے ملنے والی رقوم کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنا ایسے ہی واقعات ہیں جنھیں عام طور پر نہیں لکھا جاتا۔ خصوصاً وہ لوگ نہیں لکھتے جو ان اداروں یا واقعات کے کسی طرح بھی قریب رہے ہوں۔ بھائی بندوں کی پردہ داری کے اس رواج کو مصنف نے توڑنے کی خوش کن کوشش کی ہے۔ تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس جمع تفریق اور جوت طاق کے عمل سے گزرتے ہوئے قاری کو یقیناتھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ان باتوں کا بیان اس انداز سے کیا گیا ہے کہ قاری کی دل چسپی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تھکاوٹ کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اُس مقام تک پہنچ جاتا جہاں مصنف نے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کا چشمہ لگا رکھا ہے۔ پھر قاری خوب سیر ہو کر اپنی پیاس بجھاتا ہے اور تازہ دم ہوکر کتاب کے اختتامیہ کی جانب بڑھنے لگتا ہے ۔ مصنف کمال مہارت سے وزارتی اور دیگر امور کی کارگزاری سے نکال کر ”ماں“ کے تذکرے پر لے آتا ہے۔ یہی نقطہ ٴ عروج ہے۔ماں کے بیان اور سلوک کی جوتصویر مصنف کھینچ کر ہمارے سامنے لاتا ہے ،اُسے اَمرکردیتا ہے۔ماں سے جڑی ہوئی تمام محبتیں اور خوش سلیقگی اس خوبی سے بیان کی گئی ہے کہ بار بار یہ حصہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہی نہیں بلکہ عورت(دادی،ماں،بہن،بیوی ،بیٹی اورساس)سے متعلق مصنف کا انداز تحریر اپنے اندر وارفتگی کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے آپ کو قلم کے سپرد کردیا ہے اور خودسپردگی کے اس عالم میں دریا کی روانی کی طرح بہے چلے جا رہا ہے۔جس قدر شیرینی اورلوچ اس حصے میں ہی باقی حصوں میں وہ مقدار قدرے کم ہے۔گویا ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “کا ماحصل یہیں ہے۔ عورت کی تکریم کا جذبہ یہاں عام لوگوں کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بوڑھے دادا ،والد،بھائیوں اور بیٹے کا تذکرہ بھی کمال محبت سے کیا گیا ہے۔
” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ ہوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں سفرنامے کا لطف بھی دَر آیا ہے۔ مصنف نے دورانِ تعلیم یا پھر ملازمت کے عرصے میں جن جن علاقوں اورممالک کے دورے کیے وہاں کی ایسی منظرکشی کی کہ وہ تمام مناظر قاری کی آنکھوں میں خود بہ خود اُترجاتے ہیں۔ خصوصاً چین میں گزارے گئے دو سالوں کا احاطہ انتہائی خوش سلیقگی سے کیا گیا ہے۔اسی طرح شمالی علاقوں کے اسفار بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہیں۔ دیگر ممالک اور شہروں کے اسفار کی قلمی تصاویر بھی خوبی اور احتیاط سے اُتاری گئی ہیں۔ گویا ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ بہ یک وقت آپ بیتی اور سفر نامہ ہے۔ ایک اور قابلِ بیان بات یہ ہے کہ مصنف کے اندر ٹھہراوٴ ہے اور یہی ٹھہراوٴ تحریر میں واضح نظر آتا ہے۔کسی بھی مرحلے پر اعتدال کی حدوں سے نکلنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ نمایاں خوبیاں میں سے ایک خوبی یہ ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلے قدم سے آخری قدم تک تمام سفر کے دوران شکر گزاری کا راستہ اختیار کیا۔ جتنی بھی ترقی کی منازل طے کیں انھیں مالک کا کرم قرار دیا اور کہیں کوئی بھول چوک ہوئی اسے اپنی خطا سمجھا۔ یہ رویہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان رکھنے والوں کا ہی ہو سکتا ہے۔ ورنہ تو یہی کہتے سنا ہے ” آج میں جس مقام پر ہوں اس کے لیے میں نے سخت محنت کی ہے “۔
بلا خوفِ تردید میں کہہ سکتا ہوں کہ ” ماں ،میں تھک گیا ہوں “ اُردو اَدب میں گراں قدر اضافہ ہے اور(خصوصاً)نئے لکھنے والوں کے لیے سمت نما بھی۔کیوں کہ یہ کتاب مصنف کے تجربات و مشاہدات تو ظاہرکرتی ہی ہے مگرزندگی کے لیے راستوں کا تعین بھی کر جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کوئی کتاب مطالعے کے بعدکچھ دے جائے تواُسے انعام ہی سمجھنا چاہیے۔بہت کم کتابیں ہوتی ہیں جو کچھ دے کر جاتی ہیں۔