ماں کا قرض

ایک بیٹا پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بن گیا. والد کی وفات کے بعد ماں نے ہر طرح کا کام کر کے اسے اس قابل بنا دیا تھا. شادی کے بعد بیوی کو ماں سے شکایت رہنے لگی کہ وہ ان کے اسٹیٹس میں فٹ نہیں ہے. لوگوں کو بتانے میں انہیں حجاب ہوتا کہ یہ ان پڑھ ان کی ماں - ساس ہے.

بات بڑھنے پر بیٹے نے ایک دن ماں سے کہا - "ماں .. میں چاہتا ہوں کہ میں اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ کوئی بھی قرض ادا کر سکتا ہوں. میں اور تم دونوں خوش رہیں اس لیے آج تم مجھ پر کئے گئے اب تک کے سارے اخراجات سود سمیت ملا کر بتا دو. میں وہ ادا کر دوں گا. پھر ہم الگ الگ سکھی رہیں گے.

ماں نے سوچ کر جواب دیا -"بیٹا _ حساب ذرا لمبا ہے، سوچ کر بتانا پڑے گا. مجھے تھوڑا وقت چاہیے."
بیٹے نے کہا - "ماں .... کوئی جلدي نہیں ہے. دو - چار دنوں میں بات کرنا."

رات ہوئی، سب سو گئے. ماں نے ایک لوٹے میں پانی لیا اور بیٹے کے کمرے میں آئی. بیٹا جہاں سو رہا تھا اس کے ایک طرف پانی ڈال دیا. بیٹے نے کروٹ لے لی. ماں نے دوسری طرف بھی پانی ڈال دیا. بیٹے نے جس طرف بھی کروٹ لی .. ماں اسی طرف پانی ڈالتی رہی تو پریشان ہو کر بیٹا اٹھ کر كھيج کر بولا کہ ماں یہ کیا ہے؟ میرے بستر کو پانی پانی کیوں کر ڈالا ...؟
ماں بولی -"بیٹا، تونے مجھ سے پوری زندگی کا حساب بنانے کو کہا تھا. میں ابھی یہ حساب لگا رہی تھی کہ میں نے کتنی راتیں تیرے بچپن میں تیرے بستر گیلا کر دینے سے جاگتے ہوئے كاٹي ہیں. یہ تو پہلی رات ہے اور تو ابھی سے گھبرا گیا ..؟ میں نے تو ابھی حساب شروع بھی نہیں کیا ہے جسے تو ادا کر پائے. "

ماں کی اس بات نے بیٹے کے دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا. پھر وہ رات اس نے سوچنے میں ہی گزار دی.
شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ماں کا قرض کبھی نہیں اتارا جاسکتا۔

(نا معلوم)
 

مہ جبین

محفلین
کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ماں کا قرض اتار سکے
چاہے اپنی کھال کے کپڑے بنا کر ماں کو پہنادے جب بھی یہ قرض نہیں اترے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
یعنی عورت برتر ہوئی ناں!
دیکھیئے، عورت اور مرد کو اگر آپ ان کے کردار کی نوعیت سے دیکھیں گے تو الگ بات ہے جیسے ماں اور بیٹے کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، ماں ہمیشہ جیتے گی۔ باپ اور بیٹی کے رشتے میں باپ افضل رہے گا۔ تاہم اگر آپ انہیں بطور انسان کے دیکھتے ہیں تو ان کے فرائض مختلف لیکن ان کے حقوق یکساں اور مساوی ہیں :)
 
دیکھیئے، عورت اور مرد کو اگر آپ ان کے کردار کی نوعیت سے دیکھیں گے تو الگ بات ہے جیسے ماں اور بیٹے کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، ماں ہمیشہ جیتے گی۔ باپ اور بیٹی کے رشتے میں باپ افضل رہے گا۔ تاہم اگر آپ انہیں بطور انسان کے دیکھتے ہیں تو ان کے فرائض مختلف لیکن ان کے حقوق یکساں اور مساوی ہیں :)
ماں کی حیثیت سے وہ ہر لحاظ سے برتر ہے۔

بطور انسان کے ان کے فرائض مختلف ہیں تو ان کے حقوق یکساں اور مساوی کیسے ہو گئے۔
فرائض اور حقوق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں!
 

قیصرانی

لائبریرین
بطور انسان کے ان کے فرائض مختلف ہیں تو ان کے حقوق یکساں اور مساوی کیسے ہو گئے۔
فرائض اور حقوق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں!
محترم، حقوق میں روٹی کپڑا اور مکان یعنی رزق کا حصول، مناسب پہناوا، رہنے کی مناسب جگہ، صحت کی سہولیات، تعلیم کا حق وغیرہ آ جاتے ہیں۔ فرائض میں مرد کے لئے حصول رزق فرض ہے جبکہ عورت کے لئے نہیں۔ بوقتِ جہاد اگر مرد پر جہاد فرض ہے تو عورت پر نہیں۔ اسی طرح بے شمار مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں :)

واضح رہے کہ میں نے انسانیت کو بنیاد بنا کر مرد اور عورت کا تذکرہ کیا ہے نہ کہ مسلمانیت بنیاد بنا کر
 
میں آپکے اوپر دیئے گئے تمام حوالاجات سے قلی متفق ہوں۔

"باپ پر فرض ہے کہ اولاد کو اچھی تعلیم دے"
اس بات کو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں۔
"اولاد کا حق ہے کہ اچھی تعلیم حاصل کرے"

میرے حقوق مختلف لوگوں کے فرائض ہیں مثلاً باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ
اور اسی طرح میرے فرائض مختلف لوگوں کے حقوق ہیں مثلاً باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ

محترم، حقوق میں روٹی کپڑا اور مکان یعنی رزق کا حصول، مناسب پہناوا، رہنے کی مناسب جگہ، صحت کی سہولیات، تعلیم کا حق وغیرہ آ جاتے ہیں۔ فرائض میں مرد کے لئے حصول رزق فرض ہے جبکہ عورت کے لئے نہیں۔ بوقتِ جہاد اگر مرد پر جہاد فرض ہے تو عورت پر نہیں۔ اسی طرح بے شمار مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں :)

واضح رہے کہ میں نے انسانیت کو بنیاد بنا کر مرد اور عورت کا تذکرہ کیا ہے نہ کہ مسلمانیت بنیاد بنا کر

میرے خیال میں انسانیت نے کسی پر کوئی حق یا فرض نہیں رکھا۔ کسی نہ کسی مذہب سے یہ باتیں evolve ہوتی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے خیال میں انسانیت نے کسی پر کوئی حق یا فرض نہیں رکھا۔ کسی نہ کسی مذہب سے یہ باتیں evolve ہوتی ہیں۔
میں شاید اپنی بات واضح نہیں کرپایا، اس لئے معذرت

میرا مقصد یہ تھا کہ میں انسان کو انسان سمجھ کر یہ بات کہہ رہا ہوں نہ کہ اسے مسلمان کی حیثیت سے۔ یعنی میری نظر میں یہ سارے حقوق یا جو بھی فرائض اس پر لاگو ہوں گے، وہ اس کے مذہب سے قطع نظر ہوں گے :)
 

arifkarim

معطل
دنیا میں ہر انسان کا جنم ہی ماں کی بدولت ہے۔ اگر ماں نئے بچے پیدا نہ کرتی تو یہ نسل انسانی کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ بچے کی پیدائش کے دوران تکالیف سے لیکر انکی جوانی تک ماں اپنی اولاد کی خاطر انگنت تکالیف، مسائل، مصائب برداشت کرتی ہے۔ اگر پھر بھی مغربی سردددل اقوام کی طرح ماں کے بڑھاپے میں اولاد ماں کی خدمت کی بجائے دنیاوی رنگینیوں میں کھوئی ہوئی تو پھر ایسی اولاد کیلئے ہلاکت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
دنیا میں ہر انسان کا جنم ہی ماں کی بدولت ہے۔ اگر ماں نئے بچے پیدا نہ کرتی تو یہ نسل انسانی کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ بچے کی پیدائش کے دوران تکالیف سے لیکر انکی جوانی تک ماں اپنی اولاد کی خاطر انگنت تکالیف، مسائل، مصائب برداشت کرتی ہے۔ اگر پھر بھی مغربی سردددل اقوام کی طرح ماں کے بڑھاپے میں اولاد ماں کی خدمت کی بجائے دنیاوی رنگینیوں میں کھوئی ہوئی تو پھر ایسی اولاد کیلئے ہلاکت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟
میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ مغربی اقوام محض سرد دل نہیں، لاجیکل ہیں۔ تاہم یہ لاجیک تکلیف دہ حد تک چلی جاتی ہے۔ مثلاً ماں باپ نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا تو کون سا تیر مارا، ساری دنیا یہی کرتی ہے۔ تاہم پھر جب اپنے بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ان سے بھی توقع نہیں رکھتے کہ بڑھاپے میں بچے ان کی خدمت کریں گے۔ یعنی سوچ کا محور اپنی ذات یا اس حد تک محدود ہو جاتا ہے جہاں ان کا براہ راست فائدہ ہو۔ تاہم ان میں بھی ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں
 
میں شاید اپنی بات واضح نہیں کرپایا، اس لئے معذرت

میرا مقصد یہ تھا کہ میں انسان کو انسان سمجھ کر یہ بات کہہ رہا ہوں نہ کہ اسے مسلمان کی حیثیت سے۔ یعنی میری نظر میں یہ سارے حقوق یا جو بھی فرائض اس پر لاگو ہوں گے، وہ اس کے مذہب سے قطع نظر ہوں گے :)
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، آپ نے بہت اچھی دلیل دیں ہیں، اچھی بحث رہی، مقصد پورا ہو گیا، :dancing:
 

arifkarim

معطل
میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ مغربی اقوام محض سرد دل نہیں، لاجیکل ہیں۔
ہاہاہا۔ کیا بات کر دی آپنے! کیا اولڈ ہومز، ڈسکوز، شراب خانے، کھلے عام فحاشی کے مراکز بھی "لاجیکل" کے زمرے میں آتے ہیں؟ :laugh:

تاہم یہ لاجیک تکلیف دہ حد تک چلی جاتی ہے۔ مثلاً ماں باپ نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا تو کون سا تیر مارا، ساری دنیا یہی کرتی ہے۔
یہی تو عجیب غیر منطقی سوچ ہے اہل مغرب کی! ماں باپ اگر اپنی اولاد سے محبت نہ کرتے ہوتے تو آج ایک بھی انسان دنیا میں پیدا نہ ہوتا! بچے کی کامیاب پرورش کرنا ہی تو سب سے بڑا تیر مارنا ہے۔ جسپر مستقبل کی کامیاب نسل انسانی کا انحصار ہے۔ ورنہ بچے تو جانوروں کے بھی روزانہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ ایک انسان کے بچے اور ایک جانور کے بچے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انسان ایک سوچتا، سمجھتا، روحانی "جانور" ہے۔ اور جن انسانی بچوں کی جانوروں جیسی نشونما ہوتی ہے انکے جوانی اور بلوغت سے پہلے ہی منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں!

تاہم پھر جب اپنے بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ان سے بھی توقع نہیں رکھتے کہ بڑھاپے میں بچے ان کی خدمت کریں گے۔ یعنی سوچ کا محور اپنی ذات یا اس حد تک محدود ہو جاتا ہے جہاں ان کا براہ راست فائدہ ہو۔ تاہم ان میں بھی ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں
یہ درست ہے کہ یہاں مغرب میں معاشی خوشحالی کے باعث بڑھاپے میں مالی خدمت والا بوجھ اولاد پر نہیں ہوتا لیکن سماجی اور گھریلو خدمت کا کیا؟ جب انسان ساری زندگی گزار کر بڑھاپے تک پہنچتا ہے اور اپنی جوانی کے یار، رشتہ دار وغیرہ سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو ایسے میں اولاد ہی وہ واحد لڑی ہے جو اس طویل عمر اداسی میں انسان کے کام آتی ہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام خوش و خرم گزر جاتے ہیں۔ میرا اکثر یہاں کے اولڈ ہومز کا چکر لگتا رہا ہے اور ان بیچارے ضعیف العمر گوروں کی نام نہاد "لاجیک" کو دیکھ کر آنسوں آجاتے ہیں کہ پورے سال میں صرف دو دن انکی اولادیں انکے ساتھ ہوتی ہیں یعنی کرسمس کی چھٹیوں میں!
 

قیصرانی

لائبریرین
ہاہاہا۔ کیا بات کر دی آپنے! کیا اولڈ ہومز، ڈسکوز، شراب خانے، کھلے عام فحاشی کے مراکز بھی "لاجیکل" کے زمرے میں آتے ہیں؟ :laugh:
میرا اکثر یہاں کے اولڈ ہومز کا چکر لگتا رہا ہے اور ان بیچارے ضعیف العمر گوروں کی نام نہاد "لاجیک" کو دیکھ کر آنسوں آجاتے ہیں کہ پورے سال میں صرف دو دن انکی اولادیں انکے ساتھ ہوتی ہیں یعنی کرسمس کی چھٹیوں میں!
یہ دو باتیں میں نے کاپی کی ہیں آپ کی پوسٹس سے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اولڈ ہومز کو آپ ڈسکوز، شراب خانوں اور کھلے عام فحاشی کے مراکز سے نہیں ملا سکتے۔ دو الگ باتیں ہو جاتی ہیں

اولڈ ہومز میں یہ لاجک ہے کہ اگر کوئی بندہ اکیلا نہیں رہ سکتا اور عمر زیادہ ہو گئی ہے تو بھی کم از کم گھر پڑا مرتا نہیں رے گا۔ کم از کم اس کی کسی حد تک دیکھ بھال ہوتی رہے گی۔ تیار کھانا ملتا رہے گا۔ کپڑے دھلے ملتے رہیں گے۔ باقی رہی بات پیار محبت کی تو وہ ویسے ہی "لاجیک" سے مبرا ہے

یہاں میں نے بہت سارے گھرانوں میں دیکھا ہے وہ لوگ اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں۔ ہر روز ان کے گھر گئے، کھانا وغیرہ بنایا یا گرم کر کے دیا، ایک آدھ گھنٹہ گپ شپ کی، صفائی وغیرہ ہر ہفتے کرتے ہیں۔ ہر تہوار ان کے ساتھ منایا کرتے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس اولڈ ہومز بھی بھرے ہوئے ہیں ان لوگوں سے جن کی یا تو اولاد نہیں یا پھر وہ ملک سے باہر ہے یا پھر ساتھ نہیں رکھنا چاہتی
 

فہیم

لائبریرین
ماں کا قرض کون اتار سکتا ہے بھلا۔

لیکن یہ تحریر زمرہ گپ شپ میں کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔
 
Top